0
Wednesday 3 Jan 2018 20:30

ٹرمپ ِناداں تجھے ہوا کیا ہے!

ٹرمپ ِناداں تجھے ہوا کیا ہے!
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

کسی بھی ریاست کا سربراہ، اس کا ترجمان ہوتا ہے، اس وقت مسٹر ٹرمپ فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ امریکی صدر کا نام ہے، وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں، اس کے پیچھے مکمل پلاننگ اور نقشہ ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی پے درپے تبدیلیوں نے دراصل سعودی و امریکی مفکرین اور اسٹریٹجک اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ افغانستان میں  سعودی عرب اور امریکہ طالبان کے بعد دوبارہ طالبان نما حکومت بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں، پاکستان میں شیعہ و سُنّی کا محاذ گرم کرکے ایران کے خلاف ماحول بنانے میں بھی انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے، عرب دنیا میں قطر پہلے ہی امریکہ نواز اتحاد سے فرار ہوچکا ہے، عراق میں شیعہ و سنّی و مسیحی اور ایزدی مختلف اقوام و ملل نے مل کر داعش و طالبان جیسے دہشت گرد ٹولوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ہے اور ادھر شام میں بشار الاسد نے امریکہ اور اس کے حامی عربوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں، لبنان کی سیاست سے حزب اللہ کو باہر کرنے کے لئے سعد حریری کو سعودی عرب بلا کر زبردستی وزارتِ عظمٰی سے استعفٰی   دلوانے کی چال چلی گئی جو ناکام ہوئی، سعد حریری نے واپس لبنان آکر اپنا استعفٰی واپس لے لیا اور یوں امریکہ و سعودی عرب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

جون 2017ء میں ایران کے دارالحکومت تہران میں داعش سے ایرانی پارلیمنٹ کی عمارت اور امام خمینی کے مزار پر حملہ کروایا گیا، اِن حملوں میں 12 افراد جاں بحق جبکہ 42 زخمی ہوگئے، حملہ کروانے کا مقصد ملک میں انارکی اور خوف پھیلانا تھا اور ایران سے غیر منطقی  بیانات داغنے کی امید تھی جو کہ خاک میں مل گئی، اس کے بعد حالیہ دنوں میں ایران میں  ریالوں اور ڈالروں کی مدد سے ننھے مُنّے جلسے جلوسوں کے ذریعے ایرانی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ اب رہی بات یمن اور بحرین میں سعودی مداخلت کی تو ساری دنیا ان ممالک میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت اور حملوں کی بھرپور مذمت کر رہی ہے۔ اس وقت امریکی و سعودی حکومتیں مکمل طور پر بوکھلاہٹ کی شکار ہیں، گذشتہ دنوں امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے بوکھلاہٹ کے مارے پاکستان سے بھی تعلقات کشیدہ کر لئے ہیں، امریکی ترجمان کے مطابق پاکستان کو 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد جاری نہیں کی جائے گی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے، جس کی روشنی میں ہی دونوں ممالک کے تعلقات بشمول فوجی امداد کا فیصلہ کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست سے ہی ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کی 255 ملین ڈالر کی امداد روکی ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیڈرز بے وقوف ہیں۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں  فراہم کرتا ہے، جس سے افغانستان میں دہشتگردوں کو نشانہ بنانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے، لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔[1] اگر قارئین کو یاد ہو تو کچھ عرصہ پہلے اسی طرح    سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان آل سعود نے بھی پاکستانیوں کو دھوکہ باز کہا تھا۔[2] قابلِ ذکر ہے کہ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بعد فلسطین کو بھی امداد روکنے کی دھمکی دے دی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ امریکہ پاکستان و دیگر ممالک کو اربوں ڈالر دیتا ہے مگر یہ کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے فلسطین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین ہر سال ہم سے اربوں ڈالر لیتا ہے، مگر یہ ہمارا احترام نہیں کرتا، جبکہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کیلئے بھی تیار نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا کہ ہم نے نئے امن مذاکرات کے تحت یروشلم جیسے متنازعہ شہر کا مسئلہ اٹھایا، جس پر بحث کرنا ایک بہت مشکل عمل تھا، لیکن اسرائیل کو بھی اس کے لئے مزید کام کرنا ہوگا، تاہم اگر فلسطین امن کے لئے تیار نہیں تو ہم مستقبل میں اس کی امداد کیوں جاری رکھیں۔[3] اس وقت امریکہ اور سعودی عرب دنیا میں اپنی واضح شکست اور غلط پالیسیوں کے عیاں ہو جانے کے بعد کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے ملک کی پُشت کے پیچھے اپنا منہ چھپانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے انہیں پاکستان اور فلسطین ہی نظر آئے ہیں، لیکن اب یہ پالیسی بھی چلنے والی نہیں، چونکہ پاکستان بالآخر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور پاکستانی عوام پہلے سے ہی امریکہ و سعودی عرب کے اثر و نفوذ سے نالاں ہیں، دوسری طرف فلسطینی عوام بھی امریکہ و سعودی عرب کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ اگر صورتحال یونہی چلتی رہی اور امریکی و سعودی پالیسی ساز اداروں نے اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی نہ کی تو مستقبل میں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی امریکہ و سعودی عرب کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
[1]https://dailypakistan.com.pk/01-Jan-2018/705491
[2] https://www.linkedin.com/pulse/letter-from-saudi-defence-minister-pakistanis-mehr-liaqat-gunpal
[3] http://www.nawaiwaqt.com.pk/international/03-Jan-2018/741420
خبر کا کوڈ : 694556
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش