0
Wednesday 3 Jan 2018 17:58

مولانا محمد علی جوہر اور تاریخی کنفیوژن

مولانا محمد علی جوہر اور تاریخی کنفیوژن
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

اقوام، ممالک اور ملل کا حافظہ تاریخ ہوتی ہے، جب تاریخ کنفیوز ہو جائے تو اقوام اور ملل بھی کنفیوز ہو جاتی ہیں، 4 جنوری مولانا محمد علی جوہر کا یومِ وفات ہے، ضروری ہے کہ اس روز کی مناسبت سے تاریخ کی چھان بین کی جائے اور کچھ تاریخی حقائق کو  واضح کیا جائے۔ مولانا محمد علی جوہر کی زندگی فعالیت اور جدوجہد سے عبارت ہے، ہم مسلم لیگ کے قیام سے شروع کرتے ہیں، 1906ء میں ڈھاكہ میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اس اجلاس كی صدارت نواب وقار الملک نے كی۔ اجلاس میں نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا۔[1]

اس کے بعد جو تاریخ میں اہم واقعہ رونما ہوا، وہ پہلی جنگِ عظیم کا ہے۔ یہ جنگ 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک جاری رہی، اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ اور دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکہ تھے۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کر دی۔ 1914ء سے 1918ء کے درمیانی چار سالوں میں برصغیر کے مسلمان خلافت عثمانیہ کی بقا کے لئے بہت پریشان تھے۔ یہاں پر برصغیر کی مسلم قیادت زبردست کنفیوژن کا شکار تھی۔ مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے، مسلم لیگ پر اعتماد نہیں کیا گیا بلکہ مسلم لیگ پر عدمِ اعتماد کرتے ہوئے الگ سے خلافت کمیٹی بنائی گئی۔ خلافت کمیٹی سے منسلک لوگ ایک طرف تو ترکی کی خلافت کو الٰہی خلافت سمجھتے تھے اور دوسری طرف اُسے بچانے کے لئے برطانیہ سے مدد کے خواہاں تھے، جو کہ اُن کے نظریہ توحید کے بالکل برعکس تھا۔ اس کی مثال کلبھوشن یادو کے بیانات اور گرفتار شدہ طالبانیوں کے اعترافات ہیں کہ یہ خلافت کے علمبردار، خلافت الٰہیہ کے قیام کے لئے ہندوستان سے مدد لیتے چلے آرہے ہیں۔

یہ صورتحال آج بھی مسلمانوں کے ہاں پائی جاتی ہے کہ ایک طرف تو توحید کے نام پر کسی دوسرے مسلمان کو نبی اکرمﷺ کے مزار کی جالی کو بھی نہیں چومنے دیتے اور دوسری طرف ٹرمپ اور آرئیل شارون کے گالوں کو چومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ترکی کی خلافت کو بچانے کے لئے جو تحریک خلافت شروع کی گئی اور جس کا بانی مولانا محمد علی جوہر کو کہا جاتا ہے، 5 جولائی 1919ء کو خلافت کے مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے جو بمبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی گئی، اس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور سیکرٹری صدیق کھشتری منتخب ہوئے۔ تحریک خلافت میں کسی طرح  سے بھی دو قومی نظریہ کارفرما نہیں تھا، اس تحریک میں مسلم لیگ کے بجائے کانگرس اور گاندھی جی پر اعتماد کیا گیا اور  ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر یہ تحریک چلائی گئی تھی۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ تحریک خلافت چلانے والے مسلمانوں نے اپنے  اتحادی ہندووں کو خوش کرنے کے لئے یہ فتویٰ بھی دیا کہ ہندوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے اس سال بقرِ عید پر مسلمان گائے کی قربانی نہ کریں۔[2]

عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح اس وقت مسلمانوں کو پسِ پشت ڈال کر ہندووں کو خوش کرنے کے لئے فتوے دیئے گئے تھے، اسی طرح آج بھی ہمارے ہاں امریکہ و اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے فتوے دیئے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت میں مسلمانوں کے تین ہی بڑے مطالبات تھے:
الف] ترکی کی خلافت برقرار رکھی جائے۔
ب] مقامات مقدسہ (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ) ترکی کی تحویل میں رہیں۔
ج] ترکی سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔
سعودی عرب میں آل سعود کے جد امجد عبدالعزیز ابن سعود نے سعودی عرب کے نام سے الگ مملکت کے قیام کا اعلان کرکے تینوں مطالبات پر پانی پھیر دیا اور یوں تحریک خلافت پر سعودی عرب نے خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ 1920ء میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان، اٹلی اور فرانس کے دورے پر روانہ ہوا، تاکہ وزیراعظم برطانیہ اور اتحادیوں کو ان کے وعدے یاد دلائے۔ وفد نے برطانیہ پہنچ کر وزیراعظم لائیڈ جارج سے ملاقات کی، لیکن اس کا جواب "آسٹریلیا اور جرمنی سے خوف ناک انصاف ہوچکا اور ترکی اس سے کیوں کر بچ سکتا ہے۔“ سن کر مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد وفد نے اٹلی اور فرانس کا بھی دورہ کیا مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی۔[3] شنوائی کیا ہونی تھی، جب ایک طرف تو مصطفٰی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کرکے اپنی صدارت کا اعلان کر دیا اور دوسری طرف سعودی عرب نے  ترکی سے علیحدگی اختیار کرلی تو تحریکِ خلافت نے اب مزید کیا چلنا تھا!!!

اس تحریک کی ناکامی کے بعد حالات کا ازسرِ نو جائزہ لینے کے بجائے ایک انتقامی سوچ کو اپنایا گیا اور تحریک عدم موالات شروع کر دی گئی، جس کے مندرجہ ذیل اہداف تھے:
حکومت کے خطابات واپس کر دیئے جائیں۔
کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا جائے۔
سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔
تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔
مقدمات سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کئے جائیں۔
انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اسی طرح مولانا عبدالباری، مولانا ابولکلام آزاد، علی برادران کی ایما پر تحریک ہجرت بھی شروع کی گئی، جس کی رو سے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر مسلمانوں کو یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ دیا گیا۔ جس پر ہزاروں مسلمانوں نے اپنے کاروبار اور گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم تعاون سے ناکام ہوگئی۔[4] یہ تو پتہ نہیں چلا کہ فتویٰ دینے والوں نے خود بھی ہجرت کی یا نہیں البتہ اس ہجرت میں مسلمانوں کو بہت بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کی مثال بھی آپ کو ہمارے ان جہادی ملاوں کی صورت میں مل سکتی ہے کہ جن کے فتووں کی وجہ سے لوگوں کے بچے تو دہشت گرد بن کر جیلیں کاٹ رہے ہیں، یا دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ان کے اپنے بچے لندن و امریکہ  سے اعلٰی تعلیم کی ڈگریاں لئے پھرتے ہیں۔

یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تاریخ کو بیان کرتے ہوئے اسے اپنی پسند و ناپسند میں ڈھالنے کے بجائے شفاف طریقے سے بیان کرنا چاہیے، تاکہ ہم قومی و نظریاتی طور پر کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔ ہمیں مطالعہ پاکستان میں تحریکِ خلافت کے حوالے سے صاف بتانا چاہیے کہ اس تحریک کا مسلم لیگ یا دو قومی نظریئے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور مولانا محمد علی جوہر اگرچہ متحدہ قومیت کے علمبردار تھے، تاہم انہیں کانگرس اور گاندھی جی کے رویئے سے اتنی مایوسی ہوئی کہ بالاخر آپ کانگرس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تاریخی حافظے سے اچھی طرح کام لیں اور غلط کو صحیح سے جدا کریں۔ کانگرس اور گاندھی جی پر اعتماد کرنا ایک تاریخی غلطی تھی، چونکہ مولانا محمد علی جوہر جس خلافت کے داعی تھے، کانگرس یا گاندھی جی کبھی بھی اس کے حامی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر کے ایک اداریئے سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو: ”اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے، وہ مسلمانوں کے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے، جو ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کا ہو اور جس وقت تحریک خلافت کو ایک دفعہ پھر منظم کر دیا جائے گا تو اس سے عالم اسلام کی رہنمائی ہوگی۔ جیسا کہ جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ موتمر اور اس کی مجلس تنفیذیہ میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے ایک نظام کا سلسلہ قائم ہوگیا ہے اور یہ مختصر سا بیج مستقبل میں ازسرنو قائم کردہ خلافت کی جڑ ہوگا، جو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم ہوگی۔ اسلام کا یہی سب سے بہتر نظام ہے اور ہمیں بجائے اس کے کہ ہم دوسرے چھوٹے چھوٹے نظام قائم کریں، اس کے قیام کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے۔ اب ہمیں اس مینار کو اٹھانے کے لئے چاروں طرف سے لگ جانا چاہئے۔ جس کی ابتدا ہندوستان سے ہو اور ان شاء اللہ بہت جلد ہم یہ دیکھیں گے کہ اس عمارت کی چوٹی تاج خلافت سے مزین ہوگی اور یہ خلیفہ عالم اسلام کی آزادی راہ سے منتخب ہوگا۔“ (ہمدرد 20 ستمبر 1924ء)[5]

جنوری 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ جہاں  آپ نے آزادی وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ 4 جنوری 1931ء کو ساڑھے نو بجے صبح لندن کے ہائڈ پارک ہوٹل میں جہاں ان کا قیام تھا، وہیں آپ نے وفات پائی اور مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی خواہش کے پیشِ نظر انہیں بیت المقدس میں دفن کیا گیا، مولانا کی قبر پر انہیں کا ایک شعر آج بھی لکھا ہوا ہے۔
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کُھلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A2%D9%84_%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7_%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85_%D9%84%DB%8C%DA%AF
[2] http://daanish.pk/6872
[3] https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81%D8%AA
[4] https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81%D8%AA
[5] http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/04-Jan-2013/%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%AC%D9%88%DB%81%D8%B1
خبر کا کوڈ : 694562
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش