4
1
Thursday 4 Jan 2018 02:07

ایران کیخلاف امریکی سازشوں کی تاریخ

ایران کیخلاف امریکی سازشوں کی تاریخ
تحریر: عرفان علی

تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور ملکی و عالمی سیاست کے ادنٰی طالب علم اور ایک صحافی کی حیثیت سے یہ ناچیز حالات و واقعات کو سمجھنے کے لئے شروع سے قائل رہا ہے کہ سب سے پہلی چیز درست اور مستند معلومات کے ذریعے ہی حالات و واقعات کے بارے میں کوئی درست رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ تنہا درست معلومات (خبریں) بھی کافی نہیں بلکہ حالات کو اس کے درست تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت بھی لازم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ پچھلے چند روز سے ایران عالمی ذرائع ابلاغ کی سنسنی خیز خبروں کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایران میں مہنگائی، بے روزگاری اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف پرامن مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو درمیان میں غیر ملکی نیابتی جنگ لڑنے والے اس احتجاج کو ہائی جیک کرنے میدان میں آدھمکے۔ ان کی دھماچوکڑی، فائرنگ اور تشدد سے اصل احتجاج ختم ہوکر رہ گیا، اس کی کوریج کسی کو یاد نہ رہی بلکہ سبھی کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جانے لگی کہ ایران کا اسلامی انقلاب اب گیا اور تب گیا۔ لیکن ان امور پر گہری نظر رکھنے والے ایرانیوں کو معلوم تھا کہ پرتشدد واقعات کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ ایران کی قومی سلامتی کاؤنسل کے سربراہ اور سابق وزیر دفاع علی شمخانی نے عرب چینل المیادین سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب ایران میں فسادات کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔(1) جبکہ ایک اور خبر کے مطابق انہوں نے اس قضیے میں ان تین ممالک کے علاوہ جعلی ریاست اسرائیل کے ملوث ہونے کی بھی بات کی۔(2)۔ یقیناً ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جسے ان ذرائع ابلاغ پر یقین ہے کہ جو یہ سنسنی خیز خبریں جاری کر رہے ہیں اور وہ شمخانی صاحب سمیت کسی بھی ایرانی حکومتی یا ریاستی عہدیداران کے موقف کو اہمیت نہیں دے رہا۔ اس طبقے اور ایران مخالف میڈیا کے زاویہ نظر کے پیش نظر چند حقائق پیش خدمت ہیں۔

سابق امریکی وزرائے خارجہ کونڈولیزا رائس اور ہیلری کلنٹن کی شایع شدہ یادداشتیں(3) (4)، امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ اور سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی شائع شدہ یادداشتیں (5)، ایرانی امور پر اتھارٹی سمجھے جانے والے امریکی جیمز بل کی کتاب دی ایگل اینڈ دی لائن: دی ٹریجڈی آف امریکن ایرانین ریلیشنز، امریکی وزارت خارجہ کی پالیسی پلاننگ کاؤنسل کے سابق رکن ولیم پولک کی کتاب انڈر اسٹینڈنگ ایران، امریکہ کے نامور سابق وزیر خارجہ کی تصنیف ورلڈ آرڈر اور امریکی سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کے سابق اہم رکن کینیتھ پولاک کی تصنیف دی پرشین پزل: دی کنفلکٹ بٹوین ایران اینڈ امریکہ، متعدد ڈی کلاسیفائیڈ امریکی دستاویز، تہران میں امریکی سفارتخانے سے برآمد امریکی دستاویزات اور ان گنت امریکی تھنک ٹینکس کی ریسرچ رپورٹس اور امریکی و یورپی ذرائع ابلاغ کی خبروں اور تجزیوں سمیت درجنوں ماہرین کی کتابوں میں درج معلومات کی بنیاد پر یہ حقیر جو کچھ جانتا ہے، اس کو اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہے: درحقیقت دوسری جنگ عظیم کے وقت سے امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب ایک ہی بلاک کا حصہ ہیں اور جعلی ریاست اسرائیل بھی اپنے قیام کے وقت سے اس اتحاد کا حصہ ہے۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی کے آنے سے پہلے تک امریکہ اور برطانیہ ایران کے داخلی معاملات میں دخیل تھے۔ شہنشاہ ایران رضا پہلوی امریکہ کا منظور نظر تھا۔ 1971ء سے پہلے تک برطانیہ خلیج فارس کے بہت سے عرب علاقوں پر سامراجی کنٹرول رکھا کرتا تھا لیکن 1971ء میں اس نے یہاں بعض عرب قبائلی شیوخ کے ساتھ ڈیل کرکے انہیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا مملکتوں میں تبدیل کر دیا اور خود یہاں سے جانے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ میں رچرڈ نکسن کی حکومت پریشان ہوئی کہ خلیج فارس میں اب مغربی مفادات کا تحفظ کون کرے گا تو اس نے جڑواں ستون Twin Pillars کے عنوان سے رضا شاہ پہلوی کے ایران اور سعودی بادشاہت کو اس خطے میں اپنے مفادات کی چوکیداری کا ستون قرار دیا۔

انقلاب اسلامی ایران نے اس ستون کے ایک جڑواں چوکیدار کو ختم کر دیا تو دوسرے چوکیدار یعنی سعودی عرب نے امریکہ مخالف ایران کو اپنا دشمن قرار دے دیا۔ ایران کے اسلامی انقلابی نظریات نے اس خطے میں جعلی ریاست اسرائیل کے وجود کو ہی چیلنج کر دیا اور یوں پورے مشرق وسطٰی میں امریکی اتحادیوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا۔ یہ انقلاب ایسا تھا کہ امریکہ کے مایہ ناز ادارے سی آئی اے کو بھی آخر تک ایران میں انقلاب آتا ہوا پیشگی نظر نہیں آرہا تھا بلکہ رضا شاہ پہلوی ہی ان کی رپورٹس میں بغیر کسی خطرے کے اقتدار میں رہتے دکھائی دے رہے تھے۔ خیر، انقلاب آگیا تو امریکہ نے جنرل ہویزر کو بھیجا کہ ایران کے شاہ پرست فوجی افسران کو جمع کرکے انقلاب کے خلاف فوجی بغاوت کروا دے۔ اس میں بھی امریکہ ناکام ہوگیا۔ اکتوبر1979ء میں الجزائر کی آزادی کی سلور جوبلی تقریبات میں ایرانی اور امریکی حکومت کے نمائندگان بھی جمع ہوئے تو وہاں ایرانی انقلابی حکام سے برزنسکی اور رابرٹ گیٹس کی ملاقات ہوئی، مذاکرات ہوئے، برزنسکی نے یقین دلایا کہ امریکہ انقلابی حکومت کو تسلیم کر لے گا، لیکن ایران حکام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ امریکہ میں زیر علاج سابق شاہ ایران رضا پہلوی کو ایران کی انقلابی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ وہ امریکہ سے تعلقات نہیں بلکہ رضا پہلوی کی حوالگی چاہتے تھے۔ اس کے بعد نومبر 1979ء میں تہران میں امریکی سفارتخانے پر انقلابیوں نے احتجاج کیا، انہوں نے وہاں سے وہ دستاویزات برآمد کیں، جو یہ ثابت کرتی تھیں کہ تہران میں قائم امریکی سفارتخانہ پورے خطے میں امریکی سامراجی عزائم و اہداف کی تکمیل کے لئے کام کر رہا تھا اور ایران کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کر رہا تھا۔ انقلابیوں نے دستاویزی ثبوت پیش کر دیئے کہ یہ سفارتخانہ نہیں بلکہ امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والا ایک اڈہ تھا۔ پوری دنیا میں امریکی حکومت کی سبکی ہوئی۔ تب سے امریکی حکمران اداروں اور شخصیات نے یہ ٹھان لی کہ ایران کے انقلاب کو ختم کرکے یہاں دوبارہ شاہ ایران جیسا اپنا پٹھو برسر اقتدار لانا ہے۔

کہنے کو 20 جنوری 1981ء کو ایران اور امریکہ کے مابین الجزائر میں معاہدہ ہوا، جس میں امریکی حکومت نے ایرانی حکومت کو یقین دلایا کہ امریکہ ایران کے داخلی معاملات میں براہ راست یا بالواسطہ، سیاسی یا فوجی کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔ یہ امریکی یرغمالیوں کی رہائی کے لئے امریکہ کا معاہدہ تھا، لیکن درحقیقت امریکہ کا اپنے اس عہد کو نبھانے کا شروع سے کوئی ارادہ نہیں تھا اور شروع سے ریگن حکومت ایران کے نظام حکومت کو تبدیل کرنے کے ہدف پر گامزن تھے۔(6) ایک سال بھی نہیں گذرا تھا، سی آئی اے نے ایرانی حکومت کے دشمن گروہوں کو فنڈنگ شروع کر دی تھی۔ دیگر کے علاوہ، پیرس میں مقیم سابق ایرانی وزیراعظم علی امینی کے گروہ اور ترکی میں مقیم دو مسلح گروہوں جن میں سے ایک شاہ ایران کے دور کے سابق فوجی سربراہ کا گروہ تھا، اس کو بھی فنڈنگ کی گئی۔(7) عراق کو ایران پر جنگ کے لئے اکسانے والا امریکہ اور اس کے عرب اتحادی بالخصوص سعودی عرب تھے۔ عرب ممالک کے بحری آئل ٹینکر پر امریکی جھنڈے چڑھا کر خلیج فارس میں پٹرولنگ کی جاتی تھی، تاکہ امریکی عوام کو بے وقوف بنایا جاسکے (8) کہ ایران امریکی ٹینکروں پر حملے کر رہا ہے اور امریکہ کی اس خطے میں موجودگی اس لئے ضروری ہے کہ اس کے مفادات کو خطرہ ہے۔ ایران عراق جنگ ختم ہوگئی لیکن ایران کا انقلابی سیاسی نظام حکومت ختم نہ ہوسکا اور امریکہ نے ہر ممکن طریقے سے بین الاقوامی اداروں اور خاص طور پر اقتصادیات، سائنس و ٹیکنالوجی اور دفاعی شعبوں میں ایران کے راستے بلاک کر دیئے۔

امریکہ کو یہ آسرا تھا کہ ہاشمی رفسنجانی صاحب اور محمد خاتمی جیسے ایرانی سیاستدان امریکہ سے ایران کی دوستی کروا دیں گے، یہ الگ بات کہ امریکہ کی یہ خواہش تو پوری نہ ہوسکی بلکہ اس کے برعکس محمود احمدی نژاد ایران کے صدر بن گئے اور وہ مسلسل آٹھ سال عہدہ صدارت پر فائز رہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ ایران کا صدر آئے دن جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی کی بات کیا کرتا تھا اور امریکی صدر بش جونیئر کو تلقین کیا کرتا تھا کہ وہ ناجائز پالیسیوں کو ترک کر دے۔ خاتمی عہد صدارت میں ایران کے پرامن نیوکلیئر پروگرام کو یورپی یونین کے بڑے ممالک سے مذاکرات کے تحت یکطرفہ طور پر روک دیا گیا تھا، لیکن احمدی نژاد نے یورینیم کی 20ویں گریڈ پر افزودگی کا عمل بھی کامیابی سے طے کر لیا تھا۔ ایران پر بدترین اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں اور پوری دنیا کی طاقتیں ایران کے خلاف یکجا ہوگئیں تھیں، لیکن احمدی نژاد کی حکومت ڈٹی رہی۔ ایران کے اقتصادی حالات کی خرابی میں امریکہ اور عرب ممالک کا ہاتھ اس لئے تھا کہ ایران عراق جنگ کے پیچھے وہی تھے۔ پھر اس کے بعد اقتصادی پابندیاں۔ ایران کے انقلابی سیاسی نظام حکومت نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی غیرت ملی و اسلامی پر آنچ نہیں آنے دی۔ مسلط کردہ جنگ لڑی، اقتصادی پابندیوں کا سامنا کیا۔ ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کی خواہش صہیونی لابی کو بھی تھی اور امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی جو امریکہ میں اسرائیل کا دفاع اور مدد کرنے والا سب سے بڑا صہیونی ٹولہ ہے، اس نے اور امریکہ کے اسرائیل میں مقرر سابق سفیر اور صہیونی یہودی مارٹن انڈائیک جس نے اسرائیل کے دفاع کے لئے صہیونی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ قائم کیا، یہ بھی کلنٹن دور حکومت میں ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کے لئے امریکی وزیر خارجہ وارن کرسٹوفر کے ہمراہ دیگر کو اکساتے تھے۔(7)۔

بش جونیئر کے دور حکومت میں امریکی ایوان نمائندگان نے ایرانی نظام حکومت کے مخالف ایرانی گروہوں کے لئے دو کروڑ ڈالر کی منظوری دی تھی۔ سال 2006ء میں بش حکومت نے ساڑھے سات کروڑ ڈالر کا اضافی بجٹ رکھا، جس میں سے تین کروڑ اکسٹھ لاکھ ڈالر وائس آف امریکہ اور ریڈیو فردا پر خرچ کئے گئے۔ بقیہ رقم ایران کے اندر اور دیگر ممالک میں مقیم ایرانی گروہوں کو حقوق انسانی کے نام پر دیئے گئے۔ لیکن کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ساڑھے سات کروڑ سے کہیں زائد رقم ایرانی نظام حکومت تبدیل کرنے کے مشن پر خرچ کی گئی۔ ان دنوں اے بی سی نیوز چینل نے دو خبریں دیں کہ سی آئی اے نے سیستان بلوچستان کے بلوچوں پر مشتمل جنداللہ نامی گروہ کو ہائر کر لیا اور یہ بھی کہ صدر بش نے ایرانی نظام حکومت کے خلاف سی آئی اے کو خفیہ آپریشن پروگرام کی منظوری دے دی۔ بش نے پراگ میں شاہ ایران کے بیٹے اور ایک اور ایرانی امیر عباس فخر آور سے ملاقات بھی کی۔(9) باراک اوبامہ کے آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کے داخلی معاملات کے حوالے سے سب سے بڑا واقعہ 2009ء کا احتجاج تھا۔ اس میں ہیلری کلنٹن کے اپنے الفاظ میں امریکی وزارت خارجہ میں ان کی ٹیم ایران کے اندر موجود سرگرم کارکنوں سے مستقل رابطے میں تھی اور انہوں نے ایمرجنسی مداخلت کرکے ٹوئٹر کمپنی کو مینٹیننس کی وجہ سے اپنی سروس کی معطلی سے روک دیا تھا کیونکہ اگر ٹوئٹر کی سروس معطل ہو جاتی تو ایرانی مظاہرین ایک رابطے کے ایک کلیدی ذریعے سے محروم ہو جاتے۔ کیا اس سے زیادہ کھل کر بھی کوئی اعتراف ہوسکتا ہے کہ 2009ء کے مظاہروں میں بھی امریکی حکومت براہ راست ملوث تھی۔ ہیلری کلنٹن کے الفاظ میں انہوں نے دسیوں لاکھ ڈالرز خرچ کئے اور پانچ ہزار سے زائد سرگرم کارکنان کو ٹریننگ دی۔ یہ اعترافات انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ہارڈ چوائسز کے اٹھارہویں باب ایران میں بیان کی ہیں جبکہ شام سے متعلق انیسویں باب میں ایک اور اعتراف کیا ہے کہI also pledged increased support for civilian opposition groups, including satellite-linked computers, telephones, cameras, and training for more than a thousand activists, students, and independent journalists

امریکی حکومت انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے ایران سے مخاصمت رکھتی ہے۔ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف اور امریکہ میں متعین سعودی سفیر ترکی الفیصل منافقین خلق کے اجتماع میں شریک ہوکر ان کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ سابق سعودی جرنیل انور عشقی نے امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کاؤنسل آن فارین ریلیشنز میں سعودی عرب کے سات نکاتی ایجنڈا میں ایرانی نظام حکومت کی تبدیلی کا نکتہ بھی بیان کیا تھا اور اب سعودی حکمران شخصیات کھلے عام ایران کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ ایران میں ہنگامے کرنے والوں کی حمایت ٹرمپ ہی نہیں بلکہ صہیونی وزیراعظم بنجامن نیتنیاہو بھی کر رہے ہیں۔ برطانیہ کی حکمران شخصیات کی اس خطے میں ایران دشمنی بھی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ایرانی نظام حکومت کے ایک مخالف مذہبی گروہ کو برطانوی ایم آئی سکس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ (سعودی ایجنڈا پر ہم ماضی میں لکھ چکے ہیں)۔ اس ضمن میں بہت سا مواد میرے پاس موجود ہے۔ لیکن تحریر پہلے ہی طویل ہوچکی ہے۔ قارئین کی دلچسپی رہی تو ایران میں غیر ملکی مداخلت کی مزید تفصیلات آئندہ بیان کی جاسکتی ہیں، ورنہ اتنے پر ہی اکتفا کریں۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ پہلے امریکی صدر نہیں جو ایران کے داخلی امور میں مداخلت کر رہے ہیں بلکہ شروع سے امریکی پالیسی یہی رہی ہے اور نہ ماضی میں کبھی ایران کے انقلابی سامراج دشمن اسلامی نظام حکومت کے خلاف سازشوں میں امریکہ اور اس کے اتحادی کامیاب ہوسکے اور اس مرتبہ بھی امریکی سعودی صہیونی اتحاد نے اپنے ریکارڈ میں ایک اور تمغہ ناکامی کا اضافہ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ Recent riots result of foreign proxy war against Iran: Shamkhani January 2, 2018 12:13AM  Press TV
2۔ 3 January 2018 https://www.islamtimes.org/ur/doc/news/694315/
3.No Higher Honour by Condi Rice 4. Hard Choices by Hillary Clinton 5.
Duty , Memoirs of a Secretary at War by Robert Gates
6.Role Theory and Role Conflict in U.S.-Iran Relations: Enemies of Our Own Making
By Akan Malici, Stephen G. Walker
7. Understanding Iran by William Polk
8. The Prince by William Simpson
9. POLICY WATCH 1258 US Support for the Iranian Opposition...Washington Institute for Near East
خبر کا کوڈ : 694609
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Dr Shah Hussain
United States
Salam, bohat achi maloomat hasil hoin is artcle sey, request hey keh mazeed bhee is topic per likhai. Aor keonkeh hum urdu main perhtey hain tou kam az kam Pakistan key hawaley sey jo bhee sazishin ho rahi hain un ka bhee zikr ho tou aor behter hoga, in sazishon ko kaisey nakam banaya Irani awam ney aor irani awam kia samajhtey hain is key liyeh bhee zaroor tehreer karain.
بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
کیا بات ہے عرفان بھائی، تاریخ کے آئینے میں اور امریکی سازشوں کو کیا خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ خدا قوت۔
چشم ڈاکٹر صاحب. ممنون... بٹ صاحب
Roozi
مدلل تجزیاتی گفتگو ہے
ماشاء اللہ
اسلامی انقلاب کا پرچم بلند رہے گا اور امریکہ و اس کے حواریوں کو رسوا ترین شکشت ہوگی، ان شاء اللہ
ہماری پیشکش