0
Thursday 4 Jan 2018 15:26

سانحہ 12 مئی روکنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فون کئے لیکن کسی نے بات نہیں مانی، عشرت العباد

سانحہ 12 مئی روکنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فون کئے لیکن کسی نے بات نہیں مانی، عشرت العباد
رپورٹ: ایس ایم عابدی

عشرت العباد پرویز مشرف کی معزول چیف جسٹس کے ساتھ لڑائی اور لندن سے راولپنڈی کی طرف تبدیلی کی اندرونی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔ جنرل مشرف دورانِ صدارت اپوزیشن سے لڑ رہے تھے، جو مشترکہ طور پر معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سپورٹ کر رہی تھی۔ معزول جج نے اسلام آباد سے 24 گھنٹے کے سفر کے بعد لاہور کا تاریخی دورہ کیا۔ ان کے ساتھیوں نے سندھ میں حکمران پی ایم ایل اور ایم کیو ایم کو مشترکہ طور پر شکست دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ 12 مئی 2007ء کو کراچی میں وکلاء سے خطاب کیلئے معزول جج کو صوبائی بار کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوگئے، جب ایم کیو ایم نے بھی اسی دن جنرل مشرف کے حق میں ایک ریلی نکالنے کا اعلان کر دیا اور پی پی پی، اے این پی اور ایم ایم اے نے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے دلدل میں کودنے کا اعلان کیا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق گورنر عشرت العباد کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہوگیا تھا کہ 12 مئی کو ایک خونی کھیل کھیلا جائے گا، کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کے خلاف تھیں، انہوں نے سڑکوں پر ایک دوسرے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کر دیا تھا۔ رینجرز اور پولیس دونوں اکٹھے اُن سے نہیں نمٹ سکتے تھے۔ یہاں ڈاکٹر عشرت العباد نے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ بیک ڈور بات چیت کا آغاز کیا اور کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فون کرنا شروع کر دیئے، تاہم کسی نے بھی بات نہیں مانی، جس کے باعث اس دن 56 افراد مارے گئے۔

ڈاکٹر عشرت العباد نے اُس دن اپنی بے بسی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے تمام لوگوں کو احتجاج سے روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن کسی نے بات نہیں سنی۔ تاہم انہوں نے سندھ کے سابق چیف جسٹس صبیح الدین کے کردار کو سراہا، جنھوں نے لوگوں کی حفاظت کی خاطر حالات بدلنے کی بہت کوشش کی، لیکن گورنر کی طرح وہ بھی ناکام رہے۔ رپورٹر نے ایک سادہ سوال کیا کہ 12 مئی کے لئے آپ کے خیال میں کون ذمہ دار ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے مختصر جواب دیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سربراہ شاہی سید کا مردان ہاؤس، جو رہائش گاہ کے ساتھ آفس بھی تھا، وہ جگہ اُن لوگوں کیلئے مرکز بن چکی تھی، جو اس دن کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کرنا چاہتے تھے۔ 19 مئی کو عشرت العباد کو ایک انٹلیجنس رپورٹ موصول ہوئی کہ اے این پی 12 مئی کو مرنے والوں کیلئے 3 روزہ سوگ کا اعلان کرنا چاہتی ہے۔ یہ واضح تھا کہ سوگ کیلئے مجوزہ تاریخوں یعنی مئی کی 26، 27 اور 28 کو مزید لاشیں گرنی تھیں۔ انہوں نے ایک بار پھر پہل کرتے ہوئے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کو فون کیا، جو اس وقت کراچی میں مردان ہاؤس میں موجود تھے۔ عشرت العباد نے اسفند یار ولی سے کہا کہ میں تعزیت کیلئے آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ غیر متوقع طور پر پٹھان رہنما نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ نہ آئیں، کیونکہ یہاں لوگ بہت جذباتی ہیں اور کوئی بھی آپ کو گالی دے سکتا ہے اور یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے۔

عشرت العباد نے جواب دیا کہ میں اب راستے میں ہوں، ثقافت کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگلے ہی گھنٹے عباد مردان ہاؤس میں تھے، یہ کسی بھی مہاجر رہنما کا اے این پی کے ہیڈ کوارٹرز کا پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے فاتحہ پڑھی اور اسفند یار ولی کو سائیڈ پر لے جاکر بتایا کہ شہر میں پہلے ہی بہت خون خرابہ ہو رہا ہے، اگر آپ مزید احتجاج کا اعلان کریں گے تو مزید لاشیں گریں گی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں نے اسفند یار صاحب کو بتایا کہ چونکہ آپ کے گھر یہ میرا پہلا دورہ ہے، لہٰذا میری درخواست مان لیں، اُن کی مہربانی تھی کہ انھوں نے میری بات مان لی اور کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں ٹھیک تھا۔‘‘ دوسری سیاسی جماعتوں کو منانے کیلئے عباد نے پی پی پی، ایم کیو ایم، جے آئی اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ سب نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ لہذا ایک اور ممکنہ بحران ٹل گیا۔

جنرل مشرف کیجانب سے 3 نومبر 2007ء کی کارروائی:
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد دونوں ہی جنرل مشرف کی زیر قیادت حکومت اور عدلیہ ایک ساتھ نہیں تھے۔ 3 نومبر کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ میں یہ جاننے کیلئے بےتاب تھا کہ اس اقدام سے قبل حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا یا نہیں اور اس وقت حکومتی اداروں کا کیا ردعمل تھا؟ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہاں غالباً اکتوبر کے آخری ہفتے میں حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مختصر مدت کیلئے میڈیا کے ایک حصے پر بھی پابندی عائد کی جائے گی۔

جنرل مشرف کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے:
انتخابات سے قبل جنرل مشرف نے وردی اتار دی تھی اور نومبر 2007ء کو ملٹری کمانڈ جنرل کیانی کے سپرد کر دی۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو نے 18 اکتوبر کو واپسی کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کی آمد سے قبل اُن پر حملے کا خطرہ تھا۔ عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حالات بالکل اسی طرح ہوگئے تھے، جس طرح رپورٹس میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس روز صدر مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز گورنر اور وزیرِاعلٰی سے مستقل رابطے میں تھے۔ آدھی رات کو جب حملہ ہوا تو پہلے 30 منٹ تک تو حکومت کو حملے کی نوعیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں لگا۔ جیسے ہی بے نظیر بھٹو اپنے گھر پہنچی اور میں نے اُن سے خیریت دریافت کی تو مشرف صاحب نے مجھے فون کیا اور میں نے انہیں بتایا کہ میں نے بے نظیر بھٹو سے بات کر لی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ہوئے حملے سے متعلق تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے دسمبر میں بےنظیر بھٹو راولپنڈی میں قتل کر دی گئیں اور پہلے ہی کشیدہ ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔ معزول ججز تاحال بحالی کے منتظر تھے اور معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑ رہا تھا۔

جون، جولائی 2008ء میں خفیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد عشرت العباد نے پہل کرنے کا آغاز کیا اور راولپنڈی چلے گئے۔ صدر مشرف سے اجازت لینے کے بعد وہ خاموشی سے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے گھر چلے گئے۔ معزول چیف جسٹس نے اُن کا استقبال کیا اور گورنر کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ایک تصویر کی جانب اشارہ کیا، جس میں وہ جنرل مشرف سے حلف لے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی تک اس تصویر کو گُم نہیں ہونے دیا۔ معزول چیف جسٹس نے واضح اشارہ دیا کہ وہ تاحال مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ان کے گھر میں ڈاکٹر عشرت العباد کی شاندار دعوت کی گئی۔ پھر افتخار چوہدری نے ان سے لان میں آنے کو کہا، بظاہر انھیں یقین تھا کہ ان کے گھر کی نگرانی کی جا رہی ہے اور وہ جاسوسی کے آلات سے بچ رہے تھے۔ لان میں مذاکرات شروع ہوئے۔ معزول چیف جسٹس نے اپنے پتے ظاہر کرتے ہوئے عشرت العباد کو کہا کہ میں عزت کے ساتھ بحالی چاہتا ہوں۔ عباد نے انہیں یقین دلایا کہ بحالی آپ کی مرضی کے مطابق ہوگی اور اسی طرح ہوگی، جس طرح آپ چاہتے ہیں۔

دونوں کے درمیان یہ ملاقات پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔ یہاں عباد نے ملاقات کے چند اہم نکات بتانے سے انکار کر دیا، تاکہ وہ سابق چیف جسٹس کے اعتماد کو برقرار رکھ سکیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کیا کہ ’’اس ملاقات میں افتخار چوہدری واضح اور سنجیدہ تھے۔ اتنی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ آرمی ہاؤس پہنچے اور اہم پیش رفت سے متعلق جنرل مشرف کو آگاہ کیا، کیونکہ انہوں نے صورتحال بدل دی تھی۔ مشرف گورنر سندھ کی کامیابی کے بارے میں سن کر پُرجوش ہوگئے۔ نوجوان گورنر نے جنرل مشرف کو مشورہ دیا کہ بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے اور اپنی بیوی کے ہمراہ معزول چیف جسٹس کے گھر جاکر خود ان کے حوالے کیا جائے۔ مشورہ بالکل سیدھا سادھا تھا، لیکن جنرل مشرف کے گرد بیٹھے مشیروں نے یہ کہتے ہوئے اِسے پیچیدہ بنا دیا کہ اب ججوں کو بحال کرنے کا اختیار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پاس ہے اور صرف وہ ہی نوٹیفیکیشن جاری کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اگر ججوں کی بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری ہو جائے تو اِسے چیلنج کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ یہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔

مشاورتی عمل کے دوران جنرل مشرف نے ڈاکٹر عشرت العباد کو بتایا کہ معزول چیف جسٹس کا مطالبہ پورا نہیں ہوگا۔ اس لمحے اپنی عزت بچانے کی خاطر ڈاکٹر عشرت العباد نے ایک بار پھر معزول چیف جسٹس کے گھر گئے اور انہیں کہا کہ وہ خود نوٹیفیکیشن کا ڈرافٹ تیار کریں اور ان کے حوالے کر دیں۔ ابتدائی طور پر افتخار چوہدری نے بات مان لی کہ وہ یہ کریں گے، لیکن بعد میں کہا کہ صرف وزیراعظم ہی یہ کرسکتے ہیں۔ یہاں عشرت العباد نے حقائق سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی اور بتایا کہ یوسف رضا گیلانی کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ڈاکٹر عشرت العباد واپس کراچی روانہ ہوگئے۔ عباد نے یاد کیا کہ دونوں ہی جنرل مشرف اور معزول چیف جسٹس تمام معاملات طے کرنا چاہتے تھے، لیکن دونوں قانون کی کسی شِق کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ حالات جوں کے توں ہی رہے اور پھر اگست 2008ء آگیا، جب پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ایم ایل (ن) کے نواز شریف نے اتحاد کیا اور جنرل مشرف کے مواخذے کا اعلان کیا۔ 17 اگست 2008ء کو رات 8 بجے ڈاکٹر عشرت العباد آرمی ہاؤس راولپنڈی میں جنرل مشرف سے ملے، جہاں مشرف نے بتایا کہ ان کے خلاف مواخذہ واضح ہے۔

عباد نے مشرف سے کہا کہ مجھے کچھ وقت دیں، میں آپ کے پاس واپس آتا ہوں۔ غالباً اس وقت ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا، جب عباد نے مشرف کو کچھ اطلاعات دینے کیلئے فون کیا۔ مشرف نے عباد کو بتایا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے، اب سو جاؤ اور صبح اس پر بات کریں گے۔ درحقیقت عباد کو پتہ لگا تھا کہ اپوزیشن جنرل مشرف کا مواخذہ نہیں چاہتی، لیکن تاحال انہیں یہ معلومات مشرف کو دینا تھیں۔ اگلی صبح انہوں نے جنرل مشرف کی پریس کانفرنس کی خبر سنی اور اسی دن قوم سے خطاب کے ذریعے جنرل مشرف نے باقاعدہ اقتدار چھوڑنے اور استعفے کا اعلان کر دیا۔ وہ صدر مشرف سے ملاقات کرنے کیلئے ایوان صدر پہنچے۔ 18 اگست 2008ء کے دن ایوان صدر میں موجود اعلٰی حکام میں ڈاکٹر عشرت العباد ایک تھے اور انہوں نے مشرف کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور انہیں الوداع کہا۔ اِس صحافی نے پوچھا کہ کیا واقعی مشرف فوج پر بوجھ بن چکے تھے؟ ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ مجھے نہیں پتہ لیکن ایسا لگتا ہے، کیونکہ انہیں درست انٹلیجنس رپورٹ نہیں دی جا رہی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ فُل کورٹ کا فیصلہ جب انہیں یقین تھا کہ ججز ان کے حق میں فیصلہ دیں گے لیکن اس کے برعکس ہوگیا۔

میں نے سوال کیا کہ لہذا اس کا مطلب ہے کہ انہیں ارادتاً غلط انٹلیجنس رپورٹ دی گئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنرل مشرف کو غلط انٹلیجنس رپورٹ دی گئی تھی یا غلط انٹلیجنس رپورٹ حاصل کی گئی تھی۔ حتٰی کہ اقتدار سے باہر رہ کر بھی عباد اپنے سابقہ باس کو نہیں بھول سکتے، جس کے ساتھ انہوں نے چھ سال گزارے۔ ایک بار انہوں نے جنرل مشرف کو بھی گورنر ہاؤس ڈنر کیلئے دعوت دی، لیکن دعوت دینے کے بعد انہوں نے آصف زرداری کو بھی فون کر دیا اور بتایا کہ انہوں نے مشرف کو ڈنر پر بلایا ہے۔ انہیں دونوں کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں علم تھا، پھر بھی زرداری نے کھلے دل سے عباد کو اجازت دے دی۔ حتٰی کہ جنرل مشرف کے جانے کے بعد گورنر سندھ کی اقتدار میں مرکزی حیثیت قائم رہی۔

لندن سے راولپنڈی:
27 جون 2011ء کو ڈاکٹر عشرت العباد کو ایم کیو ایم لندن سے ایک کال موصول ہوئی، صدر کو فوراً اپنا استعفٰی پیش کر دو۔ یہ کال اس وقت موصول ہوئی، جب انہوں نے صومالیہ کے بحری قذاقوں کی جانب سے اغوا کئے گئے پاکستانیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب کردار ادا کیا تھا۔ واقعے کو میڈیا کی توجہ اس لئے حاصل ہوئی کیونکہ اغوا ہونے والے بحری جہاز میں بھارتی شہری بھی تھے، لیکن بھارتی حکومت اور اُن کے کاروباری افراد اپنے شہریوں کے مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے۔ یہ صرف ڈاکٹر عشرت العباد کا کام تھا۔ گورنر نے کاروباری افراد کے ساتھ مل کر پیسے اکٹھے کئے، عسکری مدد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا اور یقیناً پاکستان نیوی سے لی۔ 6 پاکستانیوں سمیت 22 افراد کو بحفاظت بچا لیا گیا تھا۔ ان کے خاندان جنہوں نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس معاملے کی جانب دلائی تھی، وہ بے حد خوش ہوئے۔ ایک دن قبل ان کے استقبال کے لئے تقریب کا اہتمام کیا گیا، ان میں خاص طور پر ملک اور افواج پاکستان بالخصوص پاکستان نیوی اور انٹلیجنس سروسز کی کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی تھی، لیکن چند دن بعد انہیں لندن سے ایک کال موصول ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ میں مایوس تھا اور میرے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔

انہوں نے بروزِ جمعہ ہی استعفٰی دے دیا اور دبئی روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ انہوں نے استعفٰی دیا ہو، بلکہ یہ پانچویں بار تھا کہ وہ مستعفی ہو رہے تھے۔ اسی دوران انہیں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کی کال موصول ہوئی، جو اسٹریٹجک ڈائیلاگ کیلئے امریکہ روانہ ہو رہے تھے، لیکن وہ امریکہ روانگی سے قبل ان سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ وہ طیارے میں سوار ہوئے اور دبئی ائیرپورٹ پر اتر گئے۔ پیغام کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم آپ کو اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا استعفٰی قبول نہیں کیا گیا، آپ واپس جائیں اور بطور گورنر اپنا کام شروع کریں۔ جنرل پاشا نے اس کے علاوہ کچھ حیران کن تفصیلات بھی بتائیں، لیکن ڈاکٹر عشرت العباد وہ سب بتانے پر تیار نہیں ہوئے۔ عباد نے واضح طور پر انہیں بتایا کہ یہ حیران کن ہے، لیکن جب تک مجھے پارٹی کی جانب سے حکم نہ ملے میں بطور گورنر دوبارہ کام کرنا نہیں چاہتا۔ جنرل پاشا یہ کہتے ہوئے اپنی منزل کی جانب چلے گئے، ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر کیلئے یہاں ہی رُک جائیں۔‘‘ اسی دوران پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر سر ایڈم تھامسن اور کراچی میں تعینات قونصلیٹ مسٹر فرانسس نے بھی ڈاکٹر عشرت العباد سے دوبارہ کام شروع کرنے کیلئے رابطہ کیا، کیونکہ وہ بھی کراچی کے حالات کے بارے میں پریشان تھے۔

بطور گورنر اُن کی کارکردگی کے باعث مسٹر فرانسس کے عشرت العباد کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد 22 دن تک ایک ہوٹل میں کمرے تک محدود رہے۔ باہر کی دنیا کے ساتھ ان کا تعلق صرف ان کے موبائل کے ذریعے ہی تھا۔ اسی دوران ایک برطانوی سفارتکار نے اُن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور بتایا کہ برطانوی حکومت نے بانی ایم کیو ایم کو ایک خط لکھا ہے کہ آپ کو بطور گورنر کام کرنے دیں اور جلد بانی ایم کیو ایم انہیں کال کریں گے۔ عشرت العباد کیلئے یہ ناقابلِ یقین تھا۔ جولائی کے تیسرے ہفتے میں انہیں بانی ایم کیو ایم کی کال موصول ہوئی۔ ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ دوبارہ بطورِ گورنر کام شروع کریں، بانی ایم کیو ایم نے عشرت العباد کو کہا جو پہلے ہی اُن کے حکم کے مطابق استعفٰی دے چکے تھے۔ ’’بھائی، میں پہلی ہی استعفٰی دے چکا ہوں، میں خود بھی اب کام نہیں کرنا چاہتا،‘‘ عباد نے جواب دیا۔ بانی ایم کیو ایم نے اپنا غصہ دکھایا، ’’تمھیں میری بات ماننی ہوگی، میں تمھیں حکم دے رہا ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے عباد کو قلم اور کاغذ اٹھانے کا حکم دیا اور انہیں چھ مختلف مطالبات لکھوائے، عباد کو ہدایت کی کہ وہ صدر زرداری کو فون کریں اور انہیں ایم کیو ایم کے مطالبات سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ حکومت کے ساتھ اسی صورت میں کام کریں گے، اگر مطالبات مان لئے جائیں۔

عباد نے صدر زرداری کو کال کی۔ آصف زرداری نے عباد سے کہا کہ میں سب جانتا ہوں، تم بس واپس آجاؤ۔‘‘ عباد نے وہی جواب دیا جو وہ بانی ایم کیو ایم سے کہہ چکے تھے۔ تب زرداری نے دوبارہ بانی ایم کیو ایم کو فون کیا اور سربراہ ایم کیو ایم سے عباد کو دوبارہ کال کرنے کا کہا کہ وہ اُن پر دوبارہ ڈیوٹی شروع کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔ اس بار انہوں نے بات مان لی۔ صدر آصف زرداری نے ڈاکٹر عشرت العباد کو لینے کے لئے اپنا خاص طیارہ بھیجا۔ 19 جولائی 2011ء کو عباد نے بطور گورنر دوبارہ کام شروع کر دیا۔ چند دن بعد گورنر سندھ کو آرمی ہاؤس راولپنڈی دعوت دی گئی، جہاں وہ آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا سے ملے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ یہی وہ ملاقات تھی جب انہوں نے راولپنڈی کے ساتھ اتحاد کرنے اور لندن کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا، یعنی جوان گورنر کی وفاداریاں لندن سے راولپنڈی کی جانب ہوگئیں۔ ڈاکٹر عباد نے کہا کہ مجھے مختلف باتیں بتائیں گئیں، لہٰذا میں نے اپنے عقل کے مطابق فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر عباد نے اِس فیصلہ کن دن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت واضح تھا کہ آگے کا سفر مزید مشکل ہوگا، لیکن جو بھی ہو، میں قومی مفادات کو ترجیح دوں گا۔
خبر کا کوڈ : 694721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش