0
Thursday 4 Jan 2018 08:16

ایران میں بہار کا سماں

ایران میں بہار کا سماں
تحریر: ایس ایم شاہ

ایران کی آبادی آٹھ کروڑ پر مشتمل ہے۔ آج سے 38 سال پہلے یہاں انقلاب اسلامی کے نام سے امام خمینی کی قیادت میں ایک انقلاب آیا۔ یوں ایرانی عوام نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ کرکے 98 فیصد ووٹوں کے ساتھ موجودہ دستوری ڈھانچے کو قبول کیا۔ ان کے دستوری ڈھانچے کے شق نمبر6 کے مطابق اس ملک کے صدر سے لیکر نیشنل اسمبلی اور دیگر تمام عہدوں پر افراد کا تعین عوامی ووٹوں سے ہوتا ہے۔ چار دہائیوں سے یہ لوگ امریکہ اور اسرائیل سے برسرپیکار ہیں۔ ہر ظالم کی مخالفت اور ہر مظلوم کی حمایت ان کی خارجہ پالیسی میں مستقل طور پر شامل ہے۔ اس سسٹم کو بچانے کے لئے انہوں نے کافی قربانیاں دی ہیں۔ امریکہ کے اشارے پر اس انقلاب کے آتے ہی صدام کے ذریعے ان پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی، لاکھوں قربانیاں دیں لیکن آخر کار انہوں نے میدان مار لیا۔ مظلوموں کی مدد کرنے کے جرم میں آئے روز نت نئی پابندیوں کے ذریعے استعماری طاقتوں کی جانب سے یہ کوشش جاری ہے کہ ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے، لیکن ان کی ایک خصوصیت نے ان کو شکست سے بچا لیا، وہ خصوصیت ہے ان کا عظیم قائد کی قیادت میں اتحاد۔ اگرچہ دوسرے ممالک کی مانند مختلف نظریات کے حامل لوگ یہاں بھی ہیں، لیکن جب امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے کا وقت آتا ہے تو سب یک زبان ہوکر میدان میں اتر آئے ہیں اور مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ اگر ایران صرف حماس کی حمایت ترک کرنے کا اعلان کر دے تو ان سے تمام تر پابندیاں اسی وقت ٹل جائیں گی، لیکن یہ سودا انہیں کسی قیمت گوارا نہیں۔ اب مملکت خداداد پاکستان بھی آرمی سپہ سالار کی قیادت میں امریکہ کے مقابلے کے لئے تلا ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب آٹھ کروڑ ایرانی چالیس سال تک امریکہ کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو 21 کروڑ کی آبادی ہونے کے باوجود ہم کیوں نہیں کرسکتے، انہوں نے آیت اللہ خامنہ اور آیت اللہ سیستانی کو اپنے لئے آئیڈیل شخصیات قرار دیا ہے۔

انقلاب کے بعد ایران نے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی بھی کی ہے۔ انقلاب سے پہلے کھانے پینے کی تمام چیزیں باہر سے آتی تھیں۔ مرغی فرانس سے، گوشت آسٹریلیا سے، انڈے اسرائیل سے، سیب لبنان سے اور دودھ وغیرہ ڈنمارک سے آتے تھے، ملک کے اندر صرف 33 دن تک کے لئے غذائی سٹاک موجود ہوتا تھا، اس وقت 1000 بچوں میں سے 111 بچے پیدائش کے بعد مختلف وجوہات کی بناپر لقمہ اجل بنتے تھے، صرف پچیس فیصد دوائیاں دوسرے ممالک کے تعاون سے ملک کے اندر بنتی تھیں اور اکثر مریضوں کو علاج معالجے کی خاطر بیرون ملک جانا پڑتا تھا، 70فیصد تک عمر رسیدہ لوگ ناخواندہ تھے اور چالیس فیصد سے بھی کم بچے سکول جاتے تھے، صرف 154000 ہزار طلبا چند بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے، جبکہ تین سال پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق آبادی دو برابر ہونے کے باوجود اب 300 دنوں تک کے لئے غذائی سٹاک موجود ہے، مرور زمان کے ساتھ ساتھ یہ سو فیصد تک ہوگا۔ اب 1000 بچوں میں سے صرف 26 بچے بچپنے میں فوت ہوتے ہیں، نارمل انسان کی عمر 58 سال سے بڑھ کر 72 سال ہوگئی ہے، یہ صحت کے شعبے میں ان کی پیشرفت کی دلیل ہے۔ اب چھانوے فیصد دوائیاں ملک کے اندر بنتی ہیں اور ایران دوائیاں برآمد بھی کرتا ہے، لیٹریسی ریٹ 88 فیصد کے قریب ہے، اس وقت ان کے ہاں 119 سرکاری یونیورسٹیاں، 28 سائنسی مراکز، 550 پیام نور یونیورسٹی کے کیمپس، 385 آزاد اسلامی یونیورسٹی کے کیمپس، 739 فنی علوم کے مراکز کے علاوہ 274 پروفیشنل ٹیکنیکل ادارے پائے جاتے ہیں۔ ان مختلف تعلیمی اداروں میں اس وقت چار ملین سے زیادہ طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں، گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں روس کے بعد دوسرا نمبر ایران کا ہے۔

ملکی ضروریات پوری کرکے ایران بجلی برآمد کرتا ہے، سائنسی میدان میں اس وقت ایران بارہویں نمبر پر ہے، اس وقت ایران اٹامک ملک سمجھا جاتا ہے اور اٹامک انرجی کا ممبر ملک بھی ہے، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کا شمار سات آٹھ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ اس وقت دیسی ساخت کے مصنوعی سیارے سیٹلائٹ پر بھیجے جا چکے ہیں، عنقریب مزید بھیجنے والے ہیں اور ان کا شمار دنیا کے ان چھے ممالک میں ہوتا ہے، جن کے پاس اسے بنانے اور لانچ کرنے کی ٹیکنالوجی پائی جاتی ہے۔(1)۔ تیل کے ذخائر کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہونے کے علاوہ انجنئرنگ کے شعبے میں تعداد کے اعتبار سے اس وقت ایران تیسرے نمبر پر ہے اور تین لاکھ تئیس ہزار سے زائد طلباء انجنیرنگ مکمل کرکے فارغ ہوچکے ہیں۔ اس وقت ان کی سرکاری  فوج میں 545000 افراد حاضر سروس ہیں اور 65000 ریزرو فوج ہیں، سپاہ پاسداران کے 125000 افراد ہیں اور چند سال قبل بسیج کے سربراہ کی رپورٹ کے مطابق 23 ملین 8 لاکھ بسیجی ہیں۔(2) ان کے ہر شہری پر اٹھارہ سال کی عمر میں دو سالہ فوجی ٹرینیگ لینا ضروری ہے۔ یوں اس وقت ایران ایک بہت طاقتور دفاعی نظام رکھتا ہے، اسی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل ابھی تک ان پر حملہ کرنے کی جرائت نہ کرسکے، اسرائیل کے مقابلے میں سنی مسلمان تنظیم حماس کو سب سے زیادہ مدد ایران فراہم کرتا ہے، اب ایران کی مداخلت نے شام اور عراق سے بھی داعش کا خاتمہ کر دیا ہے، اگر نیابتی جنگ یہ لوگ شام میں نہ لڑتے تو ہمیں افغان بارڈر پر لڑنا پڑتا، مسلم ممالک میں وحدت کے حوالے سے ایران نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے دنیا بھر کے مسلم سربراہوں کو تہران مدعو کرکے پورا ایک ہفتہ وحدت کے عنوان سے مناتے آئے ہیں۔

دوسرے بعض اسلامی ممالک کے برخلاف انہوں نے تنگ نظری، دہشتگردی اور تکفیری سوچ کو پروان چڑھنے نہیں دیا، بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کو قریب لانے کی کوشش کی، بعض افراد نے گلبھوشن معاملے میں انہیں ملوث کرنے کی ناکام کوشش کی، جس کی قلعی اس کا انٹرویو منظر عام پر آنے کے بعد مکمل طور پر کھل گئی، جب اس سے استفسار کیا گیا کہ تم پاسپورٹ کیوں ہمراہ لائے جبکہ پکڑے جانے کا خطرہ لاحق تھا، تب اس نے جواب دیا کہ ایران میں چیکنگ سسٹم پاکستان کے برعکس بہت ہی سخت ہے، اس لئے مجھے مجبوراً اسے لے کر آنا پڑا۔ اگر ایران ملوث ہوتا تو بغیر کسی سفری دستاویزات کے اسے چھوڑ دیتا، ایسا انہوں ہرگز نہیں کیا۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے ایران نے اسے تسلیم کیا، اٹامک تجربے کے وقت بحرانی وقت میں ایران نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا اور انڈیا کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا، ایران کا موازنہ بالکل عرب ممالک سے نہیں کیا جاسکتا، عرب ممالک اس وقت مکمل امریکہ اور اسرائیل کی گود میں پناہ لے چکے ہیں۔ ان کے پاس جنگی طاقت، عوامی طاقت، فوجی طاقت ہے اور نہ ہی ان کی اپنی کوئی آئیڈیالوجی ہے، بلکہ یہ ممالک امریکی اور اسرائیلی ایجنڈے کو فالو کر رہے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت قبلہ اول کے بارے صدر ٹرمپ کے  حالیہ خطرناک فیصلے کے بعد سعودی عرب کا اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنا اور اپنے ہم نواؤں کو شرکت کرنے سے روکنا ہے، علاوہ ازیں سعودی شہزادے نے برملا کہا کہ فلسطین اسرائیل جنگ ہونے کی صورت میں ہم اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔ داعش کو  نابود کرنا اگر ایران کے جارحانہ عزائم کی دلیل ہے تو ہم سب بھی اس میں شامل ہیں، کیونکہ ہم بھی عرصہ دراز سے طالبان اور القاعدہ سے لڑتے آئے ہیں اور داعشیوں سے مقابلے کے لئے پاک فوج کمربستہ ہے، ان کے ہاتھوں 70 ہزار سے زائد پاکستانی مسلمان جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

بہ الفاظ دیگر اگر ایران سے کسی کو خطرہ ہے تو صرف تکفیری اور داعشی سوچ رکھنے والوں، فلسطین کے بے گناہ سنی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں، یمن میں بے گناہ 70٪ سنی شافعی اور 30٪ زیدی مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والوں، پوری دنیا کے مسلمانوں کا خون چوسنے والوں اور ان کو سپورٹ کرنے والوں  کے لئے ہے، ورنہ انہوں نے نہ خود سے آج تک کسی ملک پر چڑھائی کی ہے اور نہ آئندہ ایسا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس جمہوری دور میں بادشاہت ہی وہ بدترین  لولا لنگڑا نظام حکومت ہے، جسے بچانے کے لئے سعودی اور ان کے ہم نواؤں کو امریکہ اور اسرائیل کے تلوے چاٹنا پڑ رہے ہیں اور یہ تمام مسلمانوں کے لئے باعث ننگ و عار ہے۔ بعض افراد رواں ہفتے مہنگائی کے خلاف ایران کے بعض مقامات پر احتجاجات ہونے کو بہار عربی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ انہیں خواب غفلت میں نہیں رہنا چاہیے، یہی تو حقیقی جمہوریت کی علامت ہے کہ محض انڈوں کی قیمتیں بڑھنے پر لوگ سڑکوں پر نکلنے کا حق رکھتے ہیں، البتہ اس عوامی احتجاج سے ایران دشمن عناصر نے فائدہ اٹھا کر حالات خراب کرنے کی کوشش کی اور چند افراد جان سے گئے، لیکن نہ یہاں کی پولیس نے کسی پر گولی چلائی اور نہ ہی فوج میدان میں اتری، بلکہ سنجیدگی سے حالات کو کنٹرول میں لیا گیا۔ ایرانی جمہوریت پر قدغن لگانے والوں کو اب اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ اگر کہیں حقیقی جمہوریت ہے تو وہ ایران ہے، چار عشروں سے یہ ملک جنوبی ایشیاء میں امن کا گہوارہ چلا آرہا ہے، ہر میدان میں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے اور اب بھی یہاں بہار کا سماں ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہے گا۔
Tasnimnews.com/fa/news/263933
Sook.ir/fa/news/174620
خبر کا کوڈ : 694725
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش