تحریر: محمد حسن جمالی
کیا ایران میں بھی عرب بہار آنے کو ہے؟ یہ عنوان ہے آئی بی سی پر چھپنے والے ایک کالم کا، آئی بی سی نے کچھ عرصے سے ایک مخصوص لابی کو کوریج دینے کی مہم چلا رکھی ہے اور یکطرفہ طور پر مواد چھاپ رہی ہے، جس کا ثبوت یہ کالم بھی ہے۔ ہم قارئین کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ صداقت کسی بھی تحریر کی جان ہوتی ہے۔ حقائق پر مبنی تحریریں ہی فکری و نظریاتی اور معلوماتی سرمایہ ہوتی ہیں۔ صحافت کا شعبہ بہت مقدس ہے۔ قلم کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے امانت اور صداقت کی پاسداری بہرحال ضروری ہے۔ چند روز قبل آئی بی سی اردو پر صداقت سے تہی غیر حقیقت تجزیئے پر مبنی عمر فاروق نامی ایک صاحب کی ایک تحریر نگاہ سے گزری، انہوں نے اپنی تحریر کا عنوان رکھا ہے(کیا ایران میں عرب بہار آنے کو ہے؟) یہ عنوان ہی اس بات کا پتہ دینے کے لئے کافی ہے کہ ایران کے بارے میں قلم کار کی معلومات صفر ہیں۔ ایران کا شمار عربی ممالک میں نہیں ہوتا کہ وہاں عرب بہار آئے گی اور نہ ہی ایران میں عربوں کی طرز پر اوباش بادشاہوں کی آمریت کا تصور پایا جاتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ایران پر نہ فقط خزاں چھائی ہوئی تھی بلکہ پورا ایران رضا شاہ پہلوی کے ہاتھوں ظلمت کدہ بنا ہوا تھا۔ اہلِ ایران کے بقول ایرانی معاشرے میں انصاف ناپید تھا، ظلم کا بول بالا تھا، لوگ اغیار کے غلام مطلق تھے، عوام کو نہ اظہار رائے کی آزادی تھی اور نہ ہی امور مملکت میں مداخلت کرنے کا اختیار۔ ہاں البتہ فحاشی اور عریانی کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ بے راہ روی، فسق و فجور اور عریانی کا دور دورہ تھا، بلکہ مغربی ثقافت و تہذیب کی تقلید کرتے ہوئے جو جتنا فحاشی پھیلانے میں کردار ادا کرتا، شاہ کے ہاں وہ اتنا ہی محبوب و مقرب قرار پاتا اور رضا شاہ اسے انعام و اکرام سے نوازتا۔
ایرانی سماج میں عورت اپنا اعلٰی و ارفع مقام کھوچکی تھی، وہ یا خرید و فروخت کی چیزوں کے لئے اشتہار بنتی تھی اور یا پھر للچائی ہوئی نظروں کے لئے تسکین کا ذریعہ بن چکی تھی۔ انقلاب سے قبل کا ایران بھی آج کے بعض مسلم ممالک کی طرح امریکہ کا مرید اور نوکر تھا، ایران کی پوری ثروت سے امریکہ استفادہ کرتا تھا۔ ایران کا قومی خزانہ خائن بادشاہ کے ہاتھوں میں تھا اور وہ اسے دونوں ہاتھوں سے امریکہ و مغرب کی خدمت کیلئے لُٹا رہا تھا۔ شاہی جشن منائے جا رہے تھے اور عیش و عشرت میں قومی سرمائے کو پانی کی طرح بہایا جاتا تھا۔ اڑھائی ہزار سالہ جشن تاج پوشی میں، جس میں دنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں اور سرکردہ شخصیتوں کو مدعو کیا گیا تھا، جس قدر شراب استعمال کی گئی، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ رقص و سرود اور عیش و عشرت کی محفلیں گرم ہوئیں اور بیش قیمت تحائف اور نذرانوں سے مہمانوں کو نوازا گیا۔ قومی سرمائے کو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے عیش و عشرت اور لہو و لعب کی باتوں میں برباد کیا رہا تھا۔ ملک کے عوام بھوکے مر رہے تھے اور غیر ملکی بینکوں کے شاہی کھاتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ جب شاہ ایران سے فرار ہوا، اس وقت اس کے نام سے بائیس ارب ڈالر امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع تھے۔ لیکن جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو اپنے ہمراہ عوام کے لئے بہار بھی لایا۔ ظلم کا خاتمہ ہوا، عدل کا نظام قائم ہوا، طبقاتی تفریق مٹ گئی، شاہ اور گدا کا فرق ختم ہوگیا، ایرانی قوم کو بدمعاش اور عیاش بادشاہوں کی جگہ امام خمینی جیسے متقی اور عارف کی سرپرستی اور قیادت نسیب ہوئی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم کو اسلامی حکومت کے زیر سایہ عزت و سربلندی کی زندگی نصیب ہوئی۔
پس آئی بی سی اور عمر فاروق صاحب اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں بھی پتہ چل جائے گا کہ عقلائے عالم امریکہ اور یورپ کی غلامی کو بہار نہیں کہتے بلکہ آزادی اور استقلال کو بہار کہا جاتا ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد آج تک ایرانی قوم کی زندگی بہار میں ہی گزر رہی ہے۔ پهر آگے چل کر میاں عمر فاروق لکھتے ہیں کہ (2011ء کے اوائل میں جب مشرق وسطٰی کے ملکوں تیونس، مصر، یمن اور لیبیا میں حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں ......ایران نے اس عرب بہار کا بھرپور فائدہ اٹھایا، عراق میں امریکہ کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی، شام میں جب عرب بہار کے جھونکے آئے تو ایران بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ کیا کہنے لکھنے والے کے اور کیا کہنے چھاپنے والوں کے۔ بھلا جھوٹ اور تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ایک طرف سے رائٹر نے لکھا ہے کہ عرب بہار کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ایران نے عراق میں امریکہ کی مدد سے اپنی حکومت قائم کی اور دوسری طرف سے لکھا ہے "شام میں جب عرب بہار کے جھونکے آئے تو ایران بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔" ایسی متضاد باتوں اور ایسے احمقانہ اور بچگانہ جھوٹ پر آئی بی سی اور عمر فاروق دونوں داد کے مستحق ہیں اور یقیناً اردو صحافت کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جہاں صحافت کی آڑ میں اس طرح کی بے سروپا باتیں بھی چھپ جاتی ہیں۔ ان کی خدمت میں اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ جناب والا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے بھی عقل درکار ہوتی ہے اور تعصب عقل کو کھا جاتا ہے، پہلے اپنی عقل سے تعصب کی عینک اتاریں اور پھر بات کریں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صدام حکومت کا تختہ کویت کی وجہ سے الٹا گیا تھا نہ کہ ایران کی وجہ سے اور شام میں ایران نے بشار الاسد کے ساتھ کھڑے ہو کر امریکہ و سعودی عرب کو ڈنکے کی چوٹ پر شکست دی ہے۔ آپ حقائق بیان کریں نہ کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں۔ صدام حکومت کے خاتمے میں عرب ریاستوں نے امریکہ کی مدد کی ہے، چونکہ صدام نے کویت پر حملہ کیا تھا جبکہ شام کی مدد ایران نے کی ہے، چونکہ شام اسرائیل کے ساتھ برسرِ پیکار تھا۔
اس کے علاوہ قلم کار سرفراز حسینی کی تحریر کے مطابق عراق، شام اور لبنان ایسے محاذ ہیں، جو براہ راست ریاست جمہوری اسلامی ایران کی خارجہ و دفاعی پالیسی کا ہراول دستہ اور ریڈ لائن ہیں، ایران اگر عراق، شام اور لبنان کے محاذ پر امریکہ، اسرائیل اور حواریوں سے شکست کھا جاتا ہے تو پھر اس کے اپنے نظریاتی اور جغرافیائی وجود کو براہ راست خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، لہذا چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ایران کو اس جنگ میں کودنا پڑا۔ پھر موصوف نے اپنی تحریر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ عرب دنیا کا موقف ہے کہ ایران کا جارح ایجنڈہ ان کے لئے خطرناک ہے۔ ایران براہ راست شام کے اندر لڑائی میں مصروف ہے۔ عراق میں اس کے جارحانہ عزائم کی عملی شکل نمایاں ہے۔ اسی طرح لبنان میں اس کی ”پراکسی” جنگ جاری ہے۔ غزہ، یمن اور بحرین میں اس کی جارحیت کے مظاہر ہیں۔ بھلا اس سے زیادہ کیا تعصب برتا جا سکتا ہے، قارئین خود بتائیں کہ عرب ریاستوں کے لئے ایران کا ایجنڈہ جارحانہ ہے یا اسرائیل کا۔ یہ تو ایران ہے جس کی بدولت اسرائیل ڈر رہا ہے اور عرب ریاستوں کو مسلمان سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے سے ہچکچا رہا ہے۔ اگر ایران نہ ہوتا تو اسرائیل عربوں کو ریوڑھ کی طرح ہانک رہا ہوتا۔ ایران نے ساری دنیا خصوصاً عرب عوام کو بیدار کیا ہوا ہے اور انہیں اسرائیل کے خلاف ہمت و حوصلہ دلا رہا ہے، اسرائیل کو متعدد مرتبہ شکست دینے والی حزب اللہ کی پشت پر کوئی عرب ملک نہیں بلکہ ایران ہی ہے۔ ایران ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کا دفاع کرنے کو اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے، اگر آج دیکھا جائے تو غزہ یمن اور بحرین کے مسلمانوں سے زیادہ مظلوم کون ہے، اگر درد دل سے ان کی مادی اور معنوی کوئی ملک مدد کر رہا ہے تو وہ ایران ہے۔
کہنے کو اسلامی ملک تو سعودی عرب بھی ہے، مگر افسوس آج یمن کے لاکھوں مسلمان سعودی عرب کے بموں کی زد میں خاکستر ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو جناب عمر فاروق صاحب ذرا خدا کو حاضر جان کر بتایئے کہ غزہ، یمن اور بحرین میں امریکہ اسرائیل اور ان کا اتحادی و صمیمی دوست سعودی عرب جارحیت کر رہا ہے یا ایران۔؟ آخر میں مضمون نگار نے گذشتہ دنوں مہنگائی کے خلاف ایران میں ہونے والے عوامی احتجاج کو غلط رنگ دے کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور قارئین کو یہ تاثر دینے کی سعی لاحاصل کی ہے کہ ایران میں انقلاب عوامی امنگوں کے خلاف ہے۔ ایرانی عوام کو ایران کا موجودہ نظام پسند نہیں، جبکہ ایسا بالکل نہیں۔ ایران کے بعض شہروں میں پچھلے ہفتے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بعض مالی اداروں کی بے ضابطگیوں کے خلاف کچھ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، جو کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کا حق بنتا ہے، لیکن ایران کے داخلی و بیرونی دشمنوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان احتجاجات کو مشتعل ہجوم اور بے حجاب خواتین کا احتجاج بنا کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی۔ آئی بی سی سمیت عالمی میڈیا حرکت میں آیا اور جناب عمر فاروق جیسے کالم نگاروں نے خوب اپنی بھڑاس نکالی، لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ ایران کا اسلامی انقلاب ایک شعوری، عقلی، علمی، ثقافتی اور دینی انقلاب ہے، یہ ایسا انقلاب نہیں کہ جو انڈوں کی قیمتوں کے بڑھ جانے یا کسی بے حجاب خاتون کے سڑک پر نعرے لگانے سے ختم ہو جائے گا۔
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے