0
Thursday 11 Jan 2018 18:36

سندھ میں 5 ہزار اسکول بند، ایک لاکھ طالبات پڑھائی سے محروم

سندھ میں 5 ہزار اسکول بند، ایک لاکھ طالبات پڑھائی سے محروم
رپورٹ: ایس ایم عابدی

سندھ میں 6 سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد طالبات نے سرکاری اسکول چھوڑ دیئے، صوبے بھر میں 23 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بجلی سے محروم ہیں، 98 فیصد سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی عملی تربیت کے لئے لیباریٹری موجود نہیں، محکمہ تعلیم سندھ کی نااہلی کے باعث 6 سال کے دوران 5 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند ہوگئے، 75 فیصد سرکاری اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں، 41 ہزار اسکولوں میں لائبریری نہیں ہے۔ سندھ میں تعلیم کی تنزلی کی وجہ ناتجربہ کار افسران اور کھلی سیاسی مداخلت ہے، محکمہ تعلیم کا بیشتر فنڈ تنخواہوں پر خرچ ہونے لگا، سرکاری اسکولوں میں طلبہ و طالبات کی تعداد کم اور اساتذہ کی بڑھتی جارہی ہے، ہزاروں اساتذہ کو اب بھی مستقل ہونے کا انتظار ہے، محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی تعداد 15 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس بات کا انکشافات محکمہ تعلیم سندھ کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ اور سندھ ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی سالانہ اسکول شماری رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ نے سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کے دعوؤں اور ایمرجنسی کی قلعی کھول دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں 2012ء میں پرائمری ایلیمنٹری، سکینڈری اور ہائر سکینڈری اسکولوں کی کل تعداد 47557 تھی جو اب کم ہوکر 42383 رہ گئی ہے۔ محکمہ تعلیم کے مطابق تعداد میں کمی کی وجہ غیر فعال اسکولوں کو بند کرنا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی تعلیمی ایمرجنسی کے بعد 2000 ہزار سے زائد اسکولوں کو دوبارہ کھولا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی 6 سال میں 5 ہزار سے زائد اسکول تاحال بند پڑے ہیں، سال 2012ء میں طالبات کے اسکولوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد تھی جو اب کم ہوکر 5 ہزار 385 رہ گئی ہے، جبکہ اسکولوں میں طالبات کی تعداد 17 لاکھ 58 ہزار تھی جو اب کم ہوکر 16 لاکھ 52 ہزار رہ گئی ہے۔

اسی طرح طلبہ کے اسکول 11 ہزار 732 سے کم ہوکر 6 ہزار رہ گئے ہیں، جبکہ 2012ء میں طلبہ کی تعداد 24 لاکھ سے زائد تھی جو اب بڑھ کر 25 لاکھ 77 ہزار ہوگئی ہے۔ مجموعی طورپر طلبہ کی تعداد 42 لاکھ سے بڑھ کر 42 لاکھ 29 ہزار ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ کے تعلیمی بجٹ میں سالانہ اضافہ ہورہا ہے اور بجٹ کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا جارہا ہے، گزشتہ 6 سال میں سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد میں کمی آئی لیکن اساتذہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جبکہ پہلے ہی سندھ میں اساتذہ کی بھرتیاں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں اور این ٹی ایس پاس کرنے والے اساتذہ، پرائمری اساتذہ اور مختلف جامعات کے ذریعے بھرتی کئے گئے اساتذہ ابھی بھی اپنے مستقل ہونے کے نوٹیفکیشن کے انتظار میں ہیں، 2012ء میں اساتذہ کی تعداد 14 لاکھ سے زائد تھی جو بڑھ کر 15 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ عالمی سطح پر تعلیم عام کرنے اور معیار تعلیم کو مزید بہتر کرنے کے لئِے جدید ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہیں جبکہ صوبہ سندھ میں سال 2017ء میں بھی ہزاروں اسکول ایسے ہیں جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے 16 ہزار سے زائد اسکولوں کی چار دیواری ہی نہیں ہے، 15 ہزار سے زائد اسکولوں میں بیت الخلاء بھی موجود نہیں، 18 ہزار سے زائد اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ صاف پینے کے پانی سے محروم ہیں، جبکہ 23 ہزار سے زائد اسکول ایسے ہیں جہاں بجلی موجود نہیں ہے، سندھ میں کل 42 ہزار 383 سرکاری اسکولوں میں سے 75 فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں کھیل کا میدان موجود نہیں ہے، جبکہ 98 فیصد اسکول بائیولوجیکل لیباریٹری، کیمسٹری لیباریٹری، فزکس لیباٹری، ہوم اکنامکس لیباریٹری، کمپیوٹر لیباریٹری سے محروم ہیں، سندھ بھر کے 41 ہزار سے زائد اسکولوں میں لائبریری کی سہولت موجود نہیں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 14 ہزار کے قریب اسکولوں کی عمارتیں کارآمد ہیں جبکہ 15 ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو مرمت کی ضرورت ہے، ساڑھے 6 ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے اور 5 ہزار کے قریب اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت یا چھت موجود نہیں ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے الف اعلان کی رپورٹ پر محکمہ تعلیم کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی تھی اور اب محکمہ تعلیم سندھ کے اپنے ہی ادارے نے تعلیمی صورتحال اور تعلیمی ایمرجنسی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے حکام نے الف اعلان کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا جبکہ رپورٹ میں تعلیم نظام کی تنزلی کی وجہ محکمہ تعلیم میں غیر تجربہ کار افسران کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت کو قرار دیا گیا ہے۔ طویل عرصے بعد جمال مصطفیٰ سید اور عزیز عقیلی کو مختصر عرصے میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن تعینات کیا گیا جو کارکردگی نہ دکھا سکے جس کے بعد سیکریٹری بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کے سیکریٹری اقبال درانی کو سیکریٹری اسکولز تعینات کردیا گیا، جو کئی ماہ گزرنے کے باوجود تعلیم کی بہتری کے لئے اقدامات نہیں کرسکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 696411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش