0
Friday 19 Jan 2018 16:21
متحدہ مجلس عمل کا پہلا باضابطہ اجلاس، عہدوں پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا، رہنماؤں کی تردید

عہدوں کا لالچ، متحدہ مجلس عمل کی بیل منڈھے چڑھ سکے گی؟؟

عہدوں کا لالچ، متحدہ مجلس عمل کی بیل منڈھے چڑھ سکے گی؟؟
لاہور سے ابوفجر لاہوری کی رپورٹ

ملک کی 5 بڑی مذہبی جماعتوں کا اتحاد "متحدہ مجلس عمل" عہدیداروں کے انتخاب کے بغیر ہی اختتام پذیر ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن سے ایم ایم اے سمیت اس اتحاد میں شامل 4 بڑی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخی کو بنیاد بناتے ہوئے ’’آخری لمحات‘‘ تک شریک اقتدار رہنے کا جواز بنایا تو سینیٹر سراج الحق سمیت دیگر جماعتوں نے بھی ان کی تائید کر دی، جس کے بعد متحدہ مجلس عمل کے عہدیداران کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، تاہم ایم ایم اے کی صدارت کیلئے مولانا فضل الرحمن کے نام پر اتفاق ہوگیا۔ جس کا باضابطہ اعلان جمعیت علمائے اسلام (ف) کی میزبانی میں ہونیوالے آئندہ اجلاس میں کیا جائے گا۔ متحدہ مجلس عمل کا سربراہی اجلاس لاہور میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے مرکز راوی روڈ میں علامہ ساجد میر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن، سینیٹر سراج الحق، علامہ ساجد علی نقوی، پیر اعجاز ہاشمی، شاہ اویس نورانی، لیاقت بلوچ، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم، وفاقی وزیر اکرم خاں درانی، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری، فرید احمد پراچہ، مولانا امجد خاں، رانا شفیق خاں پسروری سمیت دیگر شریک ہوئے۔

متحدہ مجلس عمل کے سربراہ کیلئے مولانا فضل الرحمان کا نام تو فائنل کر لیا گیا، تاہم ذرائع کے مطابق سیکرٹری جنرل کیلئے انتخاب کا معاملہ ڈیڈلاک کا شکار ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمان  نے سیکرٹری جنرل کیلئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا نام تجویز کیا، تاہم سراج الحق نے اپنی جگہ پر لیاقت بلوچ کا نام دیدیا۔ جمیعت علمائے پاکستان نے لیاقت بلوچ کا نام تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس عہدے کیلئے انہوں نے شاہ اویس نورانی کا نام تجویز کیا، جس پر مولانا فضل الرحمان نے ناگواری کا اظہار کیا اور معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس ایشو کو اگلے اجلاس تک موخر کر دیا۔ تاہم اجلاس کے بعد جب علامہ ساجد میر اور پیر اعجاز ہاشمی سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو دونوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ اجلاس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ 20 ارکان پر مشتمل "مرکزی کونسل" قائم کی گئی ہے، جس میں ہر جماعت سے 3، 3 رکن شامل کئے گئے ہیں۔ آئندہ اجلاس میں عہدیداروں کا تعین کر لیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مرکزی کونسل کی تشکیل بڑی کامیابی ہے، کونسل فروری میں عہدیداروں کا چناؤ کرے گی۔ 5 فروری کو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ہی یوم یکجہتی کشمیر منائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ محترم ادارہ ہے، اس کیخلاف استعمال ہونیوالی زبان کیخلاف قرارداد منظور ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو غیر ضروری قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف ہونا چاہیے، لیکن کسی ایک سانحہ پر پوری سیاست کا فوکس درست نہیں۔ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے کہا کہ کون سی جماعت ہے، جس کے کارکن قتل نہیں ہوتے، ہمارے بھی قتل  ہوئے ہیں، لیکن عوام کا ردعمل بتا رہا تھا کہ وہ ایسے سانحہ پر ایسا ردعمل پسند نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمان کے اس موقف پر دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے تعجب کا اظہار کیا۔ متعدد رہنماؤں کو یہ کہتے سنا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کی اس گفتگو میں حکومت کی حمایت کی بُو آ رہی ہے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم غریب اور مظلوم عوام کو متبادل پلیٹ فارم دینا چاہتے ہیں، ایم ایم اے فلاحی اسلامی ریاست کیلئے کام کرے گی۔ انہوں نے کہا پاکستان میں آئین سے ماورا کوئی اقدام قبول نہیں کریں گے، متحدہ مجلس عمل کی مرکزی کونسل وجود میں آگئی ہے، جس سے ملک کے عوام کیلئے بہترین فیصلے ہوں گے۔ علامہ ساجد میر نے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دینی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کی تشکیل کا اعلان کرتی ہیں، جو اپنے فیصلے اتفاق رائے سے کرے گی۔ دینی و سیاسی جماعتوں کا سربراہی اجلاس اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان کی آزادی، سلامتی، استحکام اور اسلامی تشخص کیلئے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ ہمارا اصل ہدف ملک میں اسلامی جمہوری بنیادوں پر نظام مصطفٰی (ص)  کا قیام، اسلامی اقدار و قوانین بالخصوص عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت (ص) کے قانون کا تحفظ کروانا ہے۔ متحدہ مجلس عمل ہر قسم کی کرپشن سے پاک اسلامی اصولوں پر استوار مثالی نظام قائم کرکے وطن عزیز کو اقوام عالم میں باعزت اور باوقار مقام دلائے گی۔ تمام اہل وطن کے حقوق کا تحفظ اور وفاق کی تمام اکائیوں کے آئینی حقوق کا مکمل احترام کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کا موقف اصولی ہے، بھارت سے تمام تنازعات کا اصل سبب کشمیر کا مسئلہ ہے، جس کے حل کئے بغیر دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کا کوئی امکان نہیں۔ جموں اور کشمیر کی ریاست کا مستقبل وہاں کے عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق طے کیا جائے۔ اس سے ہٹ کر کوئی فارمولا قابل قبول نہیں ہوگا۔ مجلس عمل قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اور تحفظ کیلئے امت مسلمہ کے متفقہ موقف کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے اس کی حیثیت میں تبدیلی کی امریکی و اسرائیلی کوششوں کیخلاف اسلامیان پاکستان کو متحرک و متحد کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 698177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش