0
Tuesday 23 Jan 2018 17:42

آر ایس ایس اور بھارت اسرائیل تعلقات، چند سر بستہ حقائق!

آر ایس ایس اور بھارت اسرائیل تعلقات، چند سر بستہ حقائق!
تحریر: انیلیش مہاجن
(سینیئر ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بزنس ٹوڈے)

ترتیب: جے اے رضوی

اسرائیل کے ساتھ براہِ راست دوستی کا قیام بی جے پی اور اس کے نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کا لمبے عرصے سے خواب رہا ہے، کیوں کہ آر ایس ایس کے لئے اسرائیل ایک قوم یا ملک سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے، اس کی نظر میں اسرائیل کے اندر وہ سب خصوصیات ہیں، جن کے سانچے میں یہ ہندوستان کو ڈھالنا چاہتا ہے، آر ایس ایس و اسرائیل تعلقات کے سفر کو ہم سنگھ کے تین پرچارکوں کے کردار کے پس منظر میں دیکھ سکتے ہیں، چنانچہ اٹل بہاری واجپائی اپنی وزارتِ عظمٰی کے زمانے میں ہندوستان کے ایسے پہلے وزیراعظم تھے، جنہوں نے 2003ء میں اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون کا استقبال کیا، اس کے بعد اب نریندر مودی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہیں، جنہوں نے تل ابیب کا دورہ کیا اور تیسرا شخص، جو ان دونوں کے مقابلے میں ذرا غیر مشہور ہے، وہ آر ایس ایس کے تیسرے سرسنگھ چالک کے سربراہ بالاصاحب دیورس کے بھائی بھاؤ راؤ دیورس ہیں، جنہوں نے اس خواب کو تعبیر کا جامہ پہنانے میں سرگرم رول ادا کیا۔ البتہ آر ایس ایس و اسرائیل دوستی یا ایک دوسرے کی طرف جھکاؤ کا دور اُسی وقت شروع ہوگیا تھا، جب آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے یہودیوں اور قیامِ اسرائیل کی حمایت سے صاف انکار کرتے ہوئے اس سلسلے میں مشہور نوبل اعزاز یافتہ سائنس داں البرٹ آئن سٹائن کی سفارش بھی ٹھکرا دی تھی، جبکہ اسی وقت آر ایس ایس سربراہ ایم ایس گولوالکر نے تخلیقِ اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ آر ایس ایس کے تمام پرچارکوں کا یہ ماننا رہا ہے کہ اسرائیل عالمِ اسلام یا اُس پان اسلام ازم کا حقیقی دشمن ہے، جو ما قبل 1947ء نمو پذیر ہوا اور پوری دنیا میں پھیلنے لگا تھا۔

برطانونی اتحاد نے 1948ء میں عالمِ عربی کو چھوڑنے سے پہلے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرکے عربوں کو مختلف بادشاہتوں کے حوالے کیا اور عراق، اردن، لبنان اور شام نے اپنی زمین کا ایک فیصد حصہ یہودیوں کو رہنے کے لئے دے دیا، اس کے بعد سے اب تک اسرائیل نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، بلکہ کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہے، ہندوستان نے ستمبر 1950ء میں قیامِ اسرائیل کو تسلیم کیا، البتہ آزادی کے بعد لگ بھگ اکتالیس سال تک ہندوستان کی خارجہ پالیسی نہرو کے طے کردہ خطوط پر قائم رہی، پھر بھاؤراؤ دیورس نے بھارت کے سابق وزیراعظم نرسمہا راؤ کو اس پالیسی میں تبدیلی کرنے پر آمادہ کرلیا، اس سے پہلے تک ہندوستان کے مسلم ووٹ بینک کو بچائے رکھنے کے لئے عربوں کی سیاسی حمایت کی جاتی اور اسرائیل سے باضابطہ ڈپلومیٹک تعلقات قائم کرنے سے احتراز کیا جاتا تھا۔ دیورس گاندھی و نہرو طرزِ سیاست پر خطِ نسخ پھیرنے کی کوشش میں تھے، چنانچہ جنوری 1992ء میں جب ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس کے پسِ پشت دیورس کا اہم رول تھا۔ اس وقت اس اہم اقدام کے لئے ایک موقع یوں بھی ہاتھ آگیا کہ ہندوستان او آئی سی میں اپنی شمولیت کے خلاف پاکستانی سازشوں سے نالاں تھا، چنانچہ دیورس کو امید کی ایک کرن نظر آئی اور اس نے بھارتی حکومت کے سامنے اپنی پیشکش رکھ دی، دیورس سنگھی ذہنیت کے کانگریسی اور کمیونسٹ لیڈروں کے مابین رابطے کا کام بھی کرتے تھے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو ’’نرم ہندوتوا‘‘ کی راہ پر لگانے میں انہی صاحب کا رول تھا، جس کی وجہ سے راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا اور پھر بعد کے سانحات رونما ہوئے۔

بھاؤراؤ دیورس ہندوستان میں ممبئی، کیرلا اور ملک کے دوسرے حصوں میں موجود یہودیوں سے رابطے میں رہتے اور انہیں آر ایس ایس و اسرائیل تعلقات کو صحت مند رخ دینے کے لئے پل کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ انہی کی تحریک پر 1991ء کے اخیر میں کئی اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ لال کرشن اڈوانی نے وزیراعظم نرسمہا راؤ سے ملاقات کی اور زور دیا کہ ہندوستان کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہیئے، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی اور بھارت کے سابق صدر پرنب مکھرجی سے پہلے اڈوانی ہی ہندوستان کی پہلی اعلٰی سیاسی شخصیت تھے، جس نے بحیثیت نائب وزیراعظم 2000ء میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا، ان کا یہ دورہ اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے ساتھ تھا اور اس کا مقصد ’’دہشتگردی‘‘ سے نمٹنے کے سلسلے میں تبادلۂ معلومات پر معاہدہ کرنا تھا۔ 1992ء تک آر ایس ایس کے علاوہ صرف ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسیز کا اسرائیل سے رابطہ تھا، وہ بھی اس وجہ سے کہ آر این کاؤ (را کے پہلے سربراہ) نے جب دیکھا کہ موساد (اسرائیلی خفیہ ایجنسی) چین، پاکستان اور شمالی کوریا کے عسکری روابط کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے، نیز خود موساد بھی پاکستانی افسران کے ذریعے کوریائی و چائنز ذخائر کو استعمال کرکے لیبیا و ایران کے ملٹری ایجنٹس کو عسکری تربیت دیے جانے سے پریشان تھا، اس لئے را اور موساد اپنے مشترکہ دشمنوں سے نمٹنے کے لئے باہم رابطے میں آگئے تھے۔

اس تمام پس منظر میں دیورس کو اور بھی بہت کچھ نظر آرہا تھا، وہ ذاتی طور پر اسرائیل کی اپنی قدیم زبان کے احیا کی کوششوں سے بھی متاثر ہوئے، کیوں کہ وہ خود یہاں سی کے شاستری (جنھیں گزشتہ سال حکومت نے ادب و تعلیم کے میدان میں ’’خدمات‘‘ کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا ہے) کے ساتھ مل کر سنسکرت زبان کے احیا کی تحریک چلا رہے تھے، اسی طرح دیورس اسرائیل کے اس انتہا پسندانہ نظریۂ قومیت سے بھی متاثر تھے، جسے عسکری تربیت اور فلسطینی مزاحمت کاروں کو زیر کرنے کے طریقۂ کار کے ذریعے اسرائیل نے اپنے تمام شہریوں کے دل و دماغ میں بٹھا دیا تھا۔ اسرائیل کی ان تمام ’’خصوصیات‘‘ کا دیورس کے دل و دماغ میں بے پناہ اثر تھا، چنانچہ انھوں نے نرسمہا راؤ کے سامنے مضبوطی کے ساتھ اپنا ’’کیس‘‘ پیش کیا، ابتداء میں نرسمہا راؤ کو جھجک محسوس ہوئی اور انھوں نے خود اپنی پارٹی میں موجود اپنے مخالفوں کا حوالہ دیا، مگر پھر دیورس کے اصرار اور اسی سلسلے میں ایل کے اڈوانی کی مداخلت کی وجہ سے انھوں نے اسرائیل کے ساتھ ’’ممکنہ دوستی‘‘ کا خط و خال طے کرنے کے لئے ایک گروپ آف منسٹرز تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔

جنوری 1992ء کے شروع میں فلسطینی صدر یاسر عرفات نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا، ایسا کہا جاتا ہے کہ نرسمہا راؤ نے اس موقعے سے فلسطینی صدر سے کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرتا ہے، تو یہ فلسطینی کاز کے لئے بھی فائدہ مند رہے گا اور ہم ان پر آپ کے حق میں مزید دباؤ بنانے کے اہل ہوں گے‘‘، پھر مشترکہ پریس کانفرنس میں نرسمہا راؤ نے اس فیصلے کا اعلان بھی کر دیا اور دس دن کے اندر اندر باقاعدہ بھارت و اسرائیل رشتے ’’طے پا گئے‘‘۔ یہ ساری حصول یابی انہی بالاصاحب دیورس کے بھائی بھاؤراؤ دیورس کی ’’محنتوں‘‘ کی بہ دولت ممکن ہوسکی، آر ایس ایس کے پرانے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے تو اس ’’عظیم کارنامے‘‘ کے عوض دیورس کو اپنے ملک کا سب سے اعلٰی شہری اعزاز دینے کا فیصلہ کر لیا تھا، مگر وہ اسی سال مئی میں آں جہانی ہوگئے، جس کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کسی غیر یہودی کو یہ ایوارڈ نہیں دیا ہے۔

کرسٹوفر جیفرلوٹ (Christophe Jaffrelot) نے بھی2007ء میں شائع شدہ اپنی کتاب Hindu Nationalism میں لکھا ہے کہ ’’وی ڈی ساورکر اور ایم ایس گولوالکر جیسے ہندو قوم پرستوں نے قیامِ اسرائیل کو سراہا اور یہودیوں کے ’’رائٹ ٹو جنم بھومی‘‘ کی تائید کی تھی‘‘۔ انہوں نے ایک باب میں ساور کر کے افکار و نظریات کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’انہوں (ساورکر) نے اسرائیل کی تائید کے پیچھے اپنا آئیڈیا اور منطق بھی بیان کی تھی، محض نہرو کی مخالفت میں ایسا نہیں کیا تھا‘‘، چنانچہ اسی وقت جبکہ نہرو نے قومی مفادات کا حوالہ دیتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ ’’ہندوستان اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتا‘‘، ساورکر نے کھل کر اسرائیل کی تائید کی تھی۔ 2012ء میں سابق سفیر، اقوامِ متحدہ میں ہندوستان کے سابق نمائندہ اور ایک عرصے تک مشرقِ وسطٰی میں قیامِ امن کے حوالے سے یو این سکریٹری جنرل کی نمائندگی کرنے والے Chinmaya R Gharekhan نے نہرو کے انکار کی وجہ یہ بتائی تھی کہ شاید وہ تقسیمِ ہند کے تجربے کے زیرِ اثر اسرائیل کی حمایت سے انکار کر رہے تھے، چنانچہ اسرائیل کی اسٹریٹیجک اہمیت کے باوجود آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان کے محض تین وزرائے خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا، جن میں صرف ایک یو پی اے حکومت کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کا دورہ شامل ہے۔

نریندر مودی اسرائیل کے ساتھ اپنی پارٹی و نظریاتی سرپرست کے تعلقات کو نئی ’’اونچائیوں‘‘ تک لے جانا چاہتے ہیں، چنانچہ انہوں نے بحیثیت بھارتی وزیراعظم پہلی بار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو فلسطین سے الگ کیا اور 2016ء میں اپوزیشن کے اصرار کے باوجود پارلیمنٹ میں حماس کے خلاف کارروائی کے دوران اسرائیل کے ناجائز ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد نہیں پاس کی، ہندوستان نے دونوں میں سے کسی کی بھی حمایت یا مذمت سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی اور اس صورتحال کے لئے دونوں اطراف کو ذمہ دار قرار دیا، اس کے بعد گذشتہ سال جب نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا، تو وہ غزہ یا فلسطین نہیں گئے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے حالیہ دورے سے پہلے امریکہ کے ذریعے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوستان نے فلسطین کے حق میں ووٹنگ کی، جس پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے نتن یاہو قدرے بد دل تو تھے، مگر انہیں اپنے ’’نیچرل دوستوں‘‘ کے دل کا حال معلوم تھا، سو انہوں نے کہا کہ اس سے اسرائیل و بھارت کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور لگ بھگ ایک ہفتہ کے بھارت دورے کے دوران ان کا  استقبال ہوا اور جس طرح ان کے من مطابق معاہدے عمل میں آئے، اس سے ان کی اس بات کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے۔ بہرکیف آر ایس ایس نے تو اپنا کام بڑی ’’خوبی‘‘سے انجام دیا ہے، البتہ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ روز بروز مضبوط ہوتی ہوئی ہندوستان کی یہ دوستی مستقبل میں دونوں ہی ملکوں کے لئے نئے دشمن پیدا کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 699154
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش