QR CodeQR Code

افغان تجارت پر بھارت کی اجارہ داری

26 Jan 2018 19:08

افغانستان کو ان حالات میں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں حالانکہ متعدد بار افغان حکمران یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے مفادات پر کبھی بھارت کے مفادات کو ترجیح نہیں دینگے، لیکن وہ اسکے برعکس کررہے ہیں، بھارت نے اب فضائی کارگو کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے ہفتہ رفتہ کے دوران اب کابل سے ممبئی کی براہ راست سروس بھی شروع کردی ہے جو ان دونوں ممالک کے درمیان دوسرا فضائی روٹ ہے۔ سالِ نو کو زیادہ زوردار بنانے کیلئے بھارت نے افغان تاجروں سے ٹیکس بھی نہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹیکس میں یہ چھوٹ اسلئے دی گئی تاکہ افغان تاجروں کو بھارت کیساتھ تجارت کیطرف راغب کیا جائے، ٹیکس کی یہ چھوٹ کب تلک چلتی ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن غالب امکان یہ ہے کہ بھارت اس عمل کو زیادہ تیزی سے بڑھائے گا کیونکہ ایک طرف تو وہ پاکستان کے ہاتھ سے افغانستان کی تجارت کو نکالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ افغانستان کی مارکیٹ کو قابو میں کرنا چاہتا ہے اس بات کا اندازہ اسطرح لگایا جاسکتا ہے کہ 6 ماہ قبل کابل اور نئی دہلی کے درمیان شروع ہونیوالی مال بردار فضائی رابطہ سروس کیبعد سے اب شروع ہونیکے بعد افغانستان سے تقریباً 2 کروڑ ڈالر کی اشیاء برآمد کی جاچکی ہے۔


رپورٹ: ایس علی حیدر

افغانستان نے اپنی بیرونی تجارت بذریعہ پاکستان منگوانے پر انحصار مزید کم کردیا ہے جس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ان تاجرون کو خسارے کا مزید سامنا کرنا پڑے گا جو اس ٹریڈ سے براہ راست یا اپنی خدمات دینے کے اعتبار سے وابستہ تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو پچھلے چند برس میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اب زیادہ تر سامان افغانستان براستہ ایران منگوا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے تاجروں میں بڑی مایوسی پائی جاتی ہے کیونکہ پہلے اگر ایک دن میں 50 ٹرک جاتے تھے تو اب 1 دن میں 3 یا 4 ٹرک کی کلیئرنس ہوتی ہے۔ یہی بھارت کی چال تھی جس میں وہ فی الحال کامیاب رہا۔ اس راہداری کیلئے باقاعدہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام سے ایک معاہدہ موجود ہے، اس معاہدے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیانی تجارتی راہداری یعنی ٹرانزٹ ٹریڈ ایگزیمنٹ کا معاہدہ 2010ء میں طے پایا تھا جس کے تحت افغانستان کے سامان سے لدے ٹرکوں کو طے شدہ مخصوص راستے کے ذریعے لاہور کے قریب واہگہ سرحد تک اور کراچی میں ساحل سمندر تک جانے کی اجازت دی گئی تھی، جہاں سے یہ سامان ہندوستان بھیجا جاسکتا تھا۔

اس معاہدے کے تحت پاکستانی ٹرکوں کو افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک تک رسائی دینے کا فیصلے کیا گیا تھا لیکن مختلف انتظامی وجوہات کی بنا پر اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ معاہدہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے سامنے کروایا تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے امریکی براہ راست یہ معاہد ہ کروا رہے تھے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان حکومت پر زور دیا گیا کہ افغانستان کے سامان کو بھارت تک جانے کی اجازت دی جائے اور اسی طرح بھارت کا سامان بند کا بند پاکستان کی حدود سے گزر کر افغانستان جائے۔ امریکہ کی اس معاہدے میں دلچسپی یہ تھی کہ اسی معاہدے کے تحت وہ بھی نیٹو فوج کا سامان افغانستان بھیجا کرتا تھا۔ اس معاہدے کو چونکہ امریکہ نے دباو ڈال کرطے تو کروا لیا لیکن اس کے بعد وہ معاہدے کو پاکستان سے منوا نہیں سکا۔ بھارت نے بذریعہ افغانستان اور امریکہ بہت کوشش کی کہ اس کے سامان کو افغانستان تک کی راہداری مل جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف یہ چال چلی کہ اس نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے کے تحت پاکستان آنے والے سامان کو دیگر روٹس پر شفٹ کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی شروع کی کہ ایسے میں پاکستان اور چین نے اپنے تزویراتی تعلقات کا آغاز سی پیک سے کردیا۔

پاکستان اور چین کی اس نئی سانجھے داری نے نئی دہلی میں صف ماتم بچھادی جس کے بعد ہندوستان نے بھرپور کوشش کی کہ اس پراجیکٹ کو روکا جائے حتٰی کہ چین کو بھی ورغلانے کی بھرپور کوشش کی گئی، لیکن جب کوئی بات نہ بنی تو پھر بنیادی طور پر پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغانستان کا پاکستان پر انحصار کم سے کم کرنے بلکہ ختم کرنے کیلئے بھارت نے ایران سے گٹھ جوڑ کیا اور پہلے مرحلے میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی اپ گریڈیشن شروع کی گئی، اس میں تاثر دیا گیا کہ جیسے یہ سی پیک کا متبادل تیار کیا جارہا ہے لیکن درون خانہ چاہ بہار کی اپ گریڈیش کا ہدف پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں پاکستان کے حصے کو ختم کرنا تھا۔ یہ بھارت کی سازش تھی اور اپنے اس ہدف کو وہ مرحلہ وار طور پر بڑھا رہا ہے۔ اس نے افغانستان کو پاکستان دشمنی میں مہنگی فضائی راہداری فراہم کی۔ اس فضائی سروس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ مال بردار ہوائی جہاز کے ذریعے خشکی سے گھرے افغانستان کو بھارت کہ راستے اہم عالمی تجارتی منڈیوں تک رسائی فراہم کی جائے۔ افغانستان اس سے پہلے بلکہ اب تک بھی اپنی غیر ملکی تجارت کیلئے پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ پر انحصار کرتا رہا ہے لیکن اب اس میں کمی آرہی ہے کیونکہ بھارت نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغانستان کو تجارتی راہداری کے سلسلے میں سہولیات فراہم کرنے کا خواہاں ہے لیکن ان کے بقول بھارتی سامان تجارت کی پاکستان کے راستے افغانستان منتقلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تمام تجارتی و کاروباری اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن کابل اس بارے میں گریزاں ہے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ تجارتی امور پر سیاسی اختلافات اور اعتماد کے فقدان کو ایک طرف رکھنے پر بھی آمادہ ہے کیونکہ یہ افغانستان کیلئے اہم معاملہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کے سو کے مقابلے میں افغانستان نے 60 ٹن سامان بھیجا جس میں بھارت کا پلڑا بھاری رہا۔ بھارت اس راہداری کے ذریعے اپنے مال کو ارزان نرخوں پر افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچانے کیلئے بےتاب ہے۔ افغانستان کو ان حالات میں ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں حالانکہ متعدد بار افغان حکمران یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے مفادات پر کبھی بھارت کے مفادات کو ترجیح نہیں دیں گے، لیکن وہ اس کے برعکس کررہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ افغانستان ان حالات کو اپنے اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی روشنی میں دیکھتا لیکن اسے اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ بھارت کا مفاد پاکستان سے زیادہ عزیز ہے، جس کیوجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 2.7 ارب ڈالر سالانہ سے کم ہوکر 1.5 ارب ڈالر تک گر گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس بارے میں مزید کوشش شروع کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں تازہ ترین کارروائی یہ کی گئی ہے کہ بھارت نے اب فضائی کارگو کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے ہفتہ رفتہ کے دوران اب کابل سے ممبئی کی براہ راست سروس بھی شروع کردی ہے جو ان دونوں ممالک کے درمیان دوسرا فضائی روٹ ہے۔ سالِ نو کو زیادہ زوردار بنانے کیلئے بھارت نے افغان تاجروں سے ٹیکس بھی نہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹیکس میں یہ چھوٹ اس لئے دی گئی تاکہ افغان تاجروں کو بھارت کے ساتھ تجارت کی طرف راغب کیا جائے، ٹیکس کی یہ چھوٹ کب تلک چلتی ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن غالب امکان یہ ہے کہ بھارت اس عمل کو زیادہ تیزی سے بڑھائے گا کیونکہ ایک طرف تو وہ پاکستان کے ہاتھ سے افغانستان کی تجارت کو نکالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ افغانستان کی مارکیٹ کو قابو میں کرنا چاہتا ہے اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ 6 ماہ قبل کابل اور نئی دہلی کے درمیان شروع ہونے والی مال بردار فضائی رابطہ سروس کے بعد سے اب شروع ہونے کے بعد افغانستان سے تقریباً 2 کروڑ ڈالر کی اشیاء برآمد کی جاچکی ہے۔

بھارتی سرکار کا مقصدیہ ہے کہ پاکستان کی تجارت کو زیادہ سے زیادہ متاثر کیا جائے چاہے اس میں بھارت کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ رہا ہو۔ بھارت کی اس پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسی کے سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم 40 فیصد تک کم ہوا ہے۔ بھارت پاکستان مخالفت میں افغان تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچا رہا ہے، مگر بھارت اس کی بجائے اپنے کروڑوں خط غربت کے نیچے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دے۔


خبر کا کوڈ: 699891

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/699891/افغان-تجارت-پر-بھارت-کی-اجارہ-داری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org