0
Tuesday 30 Jan 2018 19:30

امریکہ چین سے خوفزدہ کیوں ہے؟

امریکہ چین سے خوفزدہ کیوں ہے؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

امریکہ دنیا کی ایک تسلیم شدہ طاقت ہے۔ معاشی اور عسکری، سیاسی اور سماجی، ہر حوالے سے اسے برتری حاصل ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ کو یہ برتری حاصل ہوچکی ہے۔ دنیا کبھی دو بلاکس میں تقسیم تھی، جب سوویت یونین کے حصے بخرے نہیں ہوئے تھے، لیکن جب دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی، اس وقت بھی دنیا سرد جنگ کی "آگ میں جل رہی تھی" اور آج جبکہ امریکہ غالب ہے، دنیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگی چالوں کو خون پلا رہی ہے۔ سوویت یونین کا انہدام اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے، اس پر کئی ایک زاویہ نظر سے تحقیقی مقالے کی ضرورت ہے۔ کئی سوالات تشنہ جواب ہیں، لیکن سوویت یونین کا انہدام ہوچکا ہے، یہی حقیقت ہے۔ اب جبکہ طاقتور امریکہ مزید طاقت ور ہونے کے لئے جنگی چالوں کا جال دنیا بھر میں پھیلا چکا ہے اور اپنے پرانے حربے مذہبی بیانیے کو ایک اور طرح سے آزما رہا ہے تو اسے چین اور روس کی شکل میں بالخصوص اس خطے میں مشکلات نظر آ رہی ہیں۔ چین اس وقت دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی نئی معاشی و عسکری طاقت ہے۔ چین نے اگرچہ جنگوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنی صنعت اور معیشت پر توجہ دی اور جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا۔ عالمی برادری کے نامور دانشور چین کو مستقبل کی عالمی طاقت قرار دے رہے ہیں۔ روس کے ساتھ امریکہ پہلے ہی حساب برابر کرچکا تھا، لیکن روس نے شام میں امریکی اور اس کے چھوٹے بڑے اتحادیوں کے خواب چکنا چور کرکے ایک بار پھر پیغام دیا کہ روس ابھی زندہ ہے۔ یوں امریکیوں نے کان کھڑے کر لئے، بے شک شام میں امریکی چالیں ناکام ہوئی ہیں۔

داعش کو دھکیل کر اب افغانستان لایا جا چکا ہے، جہاں وہ اپنے ہونے کا ثبوت اپنی وحشت سے دے رہی ہے، جبکہ پاکستان، چین، روس اور ایران و افٖغانستان داعش کو مشترکہ خدشہ اور دشمن قرار دے چکے ہیں۔ بے شک کوئی بھی دہشت گرد تنظیم عالم انسانیت کے لئے مشترکہ خطرہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ امریکہ کی لڑائی تو افغانی طالبان، القاعدہ، داعش اور دہشت گردی و دہشت گردوں کے خلاف ہے تو پھر اسے چین یا روس سے کیوں خطرہ ہے؟ کیوں امریکی قیادت اور اس کے تھینک ٹینکس چین کو امریکہ کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں؟ خیال رہے کہ "سینٹرل انٹیلی جنس ایجنس (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر مائک پومپیو نے امریکہ کے لئے چین کو روس سے بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ سمیت یورپ میں دراندازی میں چینی انٹیلی جنس کا بہت بڑا اثر تھا۔ انہوں نے دونوں معیشتوں کے پیمانے کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا کہ روسیوں کے مشن پر عملدرآمد کرنے کے لئے چین کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ سی آئی اے چیف نے الزام لگایا کہ امریکہ کے خلاف چین نے ہر جگہ جاسوس رکھے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ یہ جاسوس اسکولوں، ہسپتالوں اور کارپوریٹ دنیا میں بھی موجود ہیں۔ مائک پومپیو کے مطابق چین کے طریقہ کار میں خفیہ معلومات حاصل کرنا اور اپنے اثر و رسوخ کے لئے ثقافتی جاسوسی کرنا ہے، تاکہ وہ امریکی معیشت پر اثر و رسوخ حاصل کرسکے اور امریکی مارکیٹ میں داخل ہوسکے۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ امریکہ کی جانب سے چین اور روس پر اپنے ملک میں دخل اندازی کا الزام لگایا گیا ہے، اس سے قبل بھی امریکی انٹیلی جنس کی تحقیقات میں پتہ چلا تھا کہ 2016ء کے عام انتخابات میں بھی مبینہ طور پر روس نے دخل اندازی کی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنی پہلی خارجہ پالیسی میں چین اور روس کو اپنا بڑا حریف کہا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ دونوں ممالک امریکی طاقت، اثر و رسوخ اور مفاد کے لئے خطرہ ہیں اور یہ امریکی سلامتی و خوشحالی کو تباہ کر رہے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک نے امریکہ کے اس دعوے کو سرد جنگ کی ذہنیت کہتے ہوئے حکومتی سوچ کو سامراجی قرار دیا تھا۔ تاہم چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہاچون ینگ نے کہا تھا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر چین کے اسٹریٹجک ارادے کو نقصان پہنچانا بند کرے گا اور اپنی سرد جنگ ذہنیت سے باہر نکلے گا، بصورت دیگر یہ نہ صرف اس کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماسکو کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا تھا، کریملن کے ترجمان دمتری پیسکو نے کہا تھا امریکہ کی جانب سے بیان کردہ خارجہ پالیسی میں اس کی سامراجی ذہنیت واضح ہوگئی اور یہ ایک غیر متوازی دنیا کو ختم کرنے سے انکار ہے۔ قبل ازیں بھی امریکہ کے سیکرٹری دفاع جنرل جیمز میٹس نے کہا تھا کہ "ہم دہشت گردوں کے خلاف مہمات جاری رکھیں گے، لیکن اب امریکہ کی قومی سلامتی میں بڑی طاقتوں (چین اور روس) کے ساتھ عسکری مسابقت ترجیحات کی حامل ہوگی۔ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت اور دنیا بھر میں اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ سے امریکہ کو سخت پریشانی لاحق ہے۔ خیال رہے کہ اس ضمن میں امریکہ الزام لگا چکا ہے کہ بیجنگ سائبر حملوں کے ذریعے واشنگٹن میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے معلومات چوری کر رہا ہے۔

اس سے قبل امریکہ روس پر بھی الزامات عائد کرچکا ہے، حتٰی کہ امریکی صدارتی انتخابات میں چھیڑ خانی اور یوکرائن میں مداخلت سمیت امریکہ کئی بار روس کو آنکھیں دکھا چکا ہے۔ اس ساری خبر گیری میں جو بات پریشان کن ہے، وہ یہی کہ جنگی جنون میں مبتلا امریکہ کہیں خوف کی حالت میں کوئی غیر سنجیدہ اقدام نہ اٹھا لے۔ امریکی تاریخ جنگوں اور قتل و غارت گری کی تاریخ ہے۔ اس کی ذہنیت سامراجی اور قبضہ گیری کی ہے۔ بے شک چین خطے کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی ایک تسلیم شدہ مستحکم معیشت ہے اور چین کی اسی مستحکم ہوتی ہوئی معیشت کو امریکہ اپنے لئے خطرہ سمجھ رہا ہے۔ دنیا میں چین کے بڑھتے قدم روکنے کے لئے امریکہ نے افغانستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، عراق و شام کی تباہی کو بھی اسی امریکی پالیسی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب امریکہ بھارت کے ذریعے چین اور پاکستان کو قابو میں رکھنے کی گمراہ کن سوچ میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اپنی حیثیت خطرہ میں نظر آنے لگے تو خواہ فرد ہو یا کوئی ملک، اپنی بقا کے لئے ضرور ہاتھ پائوں مارتا ہے۔ امریکہ نے چین و روس کو خواہ مخواہ اپنے لئے خطرہ قرار دے کر امریکیوں کو خوف زدہ کر دیا۔ اس خوف سے نکلنے کے لئے امریکہ کوئی غلط اقدام بھی اٹھا سکتا ہے، یا کم از کم ایک لفظی جنگ کا آغاز تو ضرور کر دے گا۔ کیا اس لفظی جنگ کا انجام ایک روایتی یا تباہ کن جنگ ہوگا؟ یا عالمی برادری سفارتی کوششوں سے عالم انسانیت کو کسی بڑی تباہی سے بچا لے گی۔؟
خبر کا کوڈ : 700908
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش