QR CodeQR Code

شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کے ممکنہ نتائج و اثرات

31 Jan 2018 00:59

اسلام ٹائمز: اگرچہ فوجی امور کے بارے میں سو فیصد یقین سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی لیکن کہا جا سکتا ہے کہ خطے کے حالات اور اس پر حکمفرما ماحول کے تناظر میں ترک آرمی اور اس کی حمایت یافتہ فورسز کی مکمل ناکامی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔


تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

شام میں کوئی بھی ترکی کی فوجی کاروائی کا حامی نہیں۔ شام حکومت، عرب باشندے، کرد باشندے، اہل تشیع، اہل سنت، علوی، دروز اور عیسائی باشندے سب ترکی کے اس اقدام کو خاص طور پر 21 جنوری کے بعد سے جب ترکی نے عفرین کی جانب ٹینگ بھیجنا شروع کئے، فوجی جارحیت اور تسلط پسندانہ اقدام قرار دیتے ہیں۔ شام کے امور پر اثرگذار ممالک بھی اس ملک میں ترکی کے فوجی آپریشن کے سخت خلاف ہیں۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ ترکی نے ایک ایسا اقدام انجام دیا ہے کہ سب اس کی شکست اور ناکامی کے منتظر ہیں۔ چونکہ شام میں ترکی کی فوجی کاروائی پیچیدگیوں کی حامل ہے اور اس کے مختلف قسم کے نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں لہذا اس کا جائزہ لینا کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے:

1)۔ شام کے شمالی حصے میں ترکی کی فوجی کاروائی کا کوئی مناسب جواز نہیں۔ شام کے کرد باشندے اگرچہ مرکزی حکومت کے خلاف امریکہ سے اتحاد تشکیل دینے کے باعث سرزنش کے حق دار ہیں لیکن موجودہ حالات میں وہ مظلوم واقع ہوئے ہیں اور ترکی کی فوج جارح ہے لہذا اس لحاظ سے انہیں غیر ملکی فوج کے مقابلے میں حق دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے شام میں اپنی فوجی جارحیت کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے شمالی حصے میں کردوں کی سرگرمیاں ترکی کی جنوبی سرحد پر واقع علاقوں کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں کردوں کی کل آبادی تین سے پانچ لاکھ کے قریب ہے اور وہ تین علیحدہ علاقوں میں مقیم ہیں جس کے باعث وہ ایک خودمختار ریاست تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ اسی طرح وہ شام کی مرکزی حکومت کی جانب سے شدید مخالفت کی وجہ سے شمالی علاقوں کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ترکی کے زیر انتظام کردستان میں کردوں کی کل آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے لہذا یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ شام کے کرد ترکی کے کردوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔

صرف ایک صورت میں مغربی حلب میں واقع شہر عفرین سے لے کر شمال مشرقی حلب میں واقع شہر کوبانی تک کا کرد خطہ ترکی کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور وہ اس وقت ہے جب ترک حکومت کے مخالف کرد اور غیر کرد دہشت گرد عناصر شام کے شمالی علاقے میں ٹھکانے قائم کر لیں۔ ایسی صورت میں یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ شام کی سرحد پار کر کے ترکی کے اندر سکیورٹی مسائل پیدا کریں۔ لیکن شام کے شمالی علاقوں کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے بلکہ پورے شام میں اس قسم کے دہشت گرد عناصر ہر گز ظاہر نہیں ہوئے۔ الٹا اس علاقے اور دیگر علاقوں میں خود ترکی نے دہشت گرد گروہ تشکیل دیئے ہیں اور انہیں بے تحاشہ اسلحہ فراہم کر کے شام اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کو شدید خطرے سے دوچار کیا ہے۔

درحقیقت نہ صرف شام کے شمالی علاقوں سے ترکی کے جنوبی علاقوں کو کوئی خطرہ درپیش نہ تھا بلکہ الٹا گذشتہ 6 برس کے دوران ترکی کے مرکزی اور جنوبی علاقوں نے شام کے شمالی اور مرکزی علاقوں کو مسلسل سکیورٹی خطرات سے روبرو کیا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ چند دنوں میں کم از کم تین فوجی قافلے وسیع پیمانے پر اسلحہ اور فوجی سازوسامان اور بڑی تعداد میں دہشت گرد عناصر کے ہمراہ ترکی کی سرحد عبور کر کے شام کے صوبہ ادلب پہنچے ہیں۔ یاد رہے یہ صوبہ تکفیری دہشت گروہ النصرہ فرنٹ کے زیر کنٹرول ہے۔ لہذا حقیقت میں شام حکومت کو ترکی کے جنوبی علاقوں میں فوجی آپریشن کا حق حاصل ہے نہ کہ ترکی کو شام کے شمالی علاقوں میں۔

2)۔ موجودہ شواہد اور قرینوں کی روشنی میں ترک آرمی اور اس کی حمایت یافتہ فرات شیلڈ فورسز جو دو دہشت گرد گروہوں فری سیرین آرمی اور النصرہ فرنٹ کے عناصر پر مشتمل ہیں، کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ شام کے شمال میں واقع کرد اکثریتی شہر عفرین جس کی کل آبادی چار لاکھ ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے کے خلاف ترکی کی فوج نے 15 جنوری کو گولہ باری کے ذریعے فوجی کاروائی کا آغاز کیا اور پانچ دن بعد ٹینک اور جنگی طیارے بھی جنگ میں شامل ہو گئے۔ یوں اس فوجی کاروائی کو شروع ہوئے تقریباً دو ہفتے گزر چکے ہیں جس دوران ترک آرمی اور فرات شیلڈ کے 58 سپاہی ہلاک اور قید ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 150 ہے۔ اسی طرح عفرین میں 48 عام شہری بھی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں سے صرف چھ افراد کرد باشندے تھے۔

ترکی کی فوج اور فرات شیلڈ کی فورسز شیراوا اور راجو نامی خطوں میں گیارہ دیہاتوں اور تین یا چار پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جن میں سے بعض کرد جنگجووں نے واپس لے لئے ہیں۔ یاد رہے اس آپریشن میں شرکت کرنے والے ترک آرمی اور فرات شیلڈ کے جنگجووں کی تعداد مدمقابل کرد اور دیگر جنگجووں سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ فوجی امور کے بارے میں سو فیصد یقین سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی لیکن کہا جا سکتا ہے کہ خطے کے حالات اور اس پر حکمفرما ماحول کے تناظر میں ترک آرمی اور اس کی حمایت یافتہ فورسز کی مکمل ناکامی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔ اس آپریشن میں ترکی کو کسی قوت کی حقیقی حمایت حاصل نہیں اور مستقبل میں بھی شام کے سکیورٹی امور میں سرگرم قوتوں میں سے کسی کی حمایت کی توقع بھی نہیں۔ دوسری طرف کرد جنگجو چونکہ اپنی آبائی سرزمین کے دفاع میں مصروف ہیں شام کی مرکزی حکومت سے تعلقات بہتر بنا کر اس کی حمایت سے برخوردار ہو سکتے ہیں۔ لہذا بہت آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کرد جنگجووں کی کامیاب کا امکان زیادہ ہے۔

3)۔ شام کے کرد اکثریتی علاقے میں ترکی کی فوجی کاروائی کے آغاز کے بعد کرد انتظامیہ نے شام آرمی سے درخواست کی کہ وہ ملک کے شمالی علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے۔ اس درخواست سے چند چیزیں ظاہر ہوتی ہیں جیسے کرد جنگجووں کی جانب سے ملک کے شمال میں کرد فیڈریشن تشکیل دینے کی صلاحیت نہ ہونے کا اعتراف، مرکزی حکومت کے ساتھ ماضی کے ناروا سلوک اور غلطیوں کا ازالہ کرنے کا عزم، ترکی کے مقابلے میں امریکی حکام یا روسی حکام کی جانب سے مدد ملنے سے مایوسی کا احساس اور شام آرمی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے پیش آنے والے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش۔ دوسری طرف شام آرمی ملک کے شمالی حصے میں ترکی کی فوجی کاروائی کو "فوجی جارحیت" قرار دے چکی ہے اور عفرین میں بسنے والے شامی عوام کی جان اور مال کی حفاظت کا عزم ظاہر کر چکی ہے لیکن ساتھ ہی کرد گروپ "پی وائے ڈی" کی جانب سے میڈیا کے ذریعے کی گئی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

شام فوج کے یہ دونوں اقدامات درست تھے۔ شام آرمی ملک میں ترکی کی فوجی مداخلت کو حسن نیت پر مبنی اقدام قرار نہیں دے سکتی تھی لہذا اس کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ وہ بیرونی جارحیت سے مقابلے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اسی طرح شام آرمی ایک ایسی درخواست پر ردعمل ظاہر نہیں کر سکتی تھی جو میڈیا کے ذریعے پیش کی گئی ہے اور باقاعدہ نہیں۔ شام آرمی ایسے علاقے میں فوجی آپریشن بھی شروع نہیں کر سکتی جو اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ شام آرمی اس بات کی منتظر ہے کہ کرد باشندوں اور انتظامیہ کی جانب سے مرکزی حکومت کے ساتھ موجود مسائل کا جامع حل تلاش کرنے کیلئے کوئی علامت ظاہر کی جائے۔ کرد انتظامیہ کی جانب سے اب تک ایسی علامت ظاہر نہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک مرکزی حکومت سے تعلقات بہتر بنانے کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائے۔

4)۔ شام کے شمالی حصے میں سکیورٹی بحران کی شدت میں اضافے سے متعلق امریکہ اور روس کا موقف قابل غور ہے۔ امریکہ نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے اس فوجی اتحاد کے دیگر رکن کے مقابلے میں سخت موقف اختیار کرنے سے قاصر تھا لہذا اس نے شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کے خلاف موقف نہیں اپنایا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے امریکہ کی اس مجبوری کو سمجھتے ہوئے یہ دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر امریکہ یا کسی یورپی ملک نے شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کی مخالفت کی تو وہ نیٹو فوجی اتحاد چھوڑ دیں گے اور ترکی میں نیٹو کا دفتر بھی بند کر دیں گے۔ امریکہ نے ایسے حال میں ترکی کی فوجی جارحیت پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جب ترکی کے مدمقابل وہ کرد گروہ قرار پائے ہیں جنہیں امریکہ نے گذشتہ تین سال سے یہ سبز باغ دکھا رکھا ہے کہ وہ عفرین سے لے کر کوبانی تک ایک خودمختار کرد ریاست کی تشکیل میں ان کی ہر ممکنہ مدد کرے گا۔ واشنگٹن نے کردوں سے کئے گئے وعدے بھلا دیئے اور عملی میدان میں انہیں ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

دوسری طرف روس بھی کرد انتظامیہ کی حمایت میں کوئی فائدہ نہیں دیکھ رہا تھا اور ترکی کے ساتھ ڈیل پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ جب ترکی نے شام کے شہر عفرین کے نواح میں واقع دیہاتوں پر گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا تو روس نے وہاں سے اپنی فوجیں باہر نکال لیں جبکہ روس ترکی کو وارننگ دے کر ان علاقوں پر گولہ باری روک سکتا تھا جہاں اس کی افواج تعینات تھیں۔ عفرین سے روسی افواج کا انخلاء جو ایک غیر اخلاقی اقدام قرار دیا جا رہا ہے، نے ترکی کو فوجی سرگرمیاں انجام دینے میں کھلی چھٹی دے دی۔ اس طرح ترکی نے گولہ باری کے علاوہ شام کے شمالے حصوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانا بھی شروع کر دیا۔

ماضی میں روس کے کرد گروپ پی کے کے اور اس سے مربوطہ دیگر کرد گروہوں سے بہت اچھے تعلقات قائم رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ نظریات میں نزدیکی تھی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ روس نے شام میں ترکی کی فوجی مداخلت پر خاموشی کے بدلے ترکی سے نیٹو میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے روس کے بعض مطالبات منوانے کی کوشش کی ہے۔ روسی حکام ترکی سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ نیٹو کو کنٹرول کرنے میں ان کی مدد کریں گے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ رجب طیب اردگان آخرکار ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کسے ترجیح دیں گے اور کسے اپنے حتمی اتحادی کے طور پر انتخاب کریں گے۔ ترکی کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں جبکہ روس کے ساتھ اس کے اقتصادی تعلقات بہت محدود حد تک ہیں لہذا رجب طیب اردگان کی جانب سے ماسکو کو ترجیح دینے کا امکان کم ہے۔

5)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی کے اس اقدام نے سوچی اور آستانہ مذاکرات کو کمزور کر دیا ہے۔ ایران، روس اور ترکی کے درمیان کم کشیدگی والے علاقوں پر مبنی اتحاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے اور مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ امر شام کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا کر اس مسئلے میں شامل قوتوں کو سیاسی راہ حل کی بجائے فوجی راہ حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ چھ برس سے جاری شام بحران کی شدت میں اضافے کی صورت میں ترکی اور اس کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ جیسے فری سیرین آرمی اور فرات شیلڈ فورسز کا کردار غیر موثر ہو جائے گا۔


خبر کا کوڈ: 700984

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/700984/شام-میں-ترکی-کی-فوجی-کاروائی-کے-ممکنہ-نتائج-اثرات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org