0
Wednesday 31 Jan 2018 19:00

خیبر پختو نخوا کی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی

خیبر پختو نخوا کی سیاست میں بڑی تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی
رپورٹ: ایس علی حیدر

خیبر پختونخوا کی سیاست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آرہی ہے اور 2013ء کے عام انتخابات میں جن جماعتوں کے ٹکٹوں پر امیدواروں نے کامیابیاں حاصل کی تھیں، وہ ارکان صوبائی اسمبلی اپنی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ بہت سے ان ارکان نے اپنی وفاداریاں تبدیل کی ہیں، جن ارکان کو اپنا مستقبل اپنی ہی جماعتوں میں تاریک نظر آرہا ہے، وہ دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ جس کی زندہ مثال پی کے 17 چارسدہ سے فضل شکور خان ہیں، جو عام انتخابات میں جمیعت علماء اسلام (ف) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے، اب انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اسی طرح ضیاء اللہ آفریدی پی کے 1 سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے، وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے قربان علی خان بھی اپنی جماعت چھوڑ کر ایک مذہبی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے بابر سلیم بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ قبل ازیں شیر گڑھ مردان سے رکن صوبائی اسمبلی جمشید مہمند مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

قومی وطن پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے چارسدہ کے سلطان محمد خان نے بھی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے، جو کہ پی کے 18 چارسدہ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ قومی وطن پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے گوہر نواز بھی اپنی جماعت چھوڑ چکے ہیں۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی کے مانسہرہ سے رکن صوبائی اسمبلی ملک ابرار حسین تنولی وفاداری تبدیل کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ عملاً پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات قریب آرہے ہیں اور 11 مارچ کو ہونے والے متوقع سینیٹ کے انتخابات کے بعد صوبائی اسمبلی کے ارکان کی پروازوں میں اضافہ ہوگا اور وہ دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں گے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد سینیٹ کے انتخاب کا انتظار کر رہی ہے اور جونہی انتخابات ہو جائیں گے تو وہ دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر جائیں گے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے حلقوں پر دوبارہ انتخاباب ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے موقف اختیار کیا ہے کہ 28 فروری کے بعد ضمنی انتخابات نہیں ہوں گے اور آئندہ انتخابات کی تیاری کی جائے گی۔

صوبائی اسمبلی کے ارکان کی نظریں سینیٹ کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں اور ان کی یہ خواہش ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے کوئی خاطر خواہ مالی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ موجودہ ارکان صوبائی اسمبلی میں سے بڑی تعداد ایسے ارکان کی ہے، جن کو دوبارہ ٹکٹ ملنے کی توقع نہیں، اس لئے وہ ٹکٹ کے حصول کیلئے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف شمولیت اختیار کرنے والے فضل شکور خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے 2008ء کے انتخابات میں اے این پی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی، 2013ء کے انتخابات میں جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ دو جماعتیں تبدیل کرنے کے بعد اب وہ تیسری جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے جماعتیں تبدیل کرنے کی ہیٹ ٹرک کرلی ہے۔ فضل شکور خان کی طرح بہت سے سیاستدان ایسے ہیں، جو اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے چلے آرہے ہیں۔ قربان علی خان 2002ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ صوبائی اسمبلی میں ایسے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو پہلے کسی اور پارٹی میں تھے، اب کسی اور میں ہیں اور آئندہ کسی اور میں ہوں گے۔

فضل شکور خان نے 2013ء کے انتخابات میں 24100 ووٹ لئے، ان کے مدمقابل محمد احمد خان نے اے این پی کے ٹکٹ پر 20611، پاکستان تحریک انصاف کے عابد جان نے 7731، جماعت اسلامی کے مصباح اللہ نے 5526، پیپلز پارٹی کے قیصر جمال نے 1460، ہمایون شاہ نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 588، آزاد امیدوار عبدالرحمٰن 2742 اور اشتیاز احمد نے متحدہ دینی محاذ کے ٹکٹ پر 488 ووٹ لئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ فضل شکور نے مہنگا سودا کیا ہے، کیونکہ آئندہ انتخاب میں یہ نشست جے یو آئی (ف) کو ملنی تھی۔ متحدہ مجلس عمل بحال ہونے کے بعد فارمولے کے تحت یہ ٹکٹ جے یو آئی (ف) کے حصے میں آنی تھی۔
خبر کا کوڈ : 701206
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش