2
0
Wednesday 7 Feb 2018 14:16

عوامی عدالت کوئی شے نہیں ہوتی

عوامی عدالت کوئی شے نہیں ہوتی
تحریر: طاہر یاسین طاہر

انسانی جبلت کچھ چیزوں کی آرزو مند رہی۔ قدیم زمانے کے انسان سے جدید عہد کے انسان تک، غاروں میں رہنے والا انسان بھی کسی نظام کا متلاشی رہا۔ افلاطون و ارسطو کا فلسفہ ریاستی نظام کو بہتر کرنے کی تگ و تاز ہے۔ جدید تاریخ کے انسان نے اپنی بقا اور سماجی حیات کے لئے جمہوری نظام کو تراشا اور اس نظام کی صحت مندی کے لئے ریاستی ادارے تشکیل دیئے۔ کسی نظام کے بغیر کوئی سماج زندہ رہنے کا تصور کیسے کرسکتا ہے؟ فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ چار چھ ہزار افراد کا مجموعہ کسی سیاسی یا مذہبی جلوس کی علامت تو ہوسکتا ہے مگر کسی ریاستی ادارہ کا متبادل نہیں۔ انسانی ضرورت یہی ہے کہ اپنی جبلتوں کو کسی نظام کے تابع کرے۔ خود پرستی اور چیز ہے، بڑا رہنما ہونے کی خوبیاں "چیزے دگر است" میاں محمد نواز شریف عدالت سے نااہل ہونے کے بعد کہتے ہیں اور ہر جلسے جلوس میں کہتے ہیں کہ "عوامی عدالت" نے انہیں بری کر دیا۔ کبھی کہتے ہیں کہ عوام کی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا، کبھی کہتے ہیں کہ عوامی عدالت نے نااہل کرنے والوں کو نااہل کر دیا۔ بڑے جلسے بڑے ووٹ کی دلیل نہیں ہوتے۔ مسلم لیگ نون کی مرکز، پنجاب اور آزاد کشمیر میں حکومت ہے۔ پشاور میں ہونے والے بڑے جلسے کو "کے پی کے" کے عوامی مزاج کے تحت دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ ہر چار پانچ سال بعد دوسری طرف دیکھتے ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی، جمعیت کے دونوں دھڑوں اور اے این پی کے نظریاتی ووٹروں کے۔ کیا پشاور کا بڑا جلسہ دلیل ہے کہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے پی کے، میں حکومت بنا لے گی؟ انتخابات قریب آتے ہیں تو نئے دھڑے بنتے ہیں۔

سابق وزیراعظم جو نااہل ہوچکے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو ملک سے بے روزگاری ختم کر دیتا۔ حضور کیا ترقی کے سارے زینے آپ کی ذات سے جڑے ہیں؟ کیا اس وقت بھی مرکز میں آپ ہی کی جماعت کی حکومت نہیں؟ کیا وزیراعظم آپ کا اپنا پسند کردہ نہیں؟ پھر ملکی ترقی ایک شخص کے نااہل ہونے سے کیسے رک گئی ہے؟ یعنی کہ جمہوریت میں بھی آپ آمریت کے دیوانے نکلے۔ سیاسی کاریگروں کی حیلہ سازیاں تو دیکھیں۔ کیا ان کے مشیروں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ حضور "خود کو ناگزیر" سمجھنے والے لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں اور بعض کی تو قبروں کے کتبے بھی ریزہ ریزہ ہوگئے۔ بعض کی قبروں کے نشان مٹ گئے۔ ان ناگزیر لوگوں میں سے ایک پاکستان کے آمر ضیاء الحق ہوا کرتے تھے، جن کی قبر فیصل مسجد میں ہے، جہاں آپ کھڑے ہو کر کہا کرتے تھے کہ ضیاء الحق کا مشن میں آگے بڑھائوں گا۔ پھر ایک اور مارشل لا آیا، جس نے آپ کی حکومت ختم کی۔ بس اسی دن سے آپ کے نزدیک بھی مارشل لا ایک برائی ہوگئی، ورنہ تاریخ میں واقعات درج ہیں۔ بڑے رہنما کی ایک پہچان اس کی اخلاقی صفت ہے، وہ اپنی قوم، اپنے سماج، اپنے ووٹرز سے جھوٹ نہیں بولتا۔ بخدا ہمارے سارے سیاسی و غیر سیاسی حکمران اپنی قوم سے جھوٹ بولتے آئے ہیں۔ کوئی ایشیا کا ڈیگال بنتا ہے تو کوئی ایشیا کا نیلسن منڈیلا۔ کیا دنیا میں کبھی کسی پاکستانی سیاستدان یا آمر حکمران کو بھی بطور مثال لیا گیا؟ نہیں نا۔ وجہ ضرور تلاش کریں کہ کیوں۔

کہا جاتا ہے اور بالکل درست ہے کہ پاکستانی عدلیہ نے آمروں کو تحفظ دیا، انہیں آئینی گنجائشیں پیدا کرکے دیں اور پی سی او کے تحت حلف لئے۔ یہ مگر آدھا سچ ہے۔ مارشل لاء جب بھی لگا، اس کی وجہ سیاستدان ہی بنے اور پھر اس مارشل لاء کی کابینہ کا حصہ بھی سیاستدان ہی بنتے رہے۔ بہت کڑوا ہے مگر سچ ہے۔ ایوب خان کی کابینہ اور ضیاء الحق کی کابینہ تو ان سیاستدانوں کا اڈہ تھا، آج جو جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کا علم اٹھائے ریاستی اداروں پہ سنگ زنی کر رہے ہیں۔ اصل میں عوامی نمائندگی کا حق یہ نہیں کہ آپ ووٹر کے حق رائے دہی کو منظم دھاندلی کے ذریعے اپنے حق میں تبدیل کرا لیں، ووٹ کا تقدس یہ بھی نہیں کہ عوام کو صحت و تعلیم اور روزگار کے بجائے دھکے اور مفلسی ملے۔ جسے آپ "عوامی عدالت" کہتے ہیں، اس عدالت کی خواہش ہے کہ اسے روزگار، رہائش، تعلیم اور صحت کی ارزاں سہولیات ملیں۔ مگر صد افسوس آپ کی "عوامی عدالت" کے کل پرزے، وڈیروں اور بااثر افراد کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں۔ یہی سچ ہے، آپ چاہے اس سے جتنا بھی اختلاف کریں۔

یہی "عوامی عدالت" جب قصور کی بے قصور زیبب کے قاتل کی گرفتاری کے لئے مظاہرہ کرتی ہے تو ریاستی پولیس اس پہ گولی چلاتی ہے۔ اس وقت آپ اسے مشتعل ہجوم کہتے ہیں، مگر آپ کے جلسے میں انہیں ہانک کر لایا جائے تو آپ اس ہجوم کو عظیم عوامی عدالت کہتے ہیں۔  بے شک عدالت ریاست کا ایک تسلیم شدہ آئینی ادارہ ہے۔ عوامی عدالت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہر گلی محلے عوامی عدالتیں لگنا شروع ہو جائیں تو ملک انارکی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بخدا جس ہجوم کو آپ اور آپ کی دختر نیک اختر عوامی عدالت کہتے ہیں، وہ مفادات کے ماروں کے ہانکے ہوئے افراد ہوتے ہیں۔ ریاست کا استحکام اس کے اداروں کے استحکام سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جب کوئی شہنشاہ مزاج ریاستی اداروں کو اپنی منشاء کے مطابق چلانا چاہے تو مہذب معاشرے کے بیدار مغز افراد اس شاہی مزاج کی راہ میں دلائل کی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ عوامی عدالت نام کی کوئی چیز کسی ریاست میں نہیں ہوتی۔ زندہ باد، مردہ باد کا ہجوم کرپشن و اقربا پروری کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتا۔ ریاستوں کے قوانین ہوتے ہیں اور تمام شہری ان قوانین کے تابع ہوتے ہیں، جو خود کو ملکی قانون سے ماورا سمجھے، وہ ملک میں شہنشاہیت اور انارکی لانے کا سبب تو بنے گا، جمہوریت اور خوشحالی لانے کا نہیں۔ عدل صرف کسی ایک ہی شخص کے بار بار وزیراعظم بننے کا نام نہیں۔ خواہشیں ضرور پالیں، مگر ریاست کی چولیں مت ہلائیں۔
خبر کا کوڈ : 703091
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
طاہر یاسین صاحب ما شاء اللہ بہت زبردست
طاہر یاسین طاہر
Pakistan
بہت نوازش محترم/جزاک اللہ
ہماری پیشکش