0
Friday 9 Feb 2018 17:13

امریکہ اور دہشت گردی کو دوبارہ فروغ دینے کی کوشش

امریکہ اور دہشت گردی کو دوبارہ فروغ دینے کی کوشش
تحریر: علی احمد

امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ شام کے شمالی حصے میں موجود امریکی فوجی وہاں باقی رہیں گے اور انہوں نے 30 ہزار کرد جنگجووں کی ٹریننگ اور انہیں اسلحہ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ امریکہ کے اس اعلان پر شام، روس اور ترکی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان تینوں ممالک نے اس امریکی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف عملی اقدامات انجام دینے پر زور دیا ہے۔ شام کی وزارت خارجہ نے اپنے ملک میں موجود امریکی فوجیوں کو جارح قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ شام حکومت نے امریکی جارح فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ شام کی وزارت خارجہ نے ملک میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں کو شام کی خود ارادیت کی واضح خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن شام کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہو گا اور اس کا سختی سے مقابلہ کیا جائے گا۔

مزید برآں، روسی حکام نے بھی ملے جلے بیانات کے ذریعے دمشق کی مرضی اور اجازت کے بغیر شام میں فوجی موجودگی پر مبنی امریکی اقدام کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیا اور واضح کیا کہ امریکہ کا یہ رویہ خطے کی پیچیدہ صورتحال پر منفی اثرات ڈال کر بحران کی شدت میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس بارے میں ترکی کا موقف انتہائی معنی خیز تھا۔ ترکی نیٹو اتحاد کا رکن ہونے کے ناطے امریکہ کا اتحادی تصور کیا جاتا ہے لیکن اس نے بھی امریکہ کی جانب سے شام کے شمال میں کرد شہریوں کو خاص فوجی اور سکیورٹی مقاصد کیلئے فوجی ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرنے کی شدید مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ ترک حکام ان امریکی اقدامات کو ترکی کی قومی سلامتی کیلئے شدید خطرناک قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ترکی نے خبردار کیا ہے کہ وہ کرد جنگجووں کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کرے گا کیونکہ اس کی نظر میں وہ دہشت گرد عناصر محسوب ہوتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت بھی شام کے شمال میں امریکہ نے 10 فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ امریکہ نے شمالی شام میں اپنی فوجی موجودگی کے آغاز سے ہی دمشق کی اجازت اور اسے اعتماد میں لئے بغیر یکطرفہ طور پر فوجی جارحیت کی اور عملی طور پر شام حکومت سے ٹکر لیتے ہوئے واضح طور پر شام میں حکمفرما نظام کی تبدیلی کی کوشش کی ہے۔ آج امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور بعض عرب ممالک کی جانب سے گذشتہ 6 برس کے دوران مسلسل تکفیری دہشت گرد گروہوں جیسے داعش، النصرہ فرنٹ، احرار الشام وغیرہ کی مکمل حمایت اور فوجی اور مالی امداد کے باوجود ان گروہوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور تکفیری دہشت گرد آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی جدید فریم ورک کے تحت اور نئے اہداف و مقاصد کے ساتھ دہشت گردی کی حمایت جاری رکھنے پر امیدوار نظر آتے ہیں تاکہ اس طرح جن اہداف کے حصول میں اب تک ناکامی کا شکار ہوئے ہیں شاید نئی حکمت عملی کے ذریعے انہیں حاصل کر پائیں۔

مشرق وسطی میں بحران ایجاد کرنے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سیاہ کارناموں کا جائزہ لینے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی حکام کے سرکاری بیانات اور عملی اقدامات اور اس کے دیگر شرپسند اتحادیوں کے درمیان ہمیشہ شدید اختلافات موجود رہے ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی فرنٹ لائن پر رہے ہیں اور حتی جھوٹے انداز میں خود کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار بھی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمل کے میدان میں دہشت گرد عناصر نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں خاص طور پر رجعت پسند عرب حکمرانوں کے ہراول دستے کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔ یہ دہشت گرد عناصر امریکہ اور بعض یورپی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس اور اسی طرح غاصب صہیونی رژیم کے اس منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد شام، عراق، لیبیا، لبنان اور یمن میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرنا اور حتی ان ممالک کو توڑنا ہے۔

ان منحوس منصوبوں کی ابتدا سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے دور میں ہوئی جب اس کی سربراہی میں ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل پائی جس کا اصلی مقصد اسرائیل کے اردگرد واقع عرب ممالک میں بدامنی اور انارکی پھیلا کر انہیں توڑنا تھا۔ ان عرب ممالک کو توڑ کر چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک میں تبدیل کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ ان کی طرف سے اسرائیل کو کسی قسم کا خطرہ درپیش نہ ہو سکے۔ خطے میں بدامنی اور تباہی و بربادی کا بیج اسی وقت سے بویا گیا جس کی فصل آج کاٹی جا رہی ہے۔ اصل مقصد شام اور عراق پر تکفیری دہشت گرد عناصر کا قبضہ قائم کرنا تھا تاکہ خطے کو اسرائیلی مفادات سے ہم آہنگ صورتحال کی جانب دھکیلا جا سکے۔ اگلے مرحلے پر خطے میں امریکی اور اسرائیلی پٹھو عرب حکومتیں جیسے سعودی عرب وغیرہ کی مرکزیت میں ایسا جدید مشرق وسطی تشکیل دیا جانا تھا جو اسرائیل کی قومی سلامتی کا ضامن ثابت ہو سکے۔

اگرچہ تشکیل پانے والے منصوبوں اور مہیا کئے گئے وسائل سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ اسلام دشمن قوتیں اپنے کام میں استاد ہیں اور انہوں نے تمام حیلے اور ہتھکنڈے بروئے کار لاتے ہوئے صورتحال اپنے حق میں تبدیل کر لی ہے لیکن خطے کی اقوام کی جانب سے بے مثال شجاعت اور استقامت کا مظاہرہ کرنے اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی فداکاری کے نتیجے میں اسلام دشمن قوتوں اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں کی ناک زمین پر رگڑ دی گئی۔ انہوں نے داعش کو عراق اور شام پر حکمفرما کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے دلیر مجاہدین کی انتھک محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں داعش کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اب وہی امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں پر مشتمل شرپسند ٹولہ ایک بار پھر اپنی بخت آزمائی کرنا چاہتا ہے اور خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کے مردہ بدن میں دوبارہ روح پھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ٹولہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خطے میں نئی شیطنت اور فتنہ گری کے درپے ہے۔

آج دوست اور دشمن سب اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ عربی – عبری – مغربی محاذ کے تربیت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے ہر اس غیرانسانی اور پست جرم کا ارتکاب کیا ہے جو تصور کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ ان عناصر کا خاتمہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے نڈر اور بہادر مجاہدوں کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ امریکہ ہر گز دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نقاب لگا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل نہیں کر سکتا۔ امریکہ انہیں دہشت گردوں کی مالی اور فوجی معاونت میں مصروف رہا ہے اور جب دیکھتا تھا کہ ان کی نابودی حتمی ہوتی جا رہی ہے تو داعش کے امریکی، برطانوی، فرانسوی اور اسرائیلی کمانڈرز کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھگا لے جاتا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی حالیہ عبرت ناک شکست اور رسوائی کے بعد خطے میں دوبارہ دہشت گرد نیٹ ورکس ایجاد نہ کر سکیں گے تاکہ ان کے ذریعے خطے کی اقوام پر حکمرانی کر سکیں۔ اسلامی مزاحمتی بلاک شرپسند عناصر، دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دے گا۔
خبر کا کوڈ : 703467
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش