0
Friday 9 Feb 2018 13:44

قتل و غارت اور سیاسی گرم جوشی

قتل و غارت اور سیاسی گرم جوشی
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آپریشن ردالفساد اب کہاں ہو رہا ہے، اس کا علم اگر کسی کو ہو تو ضرور آگاہ فرمائیں، ہم بھی ان اتھاریٹیز کو آگاہ کرسکیں کہ دہشت گرد سرعام، لوگوں کے سامنے، کیمروں کی آنکھ میں آنے کے ڈر و خوف سے بالاتر ہو کر ڈیرہ اسماعیل خان میں چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کوئی عام شہر نہیں، یہ وزیرستان سے منسلک ہی سمجھیں، یہاں دہشت گردوں کا نیٹ ورک کوئی نئی بات بھی نہیں کہ اتھارٹیز متوجہ نہ ہوں۔ ایک عرصہ سے بلکہ چار عشروں سے یہاں قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس میں کبھی کبھار توقف آجاتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے پی کے کا حصہ ہے، جہاں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہاں مولانا فضل الرحمان کا سکہ چلتا ہے، جبکہ صوبے میں حکومت پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی ہے۔ ماضی میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بھی رہی، جس میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی بھی اہم ترین وزارتوں کیساتھ مزے لوٹتی رہی ہے، جبکہ شہر کی سیٹوں سے سے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے نمائندگان منتخب ہوتے آئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں اہل تشیع کا بڑا ووٹ بنک ہے، مگر بدقسمتی سے کچھ اپنوں کی نادانیاں، غفلت، یا ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر ہم اس ووٹ بنک کا درست استعمال نہیں کر پا رہے۔ یہاں کے اہل تشیع نے جتنی قربانیاں دی ہیں، ان کا تقاضا تو یہی تھا کہ عوام یک جان ہوتے اور ملکر سیاسی محاذ پر فتح حاصل کرتے اور اپنے بیٹوں، بزرگوں اور بہنوں بیٹیوں کے قاتلوں سے ووٹ کی شکل میں انتقام لیتے، مگر وا حسرتا۔۔۔ احساس سے عاری قیادتیں اپنے مفادات کو کسی بھی صورت میں پس پشت ڈالنے کو تیار نہیں ہوتیں، جس کا نتیجہ ایسے ہی قتل عام کی صورت میں نکلتا ہے۔ دشمن اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا رہتا ہے اور ہم رونے دھونے کے عمل میں مشغول۔۔۔ اگر کوئی احتجاج کیلئے نکل کھڑا ہو تو اس کی مخالفت یا پھر نمبر ٹانکنے کا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ قائدین کو اس وقت ڈیرہ کے عوام کی دل جوئی کیساتھ ان کیساتھ کھڑے ہونے کا احساس دلانے اور انہیں شہداء کے خانوادوں کیساتھ مل کر میدان میں اترنے کی حکمت عملی دینے کی ضرورت ہے، تاکہ احتجاج کے ذریعے وفاقی حکومت، پی ٹی آئی کے صوبائی ذمہ داران اور اسٹیبلشمنٹ تک اپنے مطالبات اور احساسات پہنچائے جا سکیں اور عملی اقدامات کیلئے مجبور کیا جا سکے۔

الیکشن کی تیاریاں عروج پہ ہیں، تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیاں، جلسے، جلوس، کارنر میٹنگز، سیاسی جماعتوں کیساتھ الحاق اور ملاقاتیں، جوڑ توڑ کے ذریعے اچھی شہرت کے حامل امیدواران کو اپنی جماعتوں میں لانے اور سینیٹ کے الیکشن کیلئے گرم جوشی بھی اپنے عروج پہ ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ہم اب تک کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے، ہم بطور قوم منظر نامے سے غائب ہیں، جبکہ ہمارے اکثریتی علاقے پاراچنار کی سیٹ کو نئی مردم شماری میں ختم کر دیا گیا ہے، اگرچہ پاراچنار کی سیٹ پہ الیکشن کے باعث قوم میں بہت سے مسائل اور جھگڑے جنم لیتے تھے اور اتحاد کو سخت دھچکا لگتا تھا، مگر یہ بات طے تھی کہ اپر کرم کی سیٹ پہ پھر بھی کوئی ایک شیعہ ایم این اے آتا تھا، اب جو صورتحال سامنے ہے، اس میں تو کھچڑی پکنے کا بھرپور امکان ہے۔ ہماری طرف سے چھ سات امیدوار نظر آ رہے ہیں، اگر یہ سب ایک ہو جائیں، تب بھی بہت محنت کی ضرورت ہوگی، جس کا امکان بہت کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قوم کے بزرگان اور موثر و محترم لوگ اپنے دھندوں میں مشغول ہیں اور انہیں اس جانب متوجہ کرنے کیلئے ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہے۔۔ شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔  ہنگو ضلع کوہاٹ کے بارے میں بھی یہ معلومات ملی ہیں کہ یہاں بھی الیکشن فرقہ کی بنیاد پہ ہوتا ہے، جس میں اگر اہل تشیع متحد ہوں تو دو صوبائی سیٹس نکلتی ہیں، پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سپاہ صحابہ کے نظریاتی لوگوں نے الیکش لڑا اور جیت گئے، جیت کیلئے ان کی مدد "فرشتوں" نے بھی کی، جبکہ بہت سے ایسے ایریاز جن میں ان کی اکثریت تھی اور وہاں شیعہ امیدوار کا پولنگ ایجنٹ تک نہیں ملتا، ان میں ان کی مرضی سے ووٹ کاسٹ کئے گئے، جو شائد اصل تعداد سے بھی زائد تھے۔

ایک وقت تھا جب کسی بھی صوبائی اسمبلی میں ہمارا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا تھا، تب ہم سینیٹ کے الیکشن میں بڑے طمطراق سے اترتے تھے اور دو بار تو ہم نے اس میں میدان بھی مارا، مگر اب ہم بلوچستان کی ایک صوبائی سیٹ رکھتے ہیں، جن کے پاس موجودہ سیٹ اپ میں چار وزارتیں بھی ہیں، یہ ایک خوش آئند بات ہے، اس سے اہل کوئٹہ کے بالعموم اور اہل پاکستان کے مومنین کو بے حد حوصلہ ملا ہے، اے کاش ہم اس سے اگلے مراحل میں بھی کامیابی سمیتی ہوتی۔ بہرحال مجلس وحدت مسلمین کا نام ایک بار پھر پارلیمانی سیاست میں نمایاں ہوا ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ گذشتہ الیکشن اور جی بی کے الیکشن میں ملکی سطح پر الیکشن کی سیاست کرنے والی ہمارے قومی جماعتوں اور شخصیات میں باہمی نااتفاقی اور اختلافات سے قوم کو بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص جی بی میں ایک دیوبندی کا وزیراعلٰی بن جانا کسی دھچکے سے کم نہیں تھا، اس میں ہم کس کو قصور وار ٹھہرائیں، یہ بے وقت کی راگنی ہے، ہاں ہم یہ ضرور چاہیں گے کہ ملکی حالات، کے پی کے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ، آبادی کے نئے نتائج، سیاسی جماعتوں کے رویوں اور ترجیحات کا بغور جائزہ لینے کے بعد میدان میں اترا جائے اور کسی بھی طرف سے کوئی کمٹ منٹ کرنے سے پہلے باہمی طور پہ مل بیٹھ کر مشترکہ مفادات کے حصول کی ممکنہ پالیسی وضع کی جائے، تاکہ شہداء کا خون رائیگاں نہ جائے اور پارلیمنٹ میں تکفیری عناصر داخل نہ ہوسکیں۔ معتدل لوگوں کو ہر طرح سے سپورٹ کیا جائے اور اپنے وقار کو دائو پہ نہ لگایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے الیکشن اب عام الیکشن نہیں رہے، اس میں بہت سے ممالک ملوث ہوتے ہیں اور اپنے اپنے گھوڑے میدان میں اتارتے ہیں اور پیسے کی جو ریل پیل اور اخراجات کا جو سیلاب اس میں آتا ہے، اس کی بے لگامی میں بھی اسی طرح کے عناصر اور قوتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ الیکشن لڑنا اب لاکھوں کا کھیل نہیں رہا، یہ کروڑوں کا معاملہ ہے، ایک ایک سیٹ پہ کروڑوں لگائے جاتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جاتی۔

اسی طرح الیکشن لڑنا ایک بہت ہی بڑا ہنر اور گیم پلان ہوتا ہے، جس کیلئے تربیت یافتہ افراد کا ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے، ہماری سیاسی جماعتوں نے ایسی کوئی تیاری بھی نہیں کی ہوتی، اگر کسی بھی جگہ یا کئی ایک سیٹس پہ بندے کھڑے کر لینا کسی کامیابی کی علامت ہرگز نہیں کہا جا سکتا، یہ صرف اپنا نام لکھوانا ہوتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ آپ کے امیدوار ووٹ کتنے لیتے ہیں، آپ سیٹس کتنی نکالتے ہیں۔ میرے خیال میں ہماری دینی و سیاسی جماعتوں کے پاس تو اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے کہ وہ ایک سیٹ کے برابر ہی اخراجات نکال سکیں، یہاں تو لوگ منڈیاں لگا کر اپنی سیاسی حکمت عملی اور دانائی کا رعب بٹھا رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے احباب سے جب اس موضوع پہ بات ہوتی ہے تو اکثر کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیئے کہ ہم کچھ سیٹس کو ٹارگٹ کریں، ان حلقوں میں کام کریں، اپنے امیدواروں کو پہلے سے متعارف کروائیں، سوشل ویلفیئر و فلاح عامہ کے منصوبے چلائیں اور الیکشن کے زمانے میں اپنی اچھی کارکردگی و روابط کی بنا پر میدان میں باعزت طریقے سے اتریں۔ جن حلقوں میں ہمارا ووٹ بنک اس قدر ہے کہ ہم اگر جیت نہیں سکتے مگر اپنے ووٹ بنک کے باعث کسی کو ہرا ضرور سکتے ہیں، وہاں کچھ لے اور دو کی پالیسی پہ عمل درآمد کیا جائے، میرے ذاتی خیال میں بھی بہت سی جگہوں پہ ایسا ہوسکتا ہے، اگر قومی سیاسی جماعتوں کو دلچسپی ہو تو اس تجویز پہ عمل درآمد کیا جا سکتا ہے اور ملی مفادات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 703529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش