0
Monday 12 Feb 2018 19:03

مذاہب کے درمیان روابط پاکستان کی ضرورت

مذاہب کے درمیان روابط پاکستان کی ضرورت
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے، تب سے اس کی فکر، عقیدہ، نظریہ اور سوچ کا زاویہ متعین یا مقرر یا اختیار کیا جاتا ہے اور شاید اسے ہی انسان کا مذہب کہا جاتا ہے۔ جوں جوں فکر کے زاویے تبدیل ہوتے ہیں یا ارتقاء کے مراحل طے ہوتے ہیں یا انسانی و معاشرتی ضروریات میں تبدیلی آتی ہے تو مذاہب میں تبدیلی یا ایجادات سامنے آتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ مذاہب کا نزول کسی غائبی قوت کی طرف سے ہوتا ہے یا انسانی اذہان سے مذاہب نے جنم لیا ہے، لیکن تخلیق آدم سے لے کر اب تک مذاہب کا وجود ایک لافانی حقیقت ہے اور شاید رہتی دنیا تک مذاہب اپنے تمام تر حقائق کے ساتھ موجود رہیں گے۔ مذاہب کے درمیان جہاں اختلافِ نظر رہا ہے بلکہ یہ اختلافِ نظر بعض اوقات جنگ و جدل اور معرکہ آرائی تک پہنچے ہیں۔ اسلام میں جہاد کے قرآنی و نبوی تصور سے ہٹ کر تمام مذاہب میں موجود شدت پسند عناصر نے ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت کے اقدامات بھی کئے، لیکن دوسری طرف ان مذاہب میں موجود امن پسند طبقات نے بھی ہمیشہ سے اپنی کوششیں، کاوشیں اور سرگرمیاں جاری رکھی ہیں۔ باہمی روابط بھی جاری رہے، علمی نشستیں اور مکالمے بھی چلتے رہے۔ معاشرتی و سماجی محافل میں بھی شرکت ہوتی رہی اور ایک دوسرے کی میزبانی سے لے کر دکھ درد اور خوشی و مسرت کے تمام مواقع پر ایک دوسرے کو یاد رکھا جاتا رہا۔

مذاہب کے درمیان رابطہ اور ہے جبکہ مذاہب کا ایک دوسرے کے اندر ادغام یا ادخال یا انضمام اور ہے۔ منفی سوچ کے حامل افراد اکثر اوقات مذاہب کے درمیان روابط کی محض اس لئے مخالفت کرتے ہیں اور ان کی محدود فکر اس خوف میں مبتلا ہوتی ہے کہ ہمارا اپنے مذہب سے ہٹ کر دیگر مذاہب سے قریبی رابطہ ہوگیا تو ہمارے مذہب کی بنیادی تعلیمات کی نفی ہو جائے گی یا ہمارے اکابرین و پیروکاروں پر برا اثر مرتب ہوگا یا دیگر مذاہب کے اثرات ہمارے عقیدہ پر اثر انداز ہوجائیں گے یا پھر ہمارے اپنے تعمیر کردہ ماضی کے ماحول کی نفی ہو جائے گی، جس کے بعد ہم جواب دہ یا شرمسار ہو جائیں گے۔ ان مصنوعی قباحتوں کی وجہ سے وہ دیگر مذاہب کے قریب آنے سے نہ صرف خود گھبراتے ہیں بلکہ اپنے ہم فکر طبقات کو دیگر مذاہب کے قریب آنے سے عملاً روکتے ہیں۔ اس سوچ کی نفی لازم ہے۔ چونکہ روز اول سے انسان مشترک معاشروں میں مشترک اقدار کی حامل زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں، اس لئے تمام تر مذہبی اور فکری اختلاف اور تفریق کے باوجود انسان اپنے مشترکات کو ترجیح دیتے ہوئے باہمی تعاون اور امن سے زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان دنوں اہل اسلام میں سے بعض طبقات اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ مغرب کی طرف سے ایک سازش کے تحت ’’وحدت ادیان‘‘ کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ جس میں مجموعی طور پر اسلام کو نقصان پہنچانے یا اسلام کو محدود کرنے یا اسلام کو کم تر بتانے یا اسلام جیسے آفاقی دین کو دیگر ادیان کے برابر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے لئے بے پناہ سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے اور اہل مذہب بالخصوص اہل اسلام کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہم مکمل طور پر اس بات کو مسترد یا نظرانداز نہیں کرسکتے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ مثبت اہداف کے حصول کے لئے مذاہب کے درمیان رابطوں کی نفی کریں یا آپ دنیا میں اختلاف کو جنگ و جدال کی بجائے علمی حدود پر لانے کی کوششوں کی مخالفت کریں یا آپ مذاہب کے وجود کی نفی کرتے ہوئے مذاہب کے ساتھ عمومی معاشرتی روابط کو تسلیم کرنے سے انکار کریں، یا عالمی سطح پر ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کے تشکیل کے لئے مذاہب کے کردار ادا کرنے کے سامنے رکاوٹ کھڑی کر دیں، یا اسلام ہی کی تعلیمات کے مطابق مذاہب کو ان کے حقوق میسر کرنے پر پابندی لگا دیں۔ جب تمام مذاہب اور اپنی تعلیمات کی تبلیغات کرنے کا مکمل حق اور اختیار حاصل ہے تو پھر ایک دوسرے سے خوف کیسا؟؟ جس طرح پاکستان میں مسیحی عبادت خانوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ مسیحی کتب بھی علی الاعلان بازاروں میں فروخت ہوتی ہیں اور میڈیا کے ذریعے مسیحی تعلیمات کے حصول کے ترغیب دی جاتی ہے، اسی طرح یورپ میں بھی کروڑوں مساجد کی موجودگی اور اسلامک سنٹرز کے قیام اور اسلامی چینلز کی سرگرمیاں اور اسلام کی تبلیغات کے لئے قافلوں کی آمدورفت اس بات کا ثبوت ہے کہ پرامن اور علمی انداز سے انسانوں کو اپنے مذہبی افکار کی طرف راغب و مائل و قائل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور جنگ و جدال کے بغیر بھی مذاہب اور ان کی تعلیمات کو قائم بھی رکھا جاسکتا ہے اور ان کی تبلیغ و ترویج بھی کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کے معروضی حالات بھی مذاہب کے درمیان گہرے روابط کا تقاضا کرتے ہیں، اگرچہ پاکستان میں غالب ترین اکثریت اہل اسلام کی ہے اور اسی اکثریت کی وجہ سے اہل اسلام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ دیگر اقلیتی مذاہب سے تعلقات اور روابط کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ انہیں زیادہ لفٹ دینے کی بجائے اپنے دائرہ میں لایا جائے، تاکہ یہاں سے دیگر مذاہب کے پیرکاروں کا صفایا ہو جائے۔ لیکن چار و ناچار انہیں دیگر مذاہب کے وجود اور حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ چار و ناچار نہیں بلکہ وسعت ذہنی و قلبی سے ان مذاہب کو تسلیم و قبول و برداشت کیا جائے۔ اس سے جہاں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو تحفظ کا احساس ہوگا، وہاں دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر آپ کے مذہب کا بہترین تاثر مرتب ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ اس مثبت اور قابل رشک عمل سے متاثر ہوکر آپ کے حلقے اور دائرے میں مستقلاً شامل ہو جائیں۔ پاکستان میں بین المذاہب روابط اور ہم آہنگی کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر باقاعدہ اور منظم کاوشیں ہو رہی ہیں، یہاں تک کہ وزارت مذہبی امور کے نام میں مزید ترمیم کرکے اسے وزارت مذہبی و اقلیتی امور و بین المذاہب ہم آہنگی بنا دیا گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پاکستانی آئین و قانون و پارلیمان میں اتنی وسعت اور برداشت موجود ہے کہ وہ دو فیصد اقلیتوں کو بھی اپنے حکومتی اور سرکاری امور میں برابری دیتا ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب عالمی سطح پر اس بات کا تقاضا بھی کیا جا رہا ہے اور ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے امور کو باقاعدہ نظم و ضبط دے کر ملکی سطح پر منظم کیا جائے۔

سرکاری کے علاوہ غیر سرکاری طور پر بھی بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے متعدد ادارے، پلیٹ فارمز، تنظیمیں اور فورم کام کر رہے ہیں، ان میں ادارہ امن و تعلیم (Peace and Education Foundation) سرخیل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جس کے تحت گذشتہ کئی سالوں سے مذاہب کے درمیان منظم روابط کے لئے خدمات انجام دی جا رہی ہیں۔ اس ادارے کی برکت سے اب تک پاکستان کے تمام مذاہب کے جید ترین علماء و اکابرین کی مشترکہ نشستیں منعقد ہوچکی ہیں۔ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کے مشترکہ دورہ جات ہوئے ہیں۔ باہمی تبادلہ خیال کے لئے اور ایک دوسرے کے علوم سمجھنے کے لئے متعدد علمی نشستوں کا انعقاد ہوچکا ہے۔ حکومت پاکستان کے اشتراک سے بین المذاہب کانفرنسیں منعقد کی جاچکی ہیں۔ اسی ادارے کے تحت بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ اور امن کے قیام میں اہل مذہب کے کردار کے تعین کے لئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد تسلسل کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جن میں اہل مذہب کو باقاعدہ کورسز کے ذریعے سکھایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت، رواداری اور امن و امان کو فروغ دے سکتے ہیں اور کس طرح اپنے ہم فکر و ہم عقیدہ لوگوں کو اس مثبت اور تعمیری کام کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔ اب تک اس ادارے نے مختلف مذاہب کے ہزاروں علماء و اکابرین اور ذمہ داروں کو تربیتی مراحل سے گزارا ہے، حتٰی کہ تمام اسلامی مکاتب فکر کے بڑے بڑے مدارس اور ان مدارس کی واحد نمائندہ تنظیم تنظیمات مدارس کے ساتھ مل کر سلیبس کی از سر نو تشکیل سے لے کر تدریس تک ہر مرحلے پر دینی طلباء کو امن و انسانیت کے ساتھ مربوط علوم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر دیا ہے۔

پاکستان میں جاری دہشت گردانہ حملے، تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں قتل و قتال اور دھماکوں کی کارروائیاں، آئے روز توہین مذاہب کے واقعات اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز کارروائیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ مذاہب کے درمیان قربت ایجاد کی جائے۔ ان کی تعلیمات کو قریب سے سمجھتے ہوئے انہیں برادشت کرنے کا مادہ پیدا کیا جائے۔ ادارہ امن و تعلیم کے ایجنڈے اور طریقہ کار سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کوششوں کو نچلی سطح تک لایا جائے، کیونکہ ابھی تک سرکاری پلیٹ فارم سے یہ کوششیں مرکزی اور صوبائی سطح تک جاری ہیں، لیکن مقامی اور محلہ کی سطح تک نہیں پہنچیں، البتہ پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے مسجد و مدرسہ اور چرچ و مندر کی سطح تک چھوٹے شہروں اور قصبوں تک بھی رسائی حاصل کرلی ہے، لیکن ایک پرائیویٹ ادارہ محدود وسائل و روابط کا حامل ہونے کی وجہ سے کتنی حد تک پیش رفت کرسکتا ہے؟ جس طرح امن عالم کے لئے بین المذاہب ہم آہنگی اور مذاہب کے درمیان روابط ضروری و لازم ہیں، اسی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی مذاہب کے درمیان قریبی روابط اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے، تاکہ اسلام کا روشن چہرہ سامنے لایا جاسکے اور دہشت گردی و نفرت کو اسلام سے جوڑنے والی قوتوں کی سازشیں ناکام بنائی جاسکیں، تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ترقی پسند، پرامن اور مثالی اسلامی مملکت کے طور پر سامنے لایا جاسکے، تاکہ پاکستان میں موجود دیگر اہل مذہب اور اقلیتوں کو تحفظ اور آزادی کا احساس ہو اور وہ ملکی ترقی میں شانہ بشانہ کردار ادا کرسکیں۔ تاکہ پاکستان میں ایک علمی اور پرامن ماحول پیدا کیا جاسکے، جہاں ہر مسئلے اور اختلاف کا حل صرف اور صرف امن اور تعلیم کے ذریعے ہو۔
خبر کا کوڈ : 704316
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش