0
Thursday 15 Feb 2018 19:53

افغان طالبان بنام امریکی عوام، پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

افغان طالبان بنام امریکی عوام، پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

عالمی میڈیا کے مطابق افغان طالبان نے امریکی کانگریس ارکان اور عوام کے نام کھلے خط میں مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق افغان طالبان نے امریکی عوام اور کانگریس ارکان کے نام ایک کھلے خط میں امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں امریکی عوام و گانگریس ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آپ اس بات کا اعتراف کریں گے کہ آپ کی قیادت نے 17 سال قبل ہمارے ملک پر حملہ کیا، جو ناصرف ہماری ملکی خود مختاری پر حملہ تھا بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی عوام ٹھنڈے دل و دماغ سے صورت حال پر غور کریں کہ آپ کی حکومت ہمارے ملک میں جنگ جاری رکھنے کی جو 3 وجوہات بیان کرتی ہے، اس میں غیرملکی شدت پسندوں کا خاتمہ، کابل میں ایک مستحکم حکومت کا قیام اور ملک سے منشیات کی پیداوار کو ختم کرنا ہے، لیکن امریکا کی جانب سے بلاجواز اور غیرقانونی مسلط کی گئی جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک 17 سالوں میں منشیات کی پیداوار میں 87 فیصد اضافہ ہوا۔

اس جنگ میں امریکی فوج کو ناصرف 3 ہزار 546 فوجی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ امریکی عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں کے کھربوں ڈالر جھونک دیئے گئے، جب کہ ہزاروں بے گناہ افغان شہری بھی ہلاک ہوئے، لیکن پھر بھی طالبان ایک طاقت ور قوت بن کر ابھری اور یہ جنگ عہدِ حاضر میں امریکا کی سب سے خونی، طویل اور مہنگی جنگ بن گئی، امریکا افغانستان میں تنہا رہ گیا اور اس کے اتحادی بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر امریکا اب بھی کابل میں کرپٹ اور غیرمؤثر حکومت کی پشت پناہی کرنے اور ہٹ دھرمی سے جنگ جاری رکھنے کی خواہش رکھتا ہے تو پورے خطے سمیت امریکا کے استحکام کے لئے مضر اثرات مرتب ہوں گے اس لئے امریکی عوام اور کانگریس ارکان اپنی حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ پرامن طریقے سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے، مذاکرات کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکا افغانستان پر سے اپنا قبضہ ختم کرے اور افغان عوام کی امنگوں کے مطابق طالبان کے افغانستان پر حکومت کرنے کے جائز حق کو تسلیم کرے۔ خط میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے بیان پر کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے امریکا بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔

خط کا متن:
اے امریکی عوام… عوامی خودمختار تنظیموں کے غیرسرکاری حکام اور کانگریس کے امن پسند نمائندو!
امید ہے اس خط کا بغور مطالعہ کر کے اس میں درج حقائق کی روشنی میں افغانستان میں امریکی فوج کے مستقبل اور اپنے مفادات و نقصانات کا جائزہ لیا جائے گا! آپ جانتے ہیں کہ امریکا کے سیاسی رہنماؤں نے سولہ سال قبل افغانستان پر جارحانہ طور پر فوجی شب خون مارا تھا۔ یہ جارحیت خودمختار افغانستان کے شرعی و ملی قوانین اور عالمی قوانین کے خلاف انتہائی ناگوار عمل تھا۔ امریکی حکام نے جارحیت کو جواز دینے کی خاطر تین نعروں کو استعمال کیا:

1. افغانستان میں امن و امان مستحکم کرنے کی خاطر (خودساختہ) دہشت گردی ختم کرنا۔
2. ایک قانونی حکومت قائم کر کے قانون نافذ کرنا۔
3. منشیات کا خاتمہ کرنا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ناجائزجنگ میں آپ کے حکمران ان تینوں نعروں میں کس قدر سچے تھے؟

بدامنی اور لڑائی میں شدت:
جب سابق صدر جارج ڈبلیو بش 2001ء کو افغانستان پر جارحیت کاپروانہ جاری کر رہے تھے تو ظالمانہ جنگ چھیڑنے کی خاطر یہاں صرف طالبان(امارت اسلامیہ) اور القاعدہ کی موجودگی اور ان کے خاتمے کو بہانہ بناتے رہے۔ ستره سال تک خونریز لڑائی جاری رکھنے اور اس میں جانی و مالی نقصانات تسلیم کرنے کے باوجود موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں اسی ناجائز جنگ کو جاری رکھنے کے لیے ایک امارت اسلامیہ کے علاوہ مزید دیگر گروہوں کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا۔ ٹرمپ نے اس دعوے کا اظہار 26 اگست 2017ء کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے اپنی جنگی پالیسی کے اعلان کے دوران کیا۔ ستره سال بعد ایک بار پھر افغان عوام کے خلاف ناجائز جارحیت اور جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکمران افغانستان میں متعدد جنگی گروہوں کی موجودگی تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے ہمارا دعوی ثابت ہوتا ہے کہ امریکا نے افغانستان پر جارحیت کو دوام دینے اور انتشار پھیلانے کے لیے داعش جیسے گروہوں کو خود پیدا کیا ہے۔

امریکی حکام اس جنگ کو مختلف نام دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج نے خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں نہتے افغانوں کو شہید کیا ہے۔ لاکھوں کو زخمی اور ہزاروں کو گوانتاناموبے، بگرام اور دیگر عقوبت خانوں میں قید کر رکھا ہے۔ ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکی فوجی حکام کے اعتراف کے مطابق (3546) امریکی اور نیٹو فوجی ہلاک، جب کہ بیس ہزار سے زائد امریکی فوجی زخمی اور ہزاروں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اگرچہ زمینی حقائق کے مطابق امریکا کا جانی نقصان اس سے زیادہ ہے، جسے حکام نے خفیہ رکھا ہے۔ اسی طرح اس جنگ میں آپ کے اربوں ڈالر خرچ ہوئے، نتیجۃً یہ جنگ امریکی تاریخ میں سب سے خونریز، طویل اور معاشی لحاظ سے کمرشکن لڑائی تصور کی گئی۔

لاقانونیت اور عالمی سطح پر بدعنوان نظام:

اگرچہ دیگر ممالک میں قوانین کی بات اور ان کے لیے نظاموں کا قیام امریکا کی ذمہ داری نہیں ہے، مگر جارج ڈبلیو بش کے لیے افغانستان پر جارحیت کا دوسرا بہانہ یہاں ایک قانونی حکومت قائم کرنا تھا۔ امریکا نے اس حوالے سے اپنے ہزاروں فوجی قتل کرا کر بھی ایک ایسی حکومت قائم کی، جس نے کرپشن اور لاقانونیت میں عالم ریکارڈ قائم کیا ہے۔ افغان حکومت انتظامی اور مالی بدعنوانی میں عالمی سطح پر پہلا مقام حاصل کر چکی ہے۔ وہ انسانی حقوق کی پامالی میں عالمی سطح پر انتہائی بدنام ہے۔ عوام املاک پر قبضے اور عالمی امداد میں غبن کی مد میں عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے متعلق انتہا درجے کی ظالم ہے۔ امریکی جارحیت کے نتیجے میں قائم ہونے والی بدعنوان انتظامیہ کی تازہ ترین مثال افغانستان کا وہ نظام ہے، جس کے غیرمثالی طور پر دو سربراہ ہیں۔

منشیات کی پیداوار اور وسعت:
ڈبلیو بش کا تیسرا بہانہ منشیات کی روک تھام تھی۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات مہم کے ادارے (UNODC) کی معلومات کی بنیاد پر افغانستان پر امریکی جارحیت سے قبل یہاں صرف 185 ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت کی جاتی۔ یہ وہ علاقے تھے، جہاں امارت اسلامیہ کے مخالفت گروہوں کا کنٹرول تھا۔ افغانستان میں ہیروئن کےعادی افراد کی تعداد نہ ہونے کی برابر تھی۔ جب کہ افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد پوست کی کاشت کا رقبہ 185 ایکڑ سے بڑھ کر 328 ایکڑ ہوگیا۔ فی الوقت یہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے ادارے نے 26 دسمبر 2017ء کو رپورٹ شائع کی کہ 2017ء میں منشیات کی پیدوار میں 87٪ فیصد اور کاشت میں 63٪ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کی رُو سے منشیات کی پیداوار کا پیمانہ نو ہزار 9000 میٹرک ٹن تک جا پہنچا ہے۔

اے امریکی عوام!
آپ دنیا میں خود کے حوالے سے ترقی یافتہ اور مہذب عوام کا دعوی کرتے ہیں۔ افغانستان میں جنگ کی آگ آپ ہی کی رضامندی سے لگائی گئی ہے۔ ہم اس حوالے سے فیصلہ بھی آپ حوالے کرتے ہیں۔ کیا آپ زندہ ضمیر کی رُو سے افغانستان میں قائم کیے گئے نظام اور اس سے منسلک تغیرات، بدامنی، لاقانونیت اور منشیات کی پیداوار میں 87 فیصد اضافے کو اصلاحات سمجھتے ہیں یا انسانیت کے خلاف جرائم؟ آپ کے حکمرانوں کا دعوی ہے کہ انہوں نے افغانستان میں اربوں ڈالر تعمیرنو کے مختلف شعبوں میں خرچ کیے ہیں۔ جب کہ یہ اربوں ڈالر آپ کی وہ رقم ہے، جو سرکاری ٹیکس کے نام پر آپ سے وصول کی گئی ہے۔ آپ کا دیا ہوا ٹیکس افغانستان کے ڈاکوؤں اور قاتلوں کی جیبوں میں چلا گیا ہے۔ کیا آپ اس پر راضی ہیں کہ آپ کی محنت و مشقت کی رقم افغانستان میں ایک ایسے بدعنوان نظام پر خرچ کی جائے، جسے چلانے والوں کے خلاف عدالت میں کابل بینک سے 900 ملین ڈالر چوری کرنے پر مقدمہ چل رہا ہو؟! کیا آپ کی ثقافت میں قانون لاگو کرنا اِسے کہا جاتا ہے کہ نائب صدر ایسا شخص ہو، جو درجنوں دیگر جرائم کے ساتھ سترسالہ شخص پر جنسی تشدد کے جرم میں ملوث ہو؟ کیا وہ تہذیب، ترقی اور قانونیت ہے، جس کی علم برداری کا آپ نے دعوی کر رکھا ہے! کیا آپ کے 2 ہزار 783 فوجی اسی قانون کے نفاذ کی خاطر افغانستان میں مارے گئے؟ کیا آپ کے دانش وروں، سیاست دانوں اور مُنصِف تجزیہ نگاروں کے پاس ہمارے ان سوالات کے جوابات ہیں؟

سمجھنا چاہیے کہ ہمارے عوام ان تمام مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ امریکی سرپرستی میں اُن پر مسلط اشرف غنی انتظامیہ کو حکومت نہیں، بلکہ ڈاکوؤں، مافیائی عناصر اور منشیات کے کاروبار میں ملوث گروہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کو اپنا شرعی، اخلاقی اور ملی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جو افراد اس نظام کو قائم کرنے کی خاطر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ افغان عوام کی نگاہ میں قوم اور قومی مفادات کے غدار ہیں۔ اس کے برعکس جو افراد آپ کے اس بدعنوان نظام کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اپنے ملک، قومی مفادات، ملی استقلال، عزت کے حصول اور دفاع کی راہ کے سپاہی ہیں۔ امریکی میڈیا افغان مزاحمت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ یہاں لڑنے والے افراد بیرون سے آئے ہوئے ہیں۔ امریکا یہ نامعقول پروپیگنڈا اپنی شکست چھپانے کی خاطر کرتا ہے۔

اے امریکی عوام! ہم خط کے اس حصے میں اپنا پیغام دینا چاہتے ہیں:

آج افغان باشندے آپ کی فوج اور ہر جابر و ظالم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ ان کا شرعی، نظریاتی اور ملک و ملت کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس مزاحمت میں آپ کی فوج جتنی بھی طاقت ور اور جدید اسلحے سے لیس ہو جائے، ہم اپنے اس دینی، شرعی اور ملی ذمہ داری کو انجام دیتے رہیں گے۔ اس ذمہ داری سے دست بردار ہونے کو کوئی بھی غیرت مند مسلمان آمادہ نہیں ہے۔ افغان باشندے گزشتہ چار دہائیوں سے مسلط جنگوں کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ وہ امن اور عادلانہ نظام کے پیاسے ہیں۔ وہ آپ کی جنگ پسند حکومت کے مقابلے میں شرعی، دینی، دفاعی اور ملی مزاحمت سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے تاریخ میں کبھی بھی اپنی دینی اقدار اور آزادی کے تحفظ سے کنارہ کشی نہیں اختیار کی۔ افغانستان وہ ملک ہے، جو اپنی تاریخ کے ہر دور میں ہمیشہ خودمختار رہا ہے۔ حتی کہ انیسویں اور بیسویں صدیوں کے دوران، جب عالم اسلام کے بیشتر ممالک یورپی استعمار کے قبضے میں تھے، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے اپنی خودمختاری محفوظ رکھی۔ انگریز 80 سالہ کوشش کے باوجود افغانوں سے اپنا لوہا منوانے پر قادر نہ ہو سکا۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ کئی افغان باشندے امریکی و نیٹو فوج کے خلاف فدائی حکلے کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اُن کا مقصد افغانستان میں اسلامی نظام کا قیام اور غیرملکی قبضے کا خاتمہ ہے۔

اس جہاد میں آئے روز پیش رفت ہو رہی ہے۔ کئی علاقے امریکا کی غلام حکومت سے واپس لے لیے گئے ہیں۔ اس وقت سیگار کے سربراہ اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان کے 60 فیصد رقبے پر امارت اسلامیہ کا کنٹرول ہے۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے دوران دنیا کے بعض ممالک امریکی حکمرانوں کے جنگی پروپیگنڈوں کے زیر اثر صدر بش کے حمایتی بن گئے تھے۔ اب ہم عملاً دیکھ کررہے ہیں کہ امریکی حکومت عالمی حمایت کھو چکی ہے۔ حتٰی آپ کے جنگی اتحاد میں شامل بیشتر ممالک نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان سے اپنی فوج نکال کر سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ عالمی برادری امریکی جارحیت کے خلاف افغان عوام کے برحق مطالبے کی حمایت کر رہی ہے۔ اگر امریکی حکومت مزید خودساختہ بہانے تراشتے ہوئے افغانستان میں جنگ کو طویل دینے پر اصرار کرتی ہے، تو اس سے امریکا کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔

اے امریکی عوام !
جیسا کہ مشہور ہے امریکی حکام کو منتخب کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہے۔ اس لیے امارت اسلامیہ افغانستان کے عوام کا مطالبہ امریکی عوام کے سامنے رکھتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کو دباؤ میں لے کر افغانستان سے قبضہ ختم کیا جائے۔ افغانستان میں جنگ کو طول دینے اور یہاں بدعنوان اور بے اختیار نظام کی حکمرانی خطے اور مجموعی طور پر امریکی امن و سلامتی کے لیے خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ افغان باشندے اس پر افسوس کر رہے ہیں کہ امریکی عوام کے بااختیار لوگ چند جنگ پسند افراد کی خاطر اپنا مال اور جان کیوں قربان کر رہے ہیں؟ آپ کے ماہرین، امریکی کانگریس میں امن پسند نمائندے اور عوامی تنظیموں کے خودمختار ذمہ دار حضرات اپنی حکومت کے عہدے داروں سے پوچھیں کہ امریکی عوام اپنے تمام رعب کے باوجود اپنے گھر اور بیرون ممالک میں غیرمحفوظ اور نفرت زدہ کیوں ہیں؟ آپ کا ملک اور آپ کی اولادیں کب تک شرپسند حکمرانوں کے مفادات کے لیے قربانی دیتے رہیں گے؟! اس جنگ پسند سیاست کا کوئی فائدہ ہے؟

اے امریکی عوام!
صدر ڈونلڈٹرمپ اور ان کے جنگی مشیر پر اب بھی افغانستان میں طاقت کی زبان بول رہے ہیں۔ حتٰی کہ جنگ سے متعلق اپنے مفاد میں جھوٹے اور من گھڑت اعدادوشمار نشر کرتے رہتے ہیں۔ وہ دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں کامیابی کے لیے طاقت کے بجائے سیاست اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا چاہیے۔ صرف گزشتہ ستمبر میں ٹرمپ کی نئی پالیسی کی رُو سے امریکی فوج نے افغانستان اپنی تمام قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے 751 فضائی حملے کیے۔ آپ کو امریکی حکام سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اتنی طاقت کے استعمال کے بعد اب تک کتنے فیصد رقبے پر قبضہ قائم کر سکے ہیں؟ اگر آپ کو صدر ٹرمپ اور ان کے جنگجو مشیروں کی بےتجربہ سیاست کا علم نہیں ہے تو صرف ایک بیت المقدس سے متعلق فیصلہ دیکھ لیں، جس نے امریکا کو دنیا بھر کی نظر میں مطعون کیا ہے۔ یہ امریکا کے لیے انتہائی شرم کی بات ہے۔

امارت اسلامیہ نے ابتداء سے امریکا کو بتایا تھا کہ اپنے مسائل کو امارت اسلامیہ کے ساتھ گفتگو کے ذریعے حل کیا جائے۔ طاقت آزمائی کے نتائج بُرے ہوتے ہیں۔ آپ نے افغانستان پر امریکی تجاوز کے بُرے نتائج کو دیکھ لیا ہوگا۔ اگر مزید سو سال تک قوت آزمائی کا تجربہ جاری رہا تو بھی نتیجہ یہی رہے گا۔ ہمارے خیال میں اب بھی وقت ہے، امریکی عوام کو ادراک کرنا چاہیےکہ امارت اسلامیہ اپنے مسلم عوام کی نمائندگی کے حوالے سے ہر متنازع پہلو کو سیاست اور گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ غیرمعقول طاقت کا استعمار مسئلے کو مزید پیچیدہ کرتا ہے۔ امارت اسلامیہ علاقے میں وہ قوت ہے، جسے طاقت کے ذریعے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی پختہ جڑیں ہیں۔ البتہ بات چیت کے مواقع موجود ہیں۔ امارت اسلامیہ کی طرف سے گفتگو کا راستہ اختیار کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کمزور ہیں یا ہمارا عزم کمزور پڑ چکا ہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جنگ سے قبل عقل و منطق کو بروئے کار لانا چاہیے۔ جو کچھ بات چیت کے ذریعے حاصل سکتا ہے، اس کے لیے طاقت کا استعمال مناسب نہیں ہے۔ امارت اسلامیہ نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے امریکی عوام کے سامنے حقائق کو کھول کر رکھ دیا ہے۔

واضح رہے امارت اسلامیہ افغانستان کی خودمختاری کے لیے جائز جدوجہد کر رہی ہے۔ ظلم و جبر سے پاک افغانستان ہمارا حق ہے۔ افغانستان کی آزادی اور اسلامی نظام کیا، قیام کسی قانون میں دہشت گردی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ قابل ذکر ہے کہ ہم دیگر ممالک میں تخریبی کارروائیوں کا ایجنڈا نہیں رکھتے۔ ہم نے گزشتہ ستره سالوں کے دوران عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ دیگر ممالک میں ہم نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی ہے۔ اسی طرح کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ افغان سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرے۔ جنگ ہمارا انتخاب نہیں ہے، بلکہ وہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ افغان مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ امریکا کو چاہیے کہ جارحیت ختم کرے اور افغان عوام کواپنے عقیدے کے مطابق حکومت سازی کرنے دے۔ ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کے بعد پڑوسیوں سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات چاہتے ہیں۔ افغانستان کی تعمیرنو اور ترقی میں اُن کی امداد کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم خطے اور دنیا کے امن و امان کے لیے بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے عوام کے لیے اعلی، معیاری تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ہم اپنے مردوں، خواتین اور بچوں کو انسانی اور شرعی حقوق دے سکتے ہیں۔ ہماری عمل داری میں افغان نوجوان منشیات اور اخلاقی فساد سے بچ جائیں گے۔ ہمارا دستور یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنے ملک میں روزگار کے ایسے مواقع میسر ہوں کہ اسے اپنا وطن چھوڑ کر دیگر ممالک کی جانب نہ دیکھنا پڑے۔

اے امریکی عوام!
افغانستان میں جنگ کو طول دینے پر اصرار اور یہاں امریکی فوج کی موجودگی امریکا سمیت کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ عمل دنیا کے امن کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ صرف امریکی مغرور حکمرانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اگر آپ افغانوں اور مجموعی طور پر عالمی برادری سے پُرامن افہام و تفہیم کے خواہاں ہیں تو اپنے صدر، کانگریس اور پینٹاگون کے جنگجو حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھانی چاہیے۔ انہیں افغانستان سے متعلق معروضی سیاست اپنانے پر مجبور کیا جائے۔ یہ بجائے خود آپ، افغانوں اور دنیا کی سلامتی کے لیے سب سے بہترین اقدام ہے۔ وما علینا الا البلاغ
امارت اسلامیہ افغانستان
۲۸/۵/۱۴۳۹هـ ق، ۲۵/۱۱/۱۳۹۶هـ ش ــ 2018/2/14م

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار اور ایک ماہ میں 200 سے زائد افراد کی خود کش دھماکوں میں ہلاکت کے باوجود افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ گزشتہ ماہ ترکی میں افغان حکام اور طالبان نمائندگان کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے تھے تاہم اب مذاکراتی عمل دوبارہ سے شروع ہو گیا ہے، افغان انٹیلی جنس کے سربراہ محمد معصوم استانکزئی اور افغان صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی امور محمد حنیف اتمار طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مصروف ہیں۔ افغان حکومت کے قائم کردہ افغان امن جرگے کے رکن حکیم مجاہد نے مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری پہلی ترجیح امن کا قیام ہے، ہم کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے، اس کے لئے ہم طالبان سمیت دیگر قوتوں سے بھی مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے۔ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جہاں ہم اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہیں اور اپنے ملک کی سلامتی و پائیدار امن کے لیے کسی بھی بڑی طاقت کی دھونس و دھمکی سے مرعوب نہیں ہوں گے۔

گزشتہ ایک ماہ میں افغان اور اتحادی افواج کے مورچوں اور مختلف عبادت گاہوں پر ہونے والے خود کش دھماکوں کے نتیجے میں 200 سے زائد عام شہری اور سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں جس کے بعد قطر اور ترکی میں ہونے والے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی دور ختم کردیا گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے اتحادی افواج کو نشانہ بنانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دہشت گرد افغانستان میں قیام امن کے لیے کام کرنے والی اتحادی افواج کو نشانہ بنا رہے ہیں اور امریکی شہریوں کو اغواء کر رہے ہیں جس کے بعد امریکا نے طالبان سے اب مزید کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکمران طبقے اور امریکا ،دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ امریکی فوج بدستور افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنائے رکھے۔ اسی لیے امریکا مزید فوجی اور اسلحہ افغانستان بھجوا رہا ہے۔

گویا مستقبل میں بھی افغان عوام کو آگ اور خون کے کھیل سے پالا پڑے گا۔ ان کے پیارے طاقتور قوتوں کی خونی گریٹ گیم کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ افغان عوام کو جنگوں اور خانہ جنگی کا عذاب سہتے تقریباً چالیس برس ہو چکے۔ نجانے ان پہ ٹوٹی یہ ارضی قیامت کب ختم ہو گی۔ غرض افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی اور اس کا کوئی انت نظر نہیں آتا۔ خطرناک بات یہ کہ امریکیوں کی اس مفاداتی جنگ کے باعث پاکستان بھی انتشار و بدامنی کا شکار رہے گا۔ ہزارہا میل دور بیٹھی سپرپاور کا ساتھی بن کر پاکستان نے کھویا تو بہت کچھ ہے، لیکن اسے فوائد کم ہی ملے۔ کیا اس تلخ سچائی سے ہم کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟
خبر کا کوڈ : 705035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش