0
Friday 16 Feb 2018 19:10

شام کی سرزمین پر روس اور امریکہ میں خونریز تصادم

شام کی سرزمین پر روس اور امریکہ میں خونریز تصادم
تحریر: علی احمدی

گذشتہ ہفتے امریکی جنگی طیاروں نے شام کے صوبہ دیرالزور میں شام کی اتحادی فورسز پر بمباری کر دی جس کے نتیجے میں 200 فوجی جاں بحق ہو گئے جن میں بڑی تعداد روسی فوجیوں کی بھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی اور روسی فوجوں میں یہ سب سے بڑا تصادم ہے۔ بلومبرگ میں 13 فروری 2018ء کو اسٹیفن کراوچینکو اور ہنری میر کی تحریر کردہ رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے: "یہ دو سو فوجی جن میں زیادہ تر تعداد روسی فوجیوں کی تھی اور وہ صدر بشار اسد کے حق میں لڑ رہے تھے امریکی فورسز کے غلطی سے انجام پانے والے حملے کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوئے ہیں"۔

اگرچہ بلومبرگ نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں "دو سو روسی فوجیوں" کی ہلاکت جبکہ اسی رپورٹ کے دوسرے حصے میں "دو سو فوجیوں کی ہلاکت جن میں زیادہ تر تعداد روسی فوجیوں کی تھی" بیان کی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام فوجی روسی نہ تھے بلکہ ان میں زیادہ تر تعداد روسی فوجیوں کی تھی۔ بلومبرگ مزید لکھتا ہے یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ شام میں جاری جنگ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا اس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا۔ بلومبرگ لکھتا ہے: "وہ امر جو ابتدا میں داخلی حد تک باغیوں کو کچلنے کا عمل دکھائی دیتا تھا آہستہ آہستہ علاقائی سطح پر پراکسی وار میں تبدیل ہو گیا ہے جس میں بہت سی قوتیں ملوث ہیں جن میں تکفیری شدت پسند عناصر سے لے کر کرد جنگجو اور بعض علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں بھی شامل ہیں۔"

روس آرمی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے: "امریکہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے موجودہ صورتحال کو انتہائی مبہم قرار دیا ہے لیکن زیادہ تفصیلات بیان نہیں کیں۔ امریکی فوج کے ترجمان کرنل تھامس ایف وال نے اپنے جاری کردہ اعلامئے میں کہا ہے: اتحاد کے عہدیداران اپنے روسی ہم منصب افراد سے اس غلطی سے انجام پانے والے حملے سے پہلے اور بعد میں مسلسل رابطے میں تھے۔ روسی حکام نے امریکی اتحادی فورسز کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ان کے قریب فوجی کاروائی نہیں کریں گے۔"

شاید اس خبر کا ایک ہفتہ دیر سے منظرعام پر آنے کی اصل وجہ روسی حکام اور امریکی اتحاد کے عہدیداران کا آپس میں رابطے میں ہونا تھا۔ دوسری طرف امریکہ نے اس "فرینڈلی فائر" کے زمرے میں آنے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ کرنل تھامس وال کے بقول یہ حملہ دریائے فرات کے مشرق میں 8 کلومیٹر کے فاصلے پر 7 فروری کو انجام پایا ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس جھڑپ میں امریکی اتحادی فوجیوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بلومبرگ کے رپورٹرز کا کہنا ہے کہ شام حکومت نے اس حملے کو "جنگی جرم" اور "بربریت پر مبنی حملہ" قرار دیا ہے۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی تعداد شام میں خانہ جنگی کی ابتدا سے اب تک ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کے پانچ برابر ہے۔

روس کی حامی فورسز میں شامل ایک فوجی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ ہونے کی شرط پر بلومبرگ کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ ہلاک شدہ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ زخمی ہونے والے فوجی ابھی تک پیٹرزبرگ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کرملین سے مالی امداد حاصل کرنے والی تنظیم کے سربراہ الیگزینڈر یونوف جو شام حکومت کی اتحادی فورسز سے رابطے میں بھی ہیں کا کہنا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے روسی فوجیوں کی زیادہ تر تعداد ان ریٹائر فوجیوں کی تھی جو یوکرائن میں لڑتے رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود زخمی یا ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی ٹھیک تعداد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ روس کا سابق سفارتکار ولادیمیر فرولوف کہتا ہے کہ یہ خونریز تصادم ویت نام کی جنگ کے بعد دو سپر پاورز کے درمیان پہلا مسلح ٹکراو ہے۔
خبر کا کوڈ : 705247
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش