QR CodeQR Code

سعودیہ میں فوجی دستوں کی تعیناتی

16 Feb 2018 23:30

اسلام ٹائمز: دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے وزیر دفاع خرم دستگیر سوموار کے روز سینیٹ میں کیا جواب دیتے ہیں، تاہم قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں اس اہم پیشرفت پر قوم کو اعتماد میں لیا جانا نہایت ضروری ہے۔ سعودیہ کی قطر سے مخاصمت، لبنان کے معاملات میں مداخلت، یمن پر جاری مسلسل بمباری، عالم اسلام میں ایک مسلکی اتحاد کی تشکیل عالم اسلام اور خطے میں بہت سے مسائل کو جنم دے سکتی ہے، جس کیلئے بہرحال دانشمندی سے فیصلہ کرنے اور ہر ایسے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہے، جو عالم اسلام میں تفریق اور تقسیم کا سبب بنے۔


تحریر: سید اسد عباس

آئی ایس پی آر کے ایک اعلان کے مطابق پاکستانی فوج کے مزید دستوں کو مشاورتی اور تربیتی مشن پر سعودی عرب میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ایک ملاقات میں کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جمعرات کے روز جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سعودی سفیر اور پاکستانی فوج کے سربراہ کے درمیان یہ اہم ملاقات راولپنڈی میں پاکستان فوج کے ہیڈ کواٹر میں ہوئی۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کتنے مزید پاکستانی فوجی سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان کی تعیناتی کی مدت کیا ہوگی۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران جنرل باجوہ اور سعودی عرب کے سفیر نے خطے کی دفاعی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان فوج کے تازہ دم دستے سعودی عرب میں پہلے سے موجود پاکستانی فوجیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور پاکستان فوج کے ان دستوں کو سعودی عرب سے باہر کسی ملک میں تعینات نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ چند سال قبل سعودی عرب نے یمن پر حملے سے پہلے پاکستان سے اپنی فوج بھیجنے کی درخواست کی تھی، جس کو پارلیمنٹ کی ایک قرادداد پیش ہونے کے بعد مسترد کر دیا گیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سعودی عرب میں 1180 پاکستانی فوجی پہلے سے تعینات ہیں جو 1982ء میں ہوئے ایک باہمی معاہدے کے تحت سعودی عرب بھیجے گئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا نام 41 ممالک پر مشتمل اس اتحاد میں شامل ہے، جو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسلامی شدت پسندی کو ختم کرنے کے نام پر قائم کیا ہے۔ اس اسلامی اتحاد کی مشترکہ فوج کی سربراہی بھی پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو سونپ دی گئی تھی۔ پاک فوج کی جانب سے سعودی عرب میں مزید فوجی اہلکار بھیجے جانے کے اس اعلان کے بعد سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے حکومت سے اس معاملے پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ایوان کو اعتماد میں لینے کا حکم دیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے وزیر دفاع خرم دستگیر کو کہا ہے کہ وہ پیر کو ایوان میں آکر اس بارے میں معلومات دیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار ہارون رشید کے مطابق جمعے کو پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایوان میں فوج کی جانب سے سعودی عرب فوج بھیجنے سے متعلق اعلان کے بارے میں سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ پارلیمان کی مشترکہ قرارداد کے تناظر میں پاکستان کو یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنا چاہیے، فوج روانہ کرنے کا معاملہ وضاحت طلب ہے اور وہ اس سلسلے میں تحریک التوا پیش کرنا چاہیں گے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فوجی ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مطابق یہ سپاہ ایک ڈویژن سے کم ہوگی، لیکن دس کم ہوں گے یا بیس یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ ایک بریگیڈ اور ڈویژن کے درمیان فوجی ہوں گے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بڑا سنگین ہے۔

ریٹائرڈ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار غلام مصطفٰی کے خیال میں پاکستان کی طرف سے بھیجے جانے والے مزید فوجی اس کثیرالملکی اتحاد کی فوج کا حصہ بنیں گے، جس کی سربراہی پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کر رہے ہیں۔ بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ فوج بنی تھی، اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے دستے بھی اس فوج کا حصہ بنیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے سوال پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں بہت اہم ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور دوسری طرف امریکہ کی طرف سے شدت پسند عناصر کے خلاف واضح کارروائیوں کے لئے دباو بڑھتا جا رہا ہے۔ ملکی سرحدوں کی صورت حال کے علاوہ ملک کے اندر بھی فوج کا ردالفساد کے نام سے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ اسی طرح اس 41 ملکی اتحاد میں بعض مسلم ممالک منجملہ ایران، عراق اور شام کی عدم شمولیت بھی اس فیصلے کو غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اس فیصلے نے جن اہم اور بنیادی نوعیت کے سوالوں کو جنم دیا ہے، ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ فیصلہ فوج نے یکطرفہ طور پر کیا ہے یا حکومت کی منظوری کے بعد یہ اہم اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے تو اس کا اعلان وزیراعظم اور وزیر دفاع کی طرف سے کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ملکی پارلیمان کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا اور یہ ابہام کیوں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ فوج اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔

بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) سعد جو خود بھی سعودی عرب میں تعینات رہے ہیں، کے مطابق جس وقت ان کی سعودی عرب میں تعیناتی ہوئی تھی، اس وقت وہاں ایک آرمڈ بریگیڈ تعینات تھا اور اس کے ساتھ کچھ توپ خانے کی یونٹ اور کچھ ایئر ڈیفنس کی یونٹس تعینات تھیں۔ بریگیڈر سعد کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے مزید دستے بھیجنے کی درخواست سعودی عرب کی اندرونی کشمکش کی وجہ سے کی گئی ہے۔ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی بھی اس بات سے تو متفق تھے کہ سعودی عرب کو اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے بہت سے اقدامات لئے ہیں، جن کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں سعودی عرب سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کچھ بے چینی پائی جاتی ہے، لیکن وہ اس بات سے متفق نہیں تھے کہ کسی بھی اندرونی خلفشار کی صورت میں پاکستان کی فوج اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گی۔ سعودی عرب کے داخلی معاملات میں پاکستان فوج کے براہ راست ملوث ہونے کے سوال پر بریگیڈیئر (ر) سعد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مفادات سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں سے وابستہ ہیں اور ان کے دفاع کے لئے پاکستان کو داخلی کشمکش کا حصہ بننا پڑا تو وہ بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی دستوں کی کسی جگہ موجودگی بذات خود استحکام اور سکیورٹی کا باعث بنتی ہے اور پاکستان فوج کی موجودگی ہی بڑی حد تک استحکام اور سکیورٹی کی گارنٹی بنے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے وزیر دفاع خرم دستگیر سوموار کے روز سینیٹ میں کیا جواب دیتے ہیں، تاہم قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد کی روشنی میں اس اہم پیش رفت پر قوم کو اعتماد میں لیا جانا نہایت ضروری ہے۔ سعودیہ کی قطر سے مخاصمت، لبنان کے معاملات میں مداخلت، یمن پر جاری مسلسل بمباری، عالم اسلام میں ایک مسلکی اتحاد کی تشکیل عالم اسلام اور خطے میں بہت سے مسائل کو جنم دے سکتی ہے، جس کے لئے بہرحال دانشمندی سے فیصلہ کرنے اور ہر ایسے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہے، جو عالم اسلام میں تفریق اور تقسیم کا سبب بنے۔


خبر کا کوڈ: 705305

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/705305/سعودیہ-میں-فوجی-دستوں-کی-تعیناتی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org