2
0
Tuesday 20 Feb 2018 09:54

حضرت فاطمۃ الزہراء و مکتب اہلبیت (ع) کی حفاظت

حضرت فاطمۃ الزہراء و مکتب اہلبیت (ع) کی حفاظت
تحریر: ملک اشرف

الله تعالٰی نے ہر انسان کو اختیار دیا ہے اور اسی اختیار ہی کی بنیاد پر ہر شخص نیک یا برا بنتا ہے۔ جو شخص اپنے اختیار سے نیکی کی طرف قدم بڑهاتا ہے، خداوند اس کے لئے ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ہدایت عمومی کی نسبت اس کی بیشتر ہدایت کرتا هے۔ اس کے لئے ایسے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں کہ جن تک خدا کی توفیق کے بغیر اس شخص کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ جو شخص اپنے اختیار سے کمال کی منزلیں تو طے کرنا چاہتا ہے اور اپنی فکر و سوچ کی صلاحیتوں کو، اپنی قلبی کیفیات کو اور کردار و رفتار کو  الہی اصولوں اور طریقوں کے مطابق کرنا چاہتا ہے تو الله تعالٰی اپنے اولیاء کی محبت و مودت اس کے دل میں داخل کر دیتا ہے۔ یہ شخص علماء حقہ کی محافل میں بیٹھ کر آل محمد (ص) کی تعلمیات سے اپنی فکری قوت کو پروان چڑهاتا ہے اور کردار و عمل کا ایک عظیم نمونہ بن کر معاشره کی راہنمائی کے لئے سامنے آتا ہے اور لوگ اس کے علم و کردار کے نور سے خود کو منور کرتے ہیں۔ ایسا شخص سست نہیں ہوتا، کاہلی اور تنبلی اس سے کوسوں دور ہوتی ہے، ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے اور قوم و ملک و ملت کے حساس مسائل میں خاموش اور تماشائی بن کر نہیں بیٹھتا بلکہ جهاں پر ضرورت ہو صرف ایسا نہیں کہ وہاں پر اپنی فکر و سوچ کو استعمال کرتا ہو بلکہ ضرورت پڑے تو اپنی زندگی کو بھی قربان کر دیتا ہے۔

بعض افراد الله تعالٰی کی طرف سے دیئے ہوئے اس اختیار کو غلط استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا ہر قسم کا فیصلہ کرنا انہی کے اختیار ہی سے ہوتا ہے، جس کے نتیجہ و اثر کا ان کو اس دنیا میں یا اس دنیا میں سامنا ضرور کرنا پڑنا ہے۔ ایسا شخص یا ایسے لوگ اپنی سوچ و فکر کو، اپنی محبت و نفرت کو، اپنی مدد و تعاون کو اور اپنے کردار و رفتار کو الله کے بتائے ہوئے اور عقل انسانی کے تعلیم کئے ہوئے راستوں پر نہیں چلاتے بلکہ خواہش نفسانی کی پیروی کرتے ہوئے خود بھی گمراه ہوتے ہیں اور کئی معاشروں کے لئے بھی تاریکی اور اندھیرے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے افراد ہمیشہ کمال کے مخالف ہوا کرتے ہیں، اہل کمال اور اہل علم سے دشمنی کرتے ہیں، معاشره کے اندر نفاق کا سبب بنتے ہیں اور ہمیشہ حق اور اہل حق پر ظلم کرتے ہیں۔ ایسے افراد دین کے نام پر سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور مختلف لوگوں کو اپنی مکاری کے سبب اپنے ساتھ ملانے میں وقتی طور پر کامیاب تو ہو جاتے ہیں، لیکن الله تعالٰی جو قادر مطلق ہے، ان کی مکاری اور دھوکہ بازی کو عیان کر دیتا ہے اور وه ہمیشہ کے لئے ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے بعد آل محمد کو اپنی زندگیوں کے لئے نمونہ بنایا، انہوں نے بھی یه کام اپنے اختیار سے کیا اور جن لوگوں نے آل محمد (ع) و مکتب آل محمد (ع) سے دشمنی کی، انہوں نے بھی یہ کم اپنے اختیار سے کیا۔

پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد خاندان اہل بیت (ع) پر کس قدر ظلم ہوئے کہ جن کی ابتداء مولا امیرالمومین(ع) اور خاتون جنت پر ہونے والے ظلم سے ہوئی۔ آج سیده فاطمہ زہراء سلام اللہ علیها کی شہادت کا دن ہے، کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ رسول کی بیٹی جس کا رسول اتنا زیاده احترم کرتے تھے کہ دشمن سے دشمن افراد بھی بی بی کی اس فضیلت کو نہیں چھپا سکتے۔ اسی بی بی کے دروازه کو جلا دیا جانا اور بی بی پر ظلم و مصائب کی انتہاء کا  شروع ہونا، حضرت محسن(ع) کی شهادت کا واقع ہونا و۔۔۔۔۔۔ جب یہ واقعہ ہوا تو اہل مدینہ کیا کسی اور جگہ پر گئے ہوئے تھے یا کسی زندان میں بند کر دیئے گئے تھے، یا کسی مصلحت کی بنیاد پر خاموش تماشائی بن کر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تھے یا ان کو بیٹھا دیا گیا تھا؟ جنگ بدر و احد و خندق و خیبر میں شرکت کرنے والے کئی صحابہ ابھی تک تو زنده تھے، وه سب کہاں تھے۔؟ اگر مدینہ میں ہی تھے تو ان کی آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظلم کیسے ہوا۔؟ میں جب آج کے واقعات کو، آج کی تاریخ کو یا آج کی امت مسلمہ یا آج کی پاکستانی شیعہ قوم اور اس کے بہت سارے امور میں خاموش تماشائی بنے ہوئے کئی افراد کو دیکھتا ہوں تو ان حالات کو جو حسنین شریفین کی ماں کے ساتھ گزرے، ان کو سمجھنا میرے لئے تو کوئی مشکل نہیں ره جاتا، اس لئے کہ جیسے اس زمانے میں امام حق کا ساتھ نہیں دیا گیا، اسی طرح آج بھی علماء حق کا ساتھ نہیں دیا جاتا بلکہ ان کے خلاف بعض اوقات بعض نا فہم افراد طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہیں، جیسے اس زمانے میں باب مدینۃ العلم کو نظر انداز کیا گیا، اسی طرح آج بھی وه علماء حقہ کہ جنہوں نے اپنی زندگی علوم آل محمد کی تحصیل، تبلیغ اور مدارس دینیہ کی تاسیس اور تدبیر میں گزار دی اور گزار رہے ہیں، ان کا ساتھ دینے کے لئے لوگوں کو روکا جاتا ہے، منبر پر گمراه لوگوں کو لایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو بالعموم اور شیعہ قوم کو بالخصوص، شیعہ حقایق سے دور رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔

خاتون جنت حضرت سیده فاطمۃ الزہراء سلام الله علیها نے اسلام حقیقی، عقائد حقہ اور اہداف حقہ کا جس طرح دفاع کیا، اسی طرح ہر دور کے اندر اہل حق زمانے کے تقاضوں اور حالات کے مطابق اسی راه پر چل کر عقائد حقہ کی حفاظت کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر دشمنان اہلبیت علیهم السلام نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ شیعیان حیدر کرار کے لئے مسائل کھڑے کئے جائیں، یہاں تک کوششیں کی گئیں کہ ان کو ایران یا عراق بھیج دیا جائے یا کسی ایک خطہ میں محدود کر دیا جائے، حتٰی تکفیریوں نے تو شیعہ کے لئے اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ ان تمام حالات میں مختلف محاذوں پر شیعہ قوم اور شیعہ علماء حق نے سیده زهراء سلام الله علیها کی سیرت اور معصومین کی سیرت طیبہ کے پیش نظر ہمیشہ دشمن کو ناکام کیا۔ اس حوالے سے موجوده زنده حضرات میں سے سیاسی میدان میں قائد ملت جعفریہ، نماینده ولی فقیہ آیت الله علامہ سید ساجد علی نقوی زید عزه کی خدمات مکتب تشیع کی حفاظت کے لئے سنهری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں کہ اس فرزند زہراء نے تمام مشکل حالات کے اندر کس طرح تکفیریت کا مقابلہ کیا اور دشمن کی ہر سازش کو اپنی مادر گرامی حضرت زہراء کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ناکام کیا۔ پاکستان کے اندر شیعہ کا مقام اور شیعہ قوم کی حیثیت ہر گزرے ہوئے زمانے سے بہتر سے بہتر ہے، یہ سب کچھ بزرگ علماء کرام کی دور اندیشی اور آپس میں وحدت و اتحاد کے سبب ہوا ہے اور انشاء الله اسی طرح ہوتا رہے گا۔

میدان تبلیغ میں مکتب اہل بیت کی حقیقی اور صحیح ترجمانی اپنے دور کے اندر جس طرح آیت الله محمد حسین نجفی زید عزه نے کی ہے، وه اپنی مثال آپ ہے۔ مولا امیرالمومین حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کی حفاظت کے لئے جس طرح سیده فاطمۃ الزہراء نے جہاد کیا، اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر اس فقیہ اہلبیت (ع) نے تجلیات صداقت لکھ کی دشمن کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ مکتب اہلبیت کی حفاظت کے لئے، عقائد حقہ کہ جن کی حفاظت کے لئے رسول کی بیٹی نے ہر قربانی پیش کی، اس مرد میدان و عمل نے بھی بی بی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام شخصی مصلحتوں سے بالا تر ہوکر فقہ، کلام اور تاریخ اہلبیت کے ساتھ ساتھ ادعیہ اور قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر تشنگان حقیقت کے لئے الله تعالٰی کی آیات، محمد و آل محمد کے فرامین اور ان کی سیرت طیبہ کو اردو زبان میں پیش کر دیا۔ آیت الله محمد حسین نجفی کی مکتب اہلبیت کی حفاظت کے لئے ملک کے کونے کونے کے اندر تقاریر اور مجالس کسی سے ڈھکی اور چھپی نہیں ہیں۔ قبلہ نے آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے اجتہاد کی منزلیں طے کرکے پاکستانی طلاب کے لئے نمونہ بن کر واضح کر دیا کہ ہمیشہ مقلد ہونا کمال نہیں ہے بلکہ مختلف مسائل میں علوم آل محمد کے سمندر میں غوطہ ور ہو کر صاحب نظریہ بن کر کرسی اجتہاد پر فائز ہو کر صاحب فتویٰ ہونا اور پیروان آل محمد کی سرپرستی کرنا یہ کمال ہے۔ پاکستانی قوم میں سے اسی میدان اجتہاد میں منزل فقاہت پر فائز ہو کر مکتب آل محمد کی حفاظت کا فریضہ اپنے انداز میں نجف اشرف کی سرزمین پر بیٹھ کر جس طرح آیت الله حافظ بشیر حسین نجفی زید عزه کر رہے ہیں، وه بھی اپنی مثال آپ ہے۔ آیت الله حافظ بشیر حسین نجفی زید عزه کی زندگی، محنت و کوشش اور علوم آل محمد سے بچپن سے لگن، اس لئے کہ مکتب آل محمد کی صحیح معنوں میں حفاظت کی جا سکے، آج کے اردو زبان اور خصوصاً پاکستانی اور انڈین طلاب کے لئے مشعل راه ہے۔

اس کے علاوه پاکستان کے اندر مدارس دینیہ کی تاسیس، تقویت، تدبیر اور علوم آل محمد کی ترویج و مکتب آل محمد کی حفاظت کے لئے آیت الله حافظ سید ریاض حسین نجفی زید عزه  کی دن رات کی کوششیں اور زحمات کہ جن کو بنده نے قریب سے دیکھا ہے اور لمس کیا ہے، کسی سے پوشیده نہیں ہیں۔ یہ سب بزرگان طول میں اسی راه کے راہی ہیں کہ جو رسول الله کی بیٹی فاطمۃ الزهراء نے اپنے بابا کی وفات کے بعد دکھایا۔ آج حوزه علمیہ قم ہو یا حوزه علمیہ نجف یا پاکستان کے مدارس دینیہ کے پرنسپلز یا اساتید ان میں سے تقریباً نوے فی صد کے لگ بھگ حافظ صاحب قبلہ کے شاگردان ہوں گے۔ بنده ناچیز بھی آج اس مقام تک اگر پہنچا ہوں تو مرحلہ اول میں سلالہ سادات اور برصغیر کی عظیم شخصیت حضرت الله حافظ سید ریاض حسین نجفی کی شفقت و سرپرستی اور اسی استاد بزرگوار کی شاگردی اختیار کرنے اور ان کی دعاوں کے نتیجہ میں یہ سب کچھ حاصل ہوا ہے۔ سرزمین پاکستان کے بزرگان میں سے واقعاً جو بزرگ کہلانے کے حق دار ہیں اور اپنی بزرگی سے جنهوں نے ملت تشیع کو ہمیشہ کے لئے متحد رکھا ہے اور مختلف قسم کی تقسیموں سے بچا کر رکھا ہے، ان میں سے ایک  آیت الله شیخ محسن علی نجفی زید عزه ہیں۔ اس عالم بزرگوار کے شاگردان کی بھی اکثریت  حوزه علمیہ قم اور حوزه علمیہ نجف میں موجود ہیں۔ قبلہ کی آل محمد کے مکتب کے لئے زحمات ہر اپنے و غیر کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہیں کہ جنہوں نے سیده فاطمۃ الزہراء اور ان کی پاک آل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قوم شیعہ کی ہمیشہ راہنمائی کی ہے۔ اس کے علاوه بھی کئی افراد پاکستان میں مکتب اہلبیت اور دین اسلام کے لئے کام کر رہے ہیں کہ جو واقعاً قابل تحسین ہیں۔

سیده فاطمۃ الزہرا سلام الله علیها کے دروازه کو جلا کر، سیده پر دروازه گرا کر، جو لوگ آج سے چوده سو سال پہلے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت حقہ اور مکتب اہلبیت کی تعلیمات کو ہمیشہ کے لئے مٹانا چاہتے تھے، ان کی تمام کوششوں کو جس طرح امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور مادر حسنین نے خاک میں ملایا، اسی طرح ہر زمانہ کے اندر علماء حق اپنی استعداد اور علمی بساط کے مطابق دشمنان آل محمد کی کوششوں کو خاک میں ملاتے رہے ہیں اور ملاتے رہیں گے۔ چونکہ اس زمانہ کے اندر مکتب آل محمد کی حفاظت بلکہ اسلام، قرآن اور دین و امت مسلمہ کی سرپرستی فرزند زہراء، نائب امام زمان عج  مقام معظم رہبری آیت الله سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی فرما رہے ہیں اور پاکستان کے اندر طول میں نمائنده ولی فقیہ اور بزرگ علماء کی راہنمائی اور سرپرستی میں مختلف افراد، ادارے اور تنظیمیں مکتب اہلبیت کی، قرآن کی اور اسلام کی حفاظت کر رہے ہیں اور ان شاء الله تا ظہور امام زمان (ع) کرتے رہیں گے۔ بارگاه رب العزت میں دعا ہے کہ الله تعالٰی سیده فاطمۃ الزہراء کے صدقہ میں مکتب اہلبیت کی حفاظت کے سلسلہ میں سب کی کوششوں کو قبول  فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 706334
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ما شاء اللہ، سلامت رہیں، بہت عمدہ تحریر ہے۔
kashif
Satellite Provider
Khoob
ہماری پیشکش