0
Thursday 22 Feb 2018 21:50

سعودی مسلح افواج کا ساز و سامان اور تربیت

سعودی مسلح افواج کا ساز و سامان اور تربیت
تحریر: سید اسد عباس

سعودی مسلح افواج کے پانچ بڑے حصے ہیں، بری افواج، شاہی فضائیہ، شاہی بحریہ، شاہی ائیر ڈیفنس اور شاہی میزائل فورس۔ سعودی نیشنل گارڈ وزارت دفاع کے بجائے وزارت نیشنل گارڈ کے تحت آتی ہے۔ یہ افواج وسائل کے اعتبار سے مشرق وسطٰی کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، کیونکہ ریاست کا پچیس فیصد بجٹ یعنی 88 بلین ڈالر ان افواج پر صرف کیا جاتا ہے۔ بری افواج کی کل تعداد تقریباً سات لاکھ ہے، جس میں سے تین لاکھ پیادہ فوجی ہیں، اسی طرح نیشنل گارڈ کی تعداد تقریباً دو لاکھ ہے یعنی کل ملا کر ”نو لاکھ“ کی فوج ہے، رزرو فوجی اس کے علاوہ ہیں، جو مملکت سعودیہ کے دفاع پر مامور ہیں۔ بحریہ ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جبکہ فضائیہ میں 63 ہزار سپاہی اور افسران خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ میزائل فورس اور ائیر ڈیفنس کے اراکین کی تعداد تقریباً چالیس ہزار ہے۔ قبائلی جنگجوﺅں کی تعداد پچیس ہزار ہے۔ افواج کے سپریم کمانڈر شاہ سلمان ہیں اور وزیر دفاع ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔ سعودیہ کا شمار دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں ہوتا ہے، جو دفاع کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق سعودیہ اسلحے کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے، فقط سال 2010ء تا 2014ء میں سعودیہ نے برطانیہ سے 45 جنگی جہاز، امریکہ سے 38 جنگی ہیلی کاپٹر، سپین سے 4 ٹینکر ایئر کرافٹ اور کینیڈا سے 600 فوجی گاڑیاں خریدیں۔ سعودی دفاعی ساز و سامان کی فہرست طویل ہے، اس کا ارادہ ہے کہ وہ برطانیہ سے مزید 27 جنگی جہاز، امریکہ سے 154 جنگی جہاز اور کینیڈا سے سینکڑوں گاڑیاں خریدے۔

ایک تخمینے کے مطابق امریکہ نے 1951ء سے 2006ء تک سعودیہ کو اسی بلین ڈالر کا فوجی ساز و سامان فروخت کیا، اسی طرح ایک اندازے کے مطابق اب تک برطانیہ سعودیہ کو 43 بلین پاونڈ کے جنگی جہاز فروخت کر چکا ہے اور مزید 40 بلین پاونڈ کے معاہدے جاری ہیں۔ حال ہی میں کینیڈا نے سعودیہ سے تقریبا 10 بلین امریکی ڈالر کا معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہ سعودیہ کو فوجی گاڑیاں مہیا کرے گا۔ سعودیہ کی بری فوج کا اکثر ساز و سامان امریکی اور فرانسیسی صنعتوں کی پیداوار ہے، جس میں 442 امریکی ساختہ ٹینک ایم ون اے ٹو ابرام، 450 ایم 60 اے 3 ٹینک، 290 فرانسیسی اے ایم ایکس 30، 400 امریکہ ساختہ ایم 2 بریڈلی، 500 فرانس ساختہ اے ایم ایکس 10 پی، ہزاروں آرمرڈ پرسنل کیرئیر، ہزاروں امریکی ساختہ ایچ ایم ایم ڈبلیو وی گاڑیاں، اسی طرح آرٹرلی میں 50 امریکی ساختہ ایم 270، 72 برازیلی ملٹی راکٹ لانچر، 54 چینی ساختہ لانگ رینج ٹینک اور سینکڑوں توپیں بھی سعودی بری افواج کا اثاثہ ہیں۔ سعودی ایوی ایشین کے پاس تقریبا پانچ سو کے قریب مختلف ہیلی کاپٹرز، ڈرونز، سکاوٹ ہیلی کاپٹرز بھی موجود ہیں، جو زیادہ تر امریکہ سے حاصل کئے گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں چین، جنوبی افریقہ، جرمنی اور کینیڈا سے بھی آلات خریدے گئے ہیں۔ چھوٹے ہتھیار بھی امریکہ، جرمنی، بیلجیئم، آسٹریا، روس اور برطانیہ سے حاصل کردہ ہیں۔ بحری افواج بھی غیر ملکی ساز و سامان سے لیس ہیں۔ جن میں فرانسیسی فریگیٹ بڑے جنگی جہاز، امریکی چھوٹے جنگی جہاز اور برطانوی مائن سویپر شامل ہیں۔ بڑے جنگی جہازوں کی تعداد سات ہے، جو ہر طرح کے جنگی ساز و سامان سے لیس ہیں، جن میں سرفیس ٹو سرفیس میزائل، سرفیس ٹو ایئر میزائل، سپر ریپڈ گن، تارپیڈو ٹیوبز، اینٹی سب میرین تارپیڈو اور ہیلی کاپٹرز شامل ہیں۔ اسی طرح چھوٹے جنگی جہاز اور جنگی کشتیوں کی ایک بڑی تعداد بحریہ کے پاس موجود ہے۔ سعودیہ بحریہ کے ایویشن سیکشن کے پاس تقریباً 54 مختلف نوعیت کے امریکی و فرانسیسی ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔

سعودیہ فضائیہ میں حاضر سروس جہازوں کا فلیٹ تقریبا 623 جنگی و غیر جنگی جہازوں پر مشتمل ہے۔ یہ جہاز امریکہ، برطانیہ، اٹلی، سویڈن، فرانس سے حاصل کردہ ہیں، ہیلی کاپٹرز اور دوسرے چھوٹے جہازوں کی کل تعداد تقریبا 278 ہے۔ شاہی ایئر ڈیفنس کے پاس تقریباً 23 جدید قسم کے ریڈار موجود ہیں، اسی طرح بیرونی میزائل حملے کی صورت میں ڈیفنس کے لئے امریکی ساختہ ہاک میزائل سسٹم، تھاڈ انٹی بلاسٹک میزائل سسٹم اور رین میٹل سسٹم موجود ہے۔ سعودیہ افواج کا پانچوں حصہ لانگ رینج میزائلز پر مشتمل ہے، جس میں بلاسٹک میزائل اور میزائل ڈلوری سسٹمز موجود ہیں۔ سعودیہ کی ہیوی انڈسٹریز کے اندر مقامی طور پر فوجی گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں، تاہم اس ملک کا اکثر فوجی ساز و سامان یورپ اور امریکہ سے ہی آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فوجی ساز و مان باہر سے درآمد کیا جاتا ہے تو اس کی دیکھ بھال، مرمت، تربیت اور دیگر امور کے لئے خدمات بھی انہی ممالک سے لی جاتی ہیں۔ دیگر مسلمان ممالک کی طرح سعودی افواج کے اہم افسران بھی تربیت کے لئے برطانیہ اور امریکہ کے وار کالجز کا رخ کرتے ہیں۔ اکثر افسران اور شہزادے جنگی حکمت عملی اور دیگر تربیتی امور دنیا کے مشہور ترین وار کالجز میں ہی سیکھتے ہیں۔ امریکہ کا باقاعدہ ملٹری ٹرینگ مشن سعودیہ میں تعینات ہے، جس کی آفیشل سائٹ کے مطابق یہ مشن امن و امان سے متعلق امور میں سعودی افواج کی استعداد کو بڑھانے کے لئے متعین کیا گیا ہے۔ 1977ء میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت یہ مشن سعودیہ میں تربیت، مشاورت، تحقیق و مطالعہ اور انتظامی امور میں ہر سطح پر تربیت مہیا کرتا ہے۔

سعودیہ میں تعینات فوجی مشیروں کی کل تعداد 140 سے زیادہ ہے، جن کے تحت عارضی طور پر تکنیکی مہارت کی حامل ٹیمز اور دیگر شعبہ جات سے متعلق ٹیمز سعودیہ میں تعینات کی جاتی ہیں۔ میجر جنرل پیٹر ڈی اٹلے اس وقت اس مشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ 2003ء تک سعودیہ کے پانچ اڈوں میں امریکی افواج کے مراکز تھے، تاہم تربیتی سٹاف کے علاوہ اکثر فوجی سعودیہ سے نکال لئے گئے۔ کیو زیڈ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودیہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں امریکہ کے اب بھی تیرہ ہزار کے قریب فوجی تعینات ہیں۔ امریکہ کی طرح برطانیہ اور فرانس نے بھی سعودیہ میں تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں، جو سعودی ائیر فورس اور نیوی نیز بری افواج کو تربیت اور مشاورت نیز دیگر تکنیکی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ یمن جنگ میں برطانوی فوج کے تربیت کاروں کی سعودی فوجیوں کو تربیت دینے کی خبر خود برطانیہ کے ہی اخبارات میں شائع ہوئی۔ یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں، منجملہ یہ کہ سعودیہ نے اتنا لاﺅ لشکر کس دشمن کے خوف سے جمع کر رکھا ہے؟ کیا سعودیہ کبھی اسرائیل کے مقابل کھڑا ہوگا؟ نیز یہ کہ اس قدر جدید تربیتی نظام اور ہتھیاروں کی موجودگی میں پاکستانی فوج کی کیا ضرورت ہے؟ آخری سوال کا جواب واشنگٹن ایگزیمنر نے ان الفاظ میں دیا کہ اس کی ایک وجہ پاکستان کے بہترین کمانڈر جنرل راحیل شریف کا شہزادہ محمد بن سلمان کے قریب ہونا ہے، جنرل راحیل شریف چاہتے ہیں کہ اس قربت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ دوسری وجہ سعودی افواج میں جنگی سختیوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کا فقدان ہے، جو وہ امریکی و یورپی تربیت کے سبب حاصل نہیں کرسکے۔ سعودیوں کو توقع ہے کہ پاکستانی فوجی اس شعبے میں تربیت دے سکتے ہیں، علاوہ ازیں اندرونی سکیورٹی میں بھی ممدو معاون ہوسکتے ہیں۔ واشنگٹن ایگزیمینر کے مطابق اس فوجی تعیناتی کے سبب سعودیہ اور پاکستان کا اتحاد مزید مضبوط ہوگا اور ایران تنہا رہ جائے گا، جو ایک اچھی چیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور وحدت امت کے تناظر سے بھی یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 706856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش