QR CodeQR Code

سعودی عرب فوج بھیجنے کا فیصلہ، آئین اور ایوان کیا کہتے ہیں

23 Feb 2018 04:08

اسلام ٹائمز: یمن کی سرحد پہ واقع نجران، عسیر، جازان کے علاقے جو کہ حقیقت میں یمن کا حصہ ہیں اور 1934ء میں ہونیوالے طائف معاہدے کے تحت ان پہ یمن کا حق بھی تسلیم کیا گیا، تاحال سعودی عرب کے پاس ہیں، یہاں کی آبادی کی اکثریت بھی یمنی نژاد ہے اور انہی علاقوں میں یمن جنگ کے خلاف عوامی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی یکطرفہ جنگی کارروائیوں کے ردعمل میں سعودی فوج کے ساتھ قبائل کی مسلح جھڑپیں بھی انہی علاقوں میں ہوئی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب یمن پہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے ردعمل میں اگر یمنی قبائل ان سرحدی علاقوں میں حسب توفیق کوئی جوابی کارروائی کرتے بھی ہیں، تو اس جوابی کارروائی کوروکنے اور ان قبائل کو اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں سزا دینے کیلئے پاک فوج کے دستے دستیاب ہوں گے حالانکہ پاک فوج کے جری جوان اپنے وطن کی سرزمین کی حفاظت کا حلف اور اسی کی آن بان شان پہ مرمٹنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اب وزیر دفاع شائد اس حدتک تو درست ہیں کہ پاکستانی دستے سعودی عرب میں تعینات ہوں گے مگر ان کی یہ بات درست نہیں کہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے، شائد اسی لیے انہوں نے پاک فوج کے دستے کی آپریشنل تفصیل ایوان میں پیش نہیں کی۔ دوسری جانب طائف معاہدے کو سامنے رکھا جائے اور پاک فوج کے دستے نجران،عیسر ، جازان میں موجود ہوں تو پھر بھی وہ سعودی عرب میں نہیں بلکہ یمن کی سرزمین پہ ہی موجود ہوں گے۔


تحریر: عمران خان

حکومت نے نہ صرف سعودی عرب میں پاک فوج کے مزید دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے بلکہ اس تعیناتی سے متعلق ایوان بالا کو تفصیلات فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ سینیٹ اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے کی منظوری براہ راست وزیراعظم نے دی ہے، سعودی عرب میں پاکستان کے 1600 فوجی پہلے سے موجود ہیں اور اب مزید ایک ہزار سے زائد فوجیوں پہ مشتمل دستہ بھیجا جارہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب میں صرف تربیتی مشن پر جارہے ہیں اور وہ صرف سعودی عرب کے اندر ہی موجود رہیں گے۔ یہی بیان آئی ایس پی آر کی جانب سے پہلے ہی جاری کیا جاچکا تھا۔ اسی اجلاس کے دوران وزیر داخلہ احسن اقبال نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان کے سعودی عرب میں فوجیوں کے تبادلہ کا دوطرفہ معاہدہ موجود ہے اور جو فوج جائے گی وہ کسی لڑائی میں حصہ لینے نہیں جا رہی۔

سعودی عرب میں پاک فوج کے مزید دستے بھیجنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان اس بات پہ کھینچا تانی جاری ہے کہ ایوان اور آئین میں سے مقدم کون ہے۔ اسی ایک نکتے کی بنیاد پہ سپریم کورٹ نے نہ صرف نااہل وزیراعظم نوازشریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دیا بلکہ حکمران جماعت کو سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ عدلیہ کے پاس قانون سازی کے جائزے کا اختیار ہے، پارلیمنٹ آئین سے متصادم قانون نہیں بناسکتی۔ یہ وضاحت دینے کی بھی ضرورت سپریم کورٹ نے اس لیے محسوس کی کیونکہ پارلیمنٹ نے باقاعدہ قانون سازی کرکے نوازشریف کیلئے یہ راہ نکالی تھی کہ نااہلی کے باوجود وہ پارٹی کے سربراہ رہ سکتے ہیں۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے متعدد بار دوران سماعت یہ ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، لیکن پارلیمنٹ کے اوپر بھی ایک چیز ہے اور وہ آئین ہے، قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے، عدلیہ کا نہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم نے شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایوان میں اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ ایوان کو کام کرنے، تعیناتیوں اور دیگر فیصلے کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ حکمران جماعت اور عدلیہ کے مابین محاذ آرائی میں کم از کم یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں کے نزدیک بالادست آئین اور ایوان ہی ہیں چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ادارے کوئی بھی اہم فیصلہ یا اقدام لینے سے قبل تسلی فرمائیں کہ یہ فیصلہ آئین اور ایوان کے تقدس کی پامالی کا موجب تو نہیں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل چالیس میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کے ممالک کے ساتھ اتحاد کی بنیاد پر دوستانہ اور بردارانہ تعلقات قائم رکھے۔ ان میں اگر کوئی اختلافات پیدا ہوں تو ان کو پر امن طریقے سے حل کرنے کو ترجیح دے۔ سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا فیصلہ آئین کی اس شق سے متصادم ہے۔ گرچہ وزیردفاع نے ایوان میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک فوج کے دستے کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے مگر دوران جنگ کسی بھی ایک فریق کو تربیت یافتہ خصوصی لڑاکا فوجی دستوں کی فراہمی شریک جنگ ہونے کا اعلان ہے۔ سعودی عرب اور یمن دونوں ہی مسلمان ملک ہیں۔ یمن پہ سعودی عرب نے عرصہ تین سال سے اپنے ہم پیالہ اتحادیوں کے ساتھ ملکر یک طرفہ جنگ مسلط کی ہوئی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں یمن جو کہ ایک غریب مگر غذائی اعتبار سے خود کفیل ملک تھا، آج دنیا کے سب سے بڑے غذائی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ادویات اور غذا کی کمی کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتوں کا شکار ملک یمن ہے۔ یہاں تک اس ملک کے عوامی مقامات اور امدادی کیمپ بھی سعودی اتحاد کی بمباری سے محفوظ نہیں رہ پائے، یہاں تک کہ ماہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں بھی یمنی شہریوں کو توپوں اور طیاروں سے نکلا بارود سہنے پہ مجبور رہے۔ اب تک ہزاروں بے گناہ شہری اس جنگ میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور لاکھوں متاثر ہیں۔ لاکھوں بچے خوراک، صحت اور تعلیم کے بنیادی حقوق کو ترس رہے ہیں، ان سب کے باوجود تاحال یمن پہ سعودی اتحاد کے یک طرفہ فضائی و زمینی حملے جاری ہیں۔

وزیر دفاع خرم دست گیر نے ایوان میں کہا ہے کہ پاک فوج کے دستے سعودی عرب کے اندر رہیں گے۔ اسلام ٹائمز: یمن کی سرحد پہ واقع نجران، عسیر، جازان کے علاقے جو کہ حقیقت میں یمن کا حصہ ہیں اور 1934ء میں ہونیوالے طائف معاہدے کے تحت ان پہ یمن کا حق بھی تسلیم کیا گیا، تاحال سعودی عرب کے پاس ہیں، یہاں کی آبادی کی اکثریت بھی یمنی نژاد ہے اور انہی علاقوں میں یمن جنگ کے خلاف عوامی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی یکطرفہ جنگی کارروائیوں کے ردعمل میں سعودی فوج کے ساتھ قبائل کی مسلح جھڑپیں بھی انہی علاقوں میں ہوئی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب یمن پہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے ردعمل میں اگر یمنی قبائل ان سرحدی علاقوں میں حسب توفیق کوئی جوابی کارروائی کرتے بھی ہیں، تو اس جوابی کارروائی کوروکنے اور ان قبائل کو اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں سزا دینے کیلئے پاک فوج کے دستے دستیاب ہوں گے حالانکہ پاک فوج کے جری جوان اپنے وطن کی سرزمین کی حفاظت کا حلف اور اسی کی آن بان شان پہ مرمٹنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اب وزیر دفاع شائد اس حدتک تو درست ہیں کہ پاکستانی دستے سعودی عرب میں تعینات ہوں گے مگر ان کی یہ بات درست نہیں کہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے، شائد اسی لیے انہوں نے پاک فوج کے دستے کی آپریشنل تفصیل ایوان میں پیش نہیں کی۔ دوسری جانب طائف معاہدے کو سامنے رکھا جائے اور پاک فوج کے دستے نجران، عیسر، جازان میں موجود ہوں تو پھر بھی وہ سعودی عرب میں نہیں بلکہ یمن کی سرزمین پہ ہی موجود ہوں گے۔

چنانچہ دو مسلمان ممالک کے مابین جنگ کے دوران کسی بھی ایک ملک کے دفاع کیلئے فوج بھیجنا آئین کے آرٹیکل چالیس کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور آئین کی خلاف ورزی کی صورت میں ہر وہ شخص اپنے منصب سے نااہل ہوجاتا ہے کہ جو منصب سنبھالنے سے قبل آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے۔ اب سعودی عرب فوج بھیجنے کی منظوری دینے کے بعد وزیراعظم اور اس کی آپریشنل تفصیل ایوان میں پیش نہ کرنے کے بعد وزیر دفاع اپنے منصب کیلئے کتنے اہل ہیں، یہ سوالیہ نشان ہے۔؟ حکمران جماعت پارلیمنٹ کے مقدم، بالاتر ہونے کا مسلسل راگ الاپ رہی ہے جبکہ اسی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر یہ قرار داد منظور کی تھی کہ پاکستان یمن جنگ میں غیر جانبدار رہے گا اور یہ جنگ رکوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ فوجی دستوں کی سعودی عرب تعیناتی کا اعلان اس قرارداد کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے اور ایوان کے تقدس کو مجروع کرنے کے مترادف ہے۔ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ اس اہم مسئلہ کا از خود نوٹس لے اور آئین و ایوان کی قراردادوں پہ عملدرآمد یقینی بنائے ۔ نیز ایوان میں شامل سیاسی جماعتیں بھی اپنی ہی منظور کردہ قرارداد کی صریحاً خلاف ورزی کیخلاف آواز بلند کریں۔ پاک سعودی عرب تعلقات کا فروغ خوش آئند سہی مگر اس کی قیمت یمنی مسلمانوں، پاک فوج کے جوانوں کا لہو یا آئین اور ایوان کا تقدس ہرگز نہیں ہونی چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 706881

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/706881/سعودی-عرب-فوج-بھیجنے-کا-فیصلہ-ا-ئین-اور-ایوان-کیا-کہتے-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org