1
0
Tuesday 27 Feb 2018 10:32

پاک ایران سرحدی شہر تفتان بارڈر کی حالت زار!

پاک ایران سرحدی شہر تفتان بارڈر کی حالت زار!
رپورٹ: نوید حیدر

پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ایران سے زمینی راستے سے ملانے والا واحد سرحدی شہر تفتان کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، جہاں روزانہ نہ صرف بڑے پیمانے پر دو طرفہ رسمی و غیر رسمی تجارت ہوتی ہے بلکہ یہ علاقہ غیر ملکی سیاحوں، تاجروں اور مقدس مقامات کی زیارات کے لئے طویل سفر کرنے والے ہزاروں پاکستانی زائرین کی گزرگاہ بھی ہے۔ پاکستان اور ایران کے دو طرفہ زمینی روابط کا ذریعہ بھی تفتان ہی ہے۔ جہاں نہ صرف پاک ایران سرحدی حکام مل کر دونوں ممالک کے سرحدی معاملات طے کرتے ہیں، بلکہ تفتان کے راستے ہی ایرانی حکام ہر سال دس سے بارہ ہزار ایسے پاکستانی شہریوں کو ڈی پورٹ کرتے ہیں، جو روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ تفتان میں انگریز دور کی بچھائی گئی پٹڑی پر ایک مال بردار ٹرین ہفتے میں ایک مرتبہ تین دنوں کی مسافت کے دوران چٹیل میدانوں، پہاڑی سلسلوں اور تپتے ریگستانوں سے گزر کر کوئٹہ تا زاہدان کا سفر طے کرتی ہے، جس کی وجہ کوئٹہ تا زاہدان ریلوے ٹریک کی خستہ حالی ہے۔ تفتان کو کوئٹہ سے ملانے والی 628 کلو میٹر طویل قومی شاہراہ بھی متعدد مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس پر کئی جان لیواء حادثات بھی پیش آئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں تفتان ایشیاء سے یورپ جانے والے تجارتی قافلوں کی اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا، جس کے شمال میں 41 کلو میٹر دور سیندک اور مشرق میں 85 کلو میٹر کے فاصلے پر ریکوڈک واقع ہیں، جہاں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ خیر معدنی وسائل تو تفتان کی قسمت نہ بدل سکے، لیکن اس شہر کی اپنی منفرد جغرافیائی اہمیت بھی تاحال کارگر ثابت نہیں ہو پا رہی۔

تفتان کو پاکستانی ڈرائی پورٹ کا درجہ حاصل ہے، جہاں یورپی ممالک اور ایران سے تجارتی اشیاء پاکستان درآمد اور وہاں برآمد کی جاتی ہیں، جن پر ٹیکسز کی مد میں رواں سال پاکستان کسٹمز نے اوسطاً 8 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کئے، جو کسٹم کے مقرر کردہ ہدف سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ لیکن یہ جان کر سب کو حیرانی ہوگی کہ ابھی تک وہاں کوئی سرکاری ہسپتال موجود نہیں، بلکہ ہسپتال تو کجا، کوئی رورل ہیلتھ سینٹر بھی قائم نہیں۔ اگر ہے تو وہاں کے 30 ہزار نفوس کے لئے محض ایک بنیادی مرکز صحت ہے، جو عام طور پر دیہی علاقوں کی قلیل آبادی کے لئے قائم کیا جاتا ہے، جبکہ تعلیمی اداروں کی ابتری، پانی، گیس اور دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ایک الگ داستان بیان کرتا ہے۔ گذشتہ سال پاکستان کسٹمز نے فرنٹیئر کور کی معاونت سے تفتان سرحد پر 2 کروڑ روپے کی لاگت سے پاکستان گیٹ قائم کیا۔ جس کے متعلق حکام کا کہنا تھا کہ اس گیٹ کے ذریعے نہ صرف دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت مربوط ہوگی، بلکہ بیرون ممالک سے پاکستان آنے والوں کو مملکت خداداد کے متعلق اچھا تاثر بھی ملے گا۔ لیکن جب آپ پاکستان گیٹ سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر تفتان بازار پہنچیں گے تو وہاں آپ کو بوسیدہ سڑکیں اور خستہ حال دکانیں ایسی حالت میں ملیں گی، جیسے یہ علاقہ کسی طویل جنگ کے بعد امن کے دور میں واپس لوٹ رہا ہو۔ ایران اور پاکستان کے درمیان 6 فروری 1958ء کے سرحدی معاہدے کے تحت تفتان کے زیرو پوائنٹ گیٹ سے دونوں جانب کے مقامی لوگ غیر رسمی تجارت بھی کرتے ہیں، جہاں سے روزانہ زیادہ تر اشیائے خورد و نوش و روزمرہ ضروریات کی اشیاء ہزاروں مزدور اپنے کاندھوں پر لاد کر پاکستانی سرحد تک پہنچاتے ہیں، جو ٹیکس سے بھی مستثنٰی ہیں۔

لیکن جس طرح باقاعدہ تجارت میں پاکستانی اشیاء کی برآمد کم ہے، اسی طرح زیرو پوائنٹ گیٹ سے بھی پاکستانی اشیاء کی برآمدات بہت کم کر دی گئی ہے، جس کی وجہ سے کئی مقامی تاجر بے روزگار ہوگئے ہیں۔ معاہدے میں طے پایا تھا کہ زیروپوائنٹ سے ہفتے میں تین دن تک ایرانی اشیاء درآمد کی جائیں گی اور تین دن پاکستانی اشیاء برآمد ہوں گی۔ لیکن آئے روز کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے زیرو پوائنٹ گیٹ کو بھی بند رکھا جاتا ہیں۔ یہ معاملہ کئی بار پاکستانی اور ایرانی حکام نے دو طرفہ اجلاسوں میں اٹھایا ہے، لیکن عملی طور پر خاطر خواہ اقدامات نہیں ہو پائے۔ تفتان میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے زائرین کے قیام و طعام کے لئے حکومت نے گذشتہ سال 4 ایکڑ پر مشتمل پاکستان ہاؤس کی تعمیر مکمل کی، جہاں دو بڑے ہالز، دس باتھ روم اور دو کینٹین بنائی گئیں، جن میں محض اڑھائی ہزار زائرین کے لئے گنجائش موجود ہے۔ لیکن ماہ محرم الحرام میں عاشورہ اور اربعین امام حسین (علیہ السلام) کے دوران بیک وقت 30 سے 40 ہزار زائرین کی آمد کے موقع پر وہاں تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں ملتی، جس کے سبب ہزاروں زائرین پاکستان ہاؤس کے اندر اور باہر کھلے آسمان تلے رہنے اور سونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق قلیل وسائل کے سبب بعض اوقات وہ زائرین کے قیام و طعام اور ٹرانسپورٹیشن میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں، کہ ان کو شہر کے انتظامی معاملات اور حکومتی امور نمٹانے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

2004ء کے بعد جب سے ایرانی فورسز پر مسلح حملوں کا سلسلہ شروع ہوا، تب سے حالات مزید سخت ہوگئے، بلکہ 1958ء کے معاہدے کے تحت سرحدی علاقوں کے جو لوگ 15 روزہ اجازت نامے یعنی "راہداری" کے تحت ایران جاتے ہیں، انہیں بھی وہاں بڑی سخت شرائط اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسئال کو حل کرنے کے لئے پاک ایران سرحدی حکام نے مشترکہ اجلاسوں میں کئی بار کوششیں کیں، لیکن کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ان کوششوں کو بے اثر کر دیتا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر مقامی سطح پر کاروبار کے مواقع معدوم ہو جانے کے سبب تفتان کے کئی علاقے ویران ہوگئے ہیں، جہاں سے لوگوں نے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کی ہے۔ رہی سہی کسر جون 2014ء میں تفتان کے دو مقامی ہوٹلوں میں شیعہ زائرین پر ہونے والے دو خودکش حملوں نے پوری کر دی، جس کے سبب پورا شہر سکیورٹی چیک پوسٹوں، خندقوں اور رکاوٹوں کا الگ منظر پیش کرتا ہے۔ کوئٹہ سے تفتان تک قومی شاہراہ پر قائم دو درجن سے زائد سکیورٹی چیک پوسٹیں بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ ان تمام حالات نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو منشیات، ایرانی پیٹرول اور انسانی اسمگلنگ کے گھناؤنے کاروبار کی طرف دھکیل دیا ہے، جو کسی بھی طرح نیک شگون نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تفتان جیسی اہم سرحدی گزرگاہ کی ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری اقدامات کرتے ہوئے اسے ایک مثالی شہر بنائے، تاکہ نہ صرف اہم سرحدی علاقے کے عوام جدید سہولیات سے آراستہ ہوں، بلکہ پاکستان سے ایران جانے والے زائرین اور بیرون ممالک سے پاکستان آنے والے بھی ہمارے ملک کے متعلق اچھا تاثر لے سکیں۔
خبر کا کوڈ : 707807
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
سلام، خدا قوت نوید بھائی، بہت حساس معاملے پر قلم اٹھایا ہے آپ نے...
ہماری پیشکش