0
Wednesday 28 Feb 2018 00:00

ملکی سیاست اور عالمی چالیں۔۔۔

ملکی سیاست اور عالمی چالیں۔۔۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اس وقت پاکستان کی سیاست انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار دکھائی دیتی ہے، ایک طرف مجھے کیوں نکالا فیم نااہل وزیراعظم نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر مریم نواز شریف عوامی جلسوں کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں اور ملک بھر کے اہم شہروں میں جا کر عوامی عدالت لگاتے ہیں اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے دعوے کیساتھ عدلیہ کو للکارتے ہیں کہ دیکھو عوامی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، یہ ہے انصاف اور عدالت جس کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، پانچ ججز کو یہ اختیار نہیں کہ لاکھوں عوام کے دلوں میں بسنے والوں کو بہ یک جنبش قلم نکال باہر پھینکیں اور پارلیمنٹ کی توہین کریں، میاں نواز شریف کی نااہلی سے نااہلیت تک کا سفر بہت ہی شاندار رہا ہے، نااہلی وزارت عظمٰی سے اور نااہلیت پارٹی صدارت سے، نااہلی کی صورت میں وزارت عظمٰی چلی گئی اور نااہلیت کے فیصلے نے فیصلے کی طاقت چھین لی اور نتیجتاً میاں صاحب کے کئے ہوئے فیصلوں یعنی سینیٹ کے ٹکٹ ہولڈرز کو پارٹی وابستگی سے جدا ہونا پڑا، ورنہ یقیناً الیکشن سے بھی آئوٹ ہوتے، اب جماعت کی سربراہی کیلئے قرعہ فال برادر خورد خادم اعلٰی میاں شہباز شریف کے نام نکلا ہے، مگر عجیب روش ہے کہ انہیں قائم مقام بنایا گیا ہے کہ وقت آنے پر بغیر کسی وقت ضائع کئے دوبارہ اپنا قبضہ کیا جا سکے، مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود زمین ان کے پائوں سے سرکی جا رہی ہے۔ عدالت اور نیب نے جو روش پکڑ رکھی ہے اور جس رفتار سے کام ہو رہا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ اب کی بار کام پکا کیا جائے گا۔ احد چیمہ اور اور ان سے وابستہ کرپٹ عناصر کی گرفتاریوں سے ایک نیا محاذ کھل چکا ہے، کل تک یہ کام صرف سندھ میں ہو رہا تھا، اب پنجاب میں بھی اعلٰی بیوروکریٹس پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، جس کے خلاف اگرچہ بیوروکریٹس کو حرکت میں لانے کی کوششیں جاری ہیں، مگر غضب کرپشن کی جو کہانی اور ثبوت سامنے آرہے ہیں، وہ سب کو خاموش کر دیں گے، گیارہ روزہ ریمانڈ میں بہت کچھ سامنے آچکا ہوگا، جس کے بعد احد چیمہ کا باہر آنا ممکن نہیں ہوگا بلکہ وہ اصل کرداروں سے بھی پردہ اٹھائینگے اور مزید گرفتاریاں بھی ہونگی، جن پر چیخنا چلانا حکمرانوں کا حق بنتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ان کی کرپشن پکڑی جا رہی ہو اور وہ خاموش رہ جائیں، چپ سادھ لیں، اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ سب ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔

عالمی و علاقائی صورتحال کو دیکھیں تو دنیا میں بڑی تبدیلیاں سامنے آرہی ہیں، بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے، کی سفارت کاری اور دنیا بھر سے روابط کے نتیجہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھارت کی طرف کھنچی چلی آ رہی ہے، اقلیتوں کیساتھ اور کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی بدترین پائمالی کے باوجود بھارت دنیا کیلئے ایک ایسا اہم ملک ہے، جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو دنیا میں تنہائی کا شکار کیا جا رہا ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ساڑھے چار سال تک ہم نے خارجہ امور کا وفاقی وزیر ہی نہیں بنایا، یہ اس نفسیات کا نتیجہ ہے، جو تمام تر نااہلیوں کے باوجود اپنے سگے بھائی کو بھی مکمل اختیار دینے پر تیار نہیں اور اپنے نام سے رجسٹرڈ جماعت کی سربراہی بھی ایک خاص مدت تک دی ہے۔ وزیر خارجہ نہ ہونے کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑا ہے اور ہم دنیا کو بہت سے معاملات میں اس طرح قائل نہیں کرسکے، جیسے ضرورت تھی۔ اب دنیا میں پھیلتی دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی امداد اور وسائل کو روکنے کا معاملہ عالمی سطح پر بے حد اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ہم چونکہ اسی کی دہائی سے اس مرض میں مبتلا ہیں، اس لئے اس معاملے میں بھی ہمارا کردار دنیا کیلئے مشکوک ہی رہتا ہے، امریکہ جو ہمیشہ دہشت گردی کا سرخیل رہا ہے، اسے ہی دنیا کی فکر رہتی ہے کہ دہشت گردوں کو ہر طرح سے روکا جائے۔ ایک اہم ترین ذریعہ جو دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے، وہ پیسہ ہے جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں کسی نہ کسی ذریعہ سے جا رہا ہوتا ہے، اس کو روکے بنا دہشت گردی کا خاتمہ ایک خواب ہی ہوسکتا ہے، دنیا میں سب سے پہلے امریکہ نے ہی 1986ء میں اینٹی منی لانڈرنگ (Anti-Money Laundering) کا قانون بنایا اور بینکوں پر کھاتہ داروں کے لین دین کو خفیہ رکھنے کی سختی کو بھی کم کر دیا۔

اس عمل کو وسیع کرنے کیلئے G-7 ممالک کے وزرائے خزانہ نے 1989ء میں ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی، جسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کہا جاتا ہے۔ یہ 34 ممالک پر مشتمل ہے اور اس کی ذیلی تنظیمیں علاقائی بنیادوں پر بنائی گئی ہیں۔ پاکستان ایشیا پیسفک گروپ (Asia Pacific Group(APG) کا ممبر ہے، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا کے بیشتر بین الاقوامی ادارے بھی فیٹف کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، خصوصاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، فیٹف شروع میں منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے اقدامات تجویز کرتی رہی اور ممبر ممالک ان پر عملدرآمد کے پابند ہوتے تھے۔ اس کی وضع کردہ تجاویز (Recommendations) وہ معیار بن چکے ہیں، جن سے کسی بھی ملک کی اینٹی منی لانڈرنگ کی اہلیت کو پرکھا جاتا ہے اور ان کی عدم موجودگی میں کسی بھی ملک کو بین الاقوامی مالی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں فیٹف نے ایک ماڈل قانون بنایا ہے، جس میں منی لانڈرنگ کو نہ صرف ایک جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ وہ تمام جرائم جن میں مالی منفعت (proceeeds of crime) شامل ہو، اس منفعت پر منی لانڈرنگ کا اضافی جرم بھی لگایا جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی اہتمام ضروری ہے کہ بینکنگ اور مالی نظام منی لانڈرنگ کیلئے استعمال نہ ہوسکے۔ لہذا ان تمام اداروں پر یہ قانونی پابندی ہے کہ نہ صرف اپنے کھاتہ داروں کے پس منظر کی اچھی طرح چھان بین کریں بلکہ ان کے لین دین پر کڑی نظر رکھیں اور اگر کوئی مشتبہ لین دین نظر آئے تو اس کی اطلاع ایک رپورٹ (STR) suspicious transaction report کی شکل میں اس ادارے کو بھیجیں، جسے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (financial monitoring unit (FMU) کہا جاتا ہے، کو ارسال کریں۔ یہ ادارہ اس رپورٹ کو ان متعلقہ اداروں کو بھیجتا ہے، جو ممکنہ جرم کی تحقیقات کرنے اور مقدمے قائم کرنے کے مجاز ہیں۔

9/11 کے بعد FATF نے اپنے دائرے کو آہستہ آہستہ ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے، جو ایک مثبت تبدیلی کہی جا سکتی ہے، کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں منی لانڈرنگ کی لعنت بہت نقصان دہ شکل اختیار کرتی جا رہی تھی۔ پاکستان نے اس کام کا آغاز نسبتاً تاخیر سے 2007ء میں کیا، جب ایک آرڈینینس کے ذریعے ماڈل قانون بنایا گیا، جو ایکٹ کی صورت میں 2010ء میں نافذ ہوا۔ لہذا اس ابتدائی قانون میں کچھ خامیاں رہ گئی تھیں اور فیٹف ہم سے اس کی اصلاح کے تقاضے کرتا رہا۔ قانون میں فراہم کردہ جو فریم ورک بننا تھا، اس میں بھی تاخیر ہوئی۔ علاوہ ازیں بہت سے جرائم کو منی لانڈرنگ کی فہرست میں شامل ہونا تھا، اس میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا تھا، خصوصاً ٹیکس قوانین کے جرائم میں منی لانڈرنگ کو شامل کرنے کے کی سخت مخالفت ہوتی رہی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس قانون کی سیاسی اور انتظامی مخالفت بھی پرزور تھی، کیونکہ اس کے تحت جرائم کی نئی تعریفیں اور ان کی سزائیں تجویز ہو رہی تھیں اور ایسے کاموں پر جو کاروباری اور سماجی زندگی میں عموماً کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور علاقہ جس میں ہم نے مطلوبہ سرعت سے کام نہیں کیا، وہ دہشت گردی میں استعمال ہونے والے وسائل کو روکنا اور دہشت گردی کے واقعات میں مالی معاونت منی لانڈرنگ کے جرائم کی شمولیت۔ ان کوتاہیوں کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا کہ 2012ء میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست (واچ لسٹ) میں شامل کر دیا گیا، جن کیساتھ معاملات میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خطرات موجود ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال تھی اور اس کا تدارک ضروری تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنی مدت کے آغاز میں ان معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کرکے مالی معاونت کا جرم شامل کرنا لازمی کر دیا۔ پھر سلامتی کونسل کی قرارداد میں جن تنظیموں اور افراد کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، ان کے کھاتوں کو ضبط کرنا لازمی کر دیا اور مالی نظام میں ان کی شرکت پر پابندی لگا دی۔ جرائم کی فہرست، جن میں منی لانڈرنگ کا جرم بھی شامل ہوگا، اس کو مزید وسیع کر دیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ٹیکس نظام سے وابستہ جرائم جن کو استثنی حاصل تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا۔

ان اصلاحات کے بعد قانون اور فریم ورک سے متعلق کمزوریاں بھی دور کر دی گئیں اور اب بات ان کے موثر نفاذ اور مستقل نگرانی کی طرف منتقل ہوگئی۔ لہذا 2015ء میں پاکستان کو واچ لسٹ سے نکال دیا گیا، اس تاکید کیساتھ کہ کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ ان کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے دو اہم اقدامات ضروری تھے، ایک یہ کہ دہشت گرد تنظیموں اور افراد کے مالی نظام سے باہر اثاثوں کو ضبط کرنا، ان کے چندہ جمع کرنے پر پابندی لگانا اور دیگر فلاحی کاموں کی سختی سے نگرانی اور روک تھام کرنا، ان پر سفری پابندیوں کا اطلاق اور ان کو غیر مسلح کرنا۔ دوسرا اندرونی صلاحیتوں کو پیدا کرنا، تاکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اس قابل ہو جائیں کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے جرم کی تحقیقات کرسکیں اور اس پر سزا دلوا سکیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے انتظامی ادارے اس اہل نہیں کہ دہشت گردوں کو روک سکیں، ایک تو ان کے پاس جدید وسائل اور تربیت کا فقدان ہے، دوسرا یہاں پر سرکاری اور ریاستی چھتری تلے چلنے والے گروہوں نے اس قدر طاقت پکڑ لی ہے کہ اب ان سے جان چھڑوانا ناممکن ہوچکا ہے، جبکہ معاشرہ بھی تقسیم کا شکار ہے اور تعصب نے جڑیں اس قدر مضبوط کر لی ہیں کہ دہشت گرد عناصر کو ہمدردیاں مل جاتی ہیں اور وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ موجودہ ملکی صورتحال اور سیاسی مسائل سے بھی وہ سپرٹ اور جذبہ ماند پڑ جاتا ہے، جس کی ضرورت ہوتی ہے، اب آج کل کے حالات کو ہی دیکھ لیں کہ حکومت نام کی کوئی چیز ہمیں دکھائی نہیں دیتی، حکمران خود کہتے ہیں کہ میرا وزیراعظم تو فلان ہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا نام اس فہرست میں شامل رہیگا، جن کو دہشت گردوں کا سرکاری یا ریاستی سرپرست کہا جاتا ہے اور جن کے اقدامات دنیا کی نظر میں ناکافی ہوتے ہیں۔ ایران تو پہلے ہی اس لسٹ میں شامل ہے، اگر پاکستان بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے تو کوئی آفت نہیں آئے گی، بس حکمرانوں کی عیاشیوں کا بجٹ تھوڑا عرصہ کیلئے کم ہو جائے گا، ملک کا کیا ہے، یہ تو چل ہی رہا۔۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 708056
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش