0
Thursday 1 Mar 2018 17:55

امریکی سرپرستی اور داعش افغانستان میں

امریکی سرپرستی اور داعش افغانستان میں
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


افغانستان جو عرصہ دراز سے امریکی افواج کے نشانے پر رہا ہے اور خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے تو امریکن سی آئی اے نے بغیر کسی تاخیر کے افغانستان پر فوجی چڑھائی کا اعلان کیا تھا، اس سے قبل بھی افغانستان کی بات کریں تو کئی ایک پیچ و خم نظر آتے ہیں کہ جب یہاں طالبان حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے اسلام کی ایک انوکھی ہی شکل متعارف کروانے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا، جس کے باعث خطے بھر میں اور مسلمانوں کے درمیان اس قسم کی اسلامی تعلیمات یا افعال جن کو اسلامی شریعیت سے منسوب کیا گیا تھا، کے بارے میں شدید تحفظات سامنے آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خود افغانستان کے متعدد گروہوں نے طالبان کی اس حکومت کیخلاف جدوجہد شروع کر دی۔ بہرحال امریکہ کی افغانستان آمد کے بعد سے تاحال یہاں کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ کہ جس نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کے قیام کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے، دراصل خود امریکہ اس دہشت گردی کا بانی ہے اور اس دہشتگردی کو وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کبھی افغانستان، عراق، پاکستان تو کبھی شام و لبنان یا پھر لیبیا اور یمن جیسے ممالک میں مختلف دہشتگرد تنظیموں کے قیام اور ان کی معاونت سے حاصل کرتا ہے۔

بہرحال مقالہ کے اصل عنوان کی طرف گفتگو کرتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کے بعد عراق میں اپنی فوجی کاروائی کا آغاز کیا اور پھر مسلسل ناکامیوں کے بعد بالآخر 2011ء میں ایک نیا دہشت گرد گروہ داعش متعارف کروایا گیا کہ جس کی پرورش و تربیت 2006ء سے ہی عراق کی ابو غریب اور اسی طرح گوانتا نامو بے قید خانوں میں قید خطرناک دہشتگردوں کے استعمال سے کی گئی تھی، شام میں اس دہشتگر د گروہ کو متعارف کیا گیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے عراق جا پہنچا۔بہرحال شام اور عراق میں مسلسل کئی سالہ معرکہ آرائی کے نتیجہ میں اس امریکی حمایت یافتہ گروہ داعش کو کامیابی حاصل نہ ہوئی، تاہم صورتحال اب یہ ہے کہ عراق و شام سے مفرور ہونے والے ان داعشی دہشت گردوں کو افغانستان تک پہنچانے کا کام بھی امریکہ ہی انجام دے رہا ہے۔ امریکہ یہاں پر داعش کے ذریعے متعدد قسم کے مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ ایک طویل مدت سے امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے افغانستان کی تمام فضائی حدود کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے اور اسی تمام کنٹرول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے اب داعش کے شکست خوردہ دہشت گردوں کا عراق و شام سے انخلاء کے بعد انہیں بمع اسلحہ و ساز و سامان افغانستان کے مختلف علاقوں میں پہنچانا شروع کر دیا ہے، تاکہ اب شام و عراق کے بعد افغانستان کو بھی تہس نہس کیا جائے۔

یہاں یقیناً داعش کی موجودگی سے امریکہ روس کے خلاف بھی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور افغانستان کے ساتھ سرحد پر موجود پاکستان کے بارے میں بھی یقیناً امریکہ کا منصوبہ مثبت نہیں ہے، اسی طرح افغانستان کے ساتھ ایک زمینی سرحد ایران کی موجود ہے، جو کہ پہلے سے ہی امریکہ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دراصل شام و عرا ق میں بھی امریکہ کی جانب سے داعش کا استعمال ایران اور اس اسلامی مزاحمتی بلاک سے تھا کہ جو ہمیشہ غاصب اسرائیل کے خلاف سرگرم عمل تھا، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا داعش کو افغانستان لانے کا ایک بڑا مقصد ایران کے خلاف اور پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کرنا بھی ہے اور اسی طرح روس کے ساتھ امریکہ کی ہمیشہ دشمنی رہی ہے اور روس کو توڑنے میں بھی امریکہ براہ راست ملوث تھا۔ ان تمام مفادات سے بالاتر امریکی سامراج کے مفادات دراصل دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کے ہیں، جیسا کہ انہوں نے افغانستان سے ہی شروع کیا تھا، پھر عراق میں جا پہنچے اور ایک نئی صورت یعنی داعش کی شکل میں شام میں جا پہنچے اور اسی طرح لیبیا کی مثال موجود ہے۔ یمن میں بالواسطہ یہی مقاصد ہیں، لبنان میں اسرائیل کے ذریعے تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضہ جمانے کے لئے سرگرم ہیں۔ دراصل حقیقت تو یہی ہے کہ عالمی سامراج و صیہونیزم کا بنیادی ترین ہدف دنیا کے قدرتی ذخائر و سائل پر تسلط قائم کرنا ہے اور اسی مقصد کی خاطر ہی انہوں نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو سرزمین فلسطین پر قائم کیا تھا، تاکہ ایشیاء کے تمام وسائل و ذخائر صیہونیوں کی دسترس میں رہیں۔

حالیہ دنوں ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی اطلاعات میں سامنے آیا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹرز امریکی افواج کی نگرانی میں داعش کے دہشت گردوں کو مختلف مقامات سے افغانستان میں اتار رہے ہیں۔ مختلف شواہد اور اطلاعات کی روشنی میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ داعش کے دہشتگردوں کو ترکی میں موجود امریکی اڈوں سے نیٹو اور امریکہ کی سربراہی میں افغانستان پہنچایا جا رہا ہے۔ نومبر 2017ء کی بات ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے قطری ٹی وی چینل الجزیرہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ امریکہ براہ راست افغانستان میں داعش کو پہنچا رہا ہے اور افغانستان کے امن و امان کو خراب کرنے کے درپے ہے۔ اگر سابق افغان صدر کے اس بیان کو ہی دیکھا جائے تو نومبر سے اب تک گذشتہ چار مہینوں میں لگ بھگ درجن بھر سے زائد دہشت گردانہ کارروائیاں سامنے آئی ہیں کہ جس میں سینکڑوں معصوم انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہر دہشتگردی کی کارروائی کی ذمہ داری داعش نے ہی قبول کی ہے، البتہ چند ایک مقامات پر ہونے والی کارروائیوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ طالبان گروہوں کی جانب سے انجام پائی ہیں۔ حامد کرزئی نے واضح طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ امریکہ کی سرپرستی و نگرانی میں داعش افغانستان لائی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلسل دہشتگردانہ کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

دوسری طرف روس کے صدارتی دفتر کے ایک اعلٰی عہدیدار Zamir Kabulov نے کہا ہے کہ اب تک امریکہ کی نگرانی میں دس ہزار داعش کے دہشت گرد افغانستان لائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے روس کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس کے سرحدی علاقوں تاجکستان اور ترکمانستان میں داعش کی موجودگی نہ صرف افغانستان کے عوام کے لئے سنگین ہے بلکہ روس کو بھی داعش کی افغانستان منتقلی سے شدید تحفظات ہیں۔ روسی عہدیدار نے کہا ہے کہ روس نے افغانستان میں داعش کی منتقلی کے بارے میں سب سے پہلے متنبہ کیا ہے، تاہم ابھی تک امریکی نگرانی میں داعش کے دہشت گردوں کو منتقل کئے جانے کا عمل جاری ہے۔ داعش کے افغانستان پہنچنے سے جہاں ایک طرف افغانستان کا امن تباہ و برباد ہو رہا ہے، وہاں ساتھ ہی خطے میں دہشت گردی کے اثرات مزید بڑھ رہے ہیں، کیونکہ افغانستان کے پڑوس میں ہی پاکستان نے خیبر فور نامی آپریشن داعش کے خلاف ہی کیا تھا کہ جس میں افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں داعش کی موجودگی پائی گئی تھی۔ اب امریکہ ایک طرف تو پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ خود ہی دہشتگردوں کو خطے میں لا کر تمام ممالک کے امن و امان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
خبر کا کوڈ : 708377
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش