0
Monday 22 Jun 2009 14:57

امام خمینی رہ اور براک اوباما

امام خمینی رہ اور براک اوباما
تحریر: ڈاکٹر عبدالعلی علی عسکری
ترجمہ: عباس ہمدانی
امام خمینی رہ کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح منطقے اور دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ جانا جاتا ہے۔ اس واقعے نے دنیا میں نئی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے۔ امام خمینی رہ نے جدید دنیا میں ایک نیا ماڈل پیش کیا جو عوام کی بیداری اور ان کا استعماری قوتوں سے ٹکرا جانے پر مشتمل تھا۔ اس کا آغاز ایران سے ہوا۔ ایرانی بادشاہ محمد رضا شاہ کے خلاف عوام کے مظاہرے اس ماڈل کے تحقق کا پہلا قدم تھے۔ عام افراد کا میدان میں آنا اور ظالمانہ روابط کو ختم کر کے اپنے حقوق کا حصول اس ماڈل کا بنیادی اور اہم رکن ہے۔ ہم اگر تہران میں امریکہ کے خلاف عوامی مظاہروں کا مشاہدہ کرتے تھے تو عراق اور افغانستان کی جنگ کے خلاف ہمسایہ ممالک، مغربی ممالک اور حتی خود امریکہ میں بھی یہ مناظر دیکھنے میں آتے تھے۔ لندن جیسے یورپی ممالک کے بڑے بڑے شہروں اور خود امریکہ کے اندر امریکی پالیسیوں کے خلاف عوامی مظاہرے دنیا والوں کیلئے باعث تعجب تھے۔ آج استعماری طاقتوں کے زیر اثر میڈیا 1960 اور 1970 کی دہائی کی طرح ان مظاہروں کو
کمیونیسٹ بلاک اور سرد جنگ سے منسوب نہیں کر سکتا بلکہ یہ امریکہ اور یورپ کے عوام ہیں جو اپنی مرضی اور ارادے سے عالمی بینک، گلوبلائزیشن، امریکہ اور یورپ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی اور مغربی ممالک کے حکام کی شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ غزہ کی جنگ تک جاری تھا۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں نسل کشی، قتل و غارت اور جنگی جرائم کے خلاف بھی امریکہ سمیت دنیا کے 5 براعظموں میں عوام سیاسی جماعتوں کی محافظہ کاری سے بالا تر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور اس ظلم و ستم پر بھرپور احتجاج کیا۔ یہ سب اعتراضات آگاہانہ طور پر اور سیاسی جماعتوں اور پولیس کی مرضی کے خلاف امریکی معاشرے میں انجام پائے۔ یہ سب اسی نئے ماڈل کی عکاسی کرتے ہیں۔ حالات اس طرح تبدیل ہو گئے کہ عوام، خاص طور پر وہ عوام جو معاشرتی دباو کا شکار تھے، سیاسی ردعمل دکھانا شروع ہو گئے۔ اگرچہ امریکی سرمایہ داروں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکین سے ساری عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن امریکی معاشرے کے غریب، گوشہ گیر، سیاہ پوست اور مستضعف افراد کی طرف سے یہ ردعمل زیادہ
شدید انداز میں سامنے آ رہا ہے۔ لہذا اس طبقے کے افراد روز بروز زیادہ متحرک ہوتے جا رہے ہیں اور امریکی معاشرے پر زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف اقتصادی بحران کو حل کرنے میں امریکی حکومت کی ناکامی اور امریکی عوام کی روز بروز بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات نے بھی اس طبقے کے افراد کو زیادہ سرگرم عمل کر دیا ہے۔ اگرچہ امریکہ کی سیاسی جماعتیں اور اعلی حکام یہ چاہتے ہیں کہ عوامی اعتراضات محدود پیمانے پر اور کنٹرول شدہ ہوں تاکہ انکی طرف سے اجتماعی اور سیاسی دباو کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عدم استحکام بھی پیدا نہ ہو لیکن عوامی اقدامات کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔ عوام اپنے حقوق حاصل کرنے اور سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے اپنے اوپر جاری ظلم کو ختم کرنے کیلئے روز بروز زیادہ پر جوش ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جسکو تبدیلی کا ایک نیا منظر کہا جا سکتا ہے۔ تبدیلی کے اس منظر کا ایک اہم اور واضح اثر یہ ہے کہ امریکی معاشرہ اپنے روایتی حکام سے جو سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ہیں تھک چکا ہے اور کسی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ وہ ایسے انسانوں
کی حکومت چاہتا ہے جو گروہی مفادات اور غریب عوام کے مفادات کے درمیان ٹکراو کے نتیجے میں غریب عوام کے مفادات کو ترجیح دیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں اوباما کے نعرے عوامی اور تبدیلی کی امید کے ہمراہ تھے لہذا لوگوں نے اسکا پرجوش استقبال کیا۔ لوگوں نے اس امید کے ساتھ ایک سیاہ پوست انسان کو سفید پوستوں پر ترجیح دی کہ وہ باقی امریکی صدور کی طرح نہ ہو بلکہ عوام پسندی اور عدالت خواہی کے احساسات سے مالامال ہو اور سرمایہ دارانہ اور استکباری سوچ سے عاری ہو۔ وہ ملکوں کو فتح کرنے اور اپنی سلطنت کو بڑھانے کی بجائے ملک سے اقتصادی بحران، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے درپے ہو۔ اسکا مقصد لوگوں کی زندگی میں فلاح و بہبود پیدا کرنا ہو۔ یہ ایک ایسا حقیقی اور عمومی احساس ہے جو امریکی معاشرے کے مختلف طبقات میں پایا جاتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں اوباما نے اپنے رقیبوں پر فتح حاصل کی ہے۔ یہ احساس امام خمینی رہ کے ایجاد کردہ ماڈل کا نتیجہ ہے جو امریکی معاشرے میں ظاہر ہوا ہے۔ براک اوباما ایک نہایت ہی نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ وہ ایک دوراہی پر کھڑے ہیں۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ غریب عوام کے مفادات اور امریکی معاشرے سے ظلم و ستم اور بےچارگی کے خاتمے کو مستکبرین اور سرمایہ دارانہ نظام کی بقا پر ترجیح دیں گے یا باقی امریکی صدور کی طرح سرمایہ داروں اور طاقتور افراد کو غریب عوام پر ترجیح دیں گے؟۔ اگر براک اوبام عوامی مطالبے کا ایک منطقی اور عاقلانہ جواب دیں تو یہ ایک مشکل اور خطرناک راستہ ہونے کے باوجود انکی جانب سے امریکہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ایجاد کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس صورت میں اگرچہ امریکی حکومت عاقلانہ طور پر استعماری سوچ، تکبر اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں ظالمانہ مداخلت کو ترک کر دے گی لیکن اسکے بدلے عزت اور اطمینان کا راستہ اپنائے گی اور اوباما امریکہ کی تاریخ میں ایک پسندیدہ شخصیت کے طور پر باقی رہیں گے۔ لیکن اگر وہ عوام کی مرضی کے خلاف سرمایہ داروں، جاہ طلبوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکین کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ یقیناً امریکی معاشرے میں ایک ناپسند اور منفور شخصیت بن جائیں گے اور امریکہ ایک برے انجام کی طرف جانے لگے گا اور دنیا میں مزید گوشہ گیر ہو جائے
گا۔ اسکے خلاف عالمی برادری میں پائی جانے والی نفرت بڑھ جائے گی۔ اور اسکے دنیا پر حکومت کرنے کے خواب بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔ آج امریکہ دنیا میں نئے حالات رونما ہونے اور امام خمینی رہ کی طرف سے ایک نیا ماڈل قائم کرنے کے ناطے تاریخ کے ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اوباما اسی نئے ماڈل کے اثرات کی بدولت حکومت تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے یہ دکھائی دیتا ہے کہ اسی راستے پر چلے بغیر امریکی معاشرے کی حالیہ مشکلات پر قابو پانا اس کیلئے ممکن نہ ہو گا۔ براک اوباما کی طرف سے ان حقائق کو نظرانداز کرنے کی صورت میں امریکی معاشرہ قابل توجہ حد تک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ آج امریکی عوام کی نظریں اوباما پر لگی ہوئی ہیں۔ امریکی معاشرہ بہت بڑی تبدیلیوں کے آستانے پر کھڑا ہے۔ آخر میں مغربی دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے امام خمینی رہ کی ایک وارننگ کی یادآوری کرتے ہیں: "۔۔۔آج اگر مارکسیزم اقتصادی اور اجتماعی امور میں بند گلی میں پہنچ چکا ہے تو مغربی دنیا بھی ان امور میں مختلف نوعیت کے مسائل سے دچار ہے"۔
خبر کا کوڈ : 7087
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش