0
Sunday 4 Mar 2018 13:07

مشرقی غوطہ، دمشق اور واشنگٹن کے درمیان مقابلے کا میدان

مشرقی غوطہ، دمشق اور واشنگٹن کے درمیان مقابلے کا میدان
تحریر: توفیق شومان (لبنانی صحافی اور تجزیہ نگار)

کچھ عرصے سے شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع علاقے مشرقی غوطہ کے حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ مشرقی غوطہ میں موجود امریکہ اور مغربی ممالک کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے دارالحکومت دمشق پر مارٹر گولے اور راکٹ داغے جانے کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مشرقی غوطہ کی آبادی چار لاکھ ہے جبکہ دارالحکومت دمشق اور بین الاقوامی ہوائی اڈے سے قریب واقع ہونے کے باعث یہ علاقہ خاص اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ مشرقی غوطہ سے دہشت گرد عناصر کے راکٹ حملے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد شروع ہوئے ہیں اور اب تک جاری ہیں۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں اور عرب حکام اس خطے میں موجودہ کشیدگی کا ذمہ دار دمشق اور ماسکو کو قرار دیتے ہیں۔ اسی بارے میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے دعوی کیا ہے کہ مشرقی غوطہ کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار روس ہے۔

اسی طرح ریاض اور ابوظہبی کے حکام نے بھی مشرقی غوطہ میں جاری شام حکومت کے فوجی آپریشن کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا ہے اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جبکہ انسانی حقوق سے متعلق ان کا اپنا ریکارڈ انتہائی مخدوش ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں کی حمایت اس حد تک جا پہنچی ہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف بھی اس پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں:
"بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے مغربی دوست دہشت گرد عناصر کو جنگ بندی سے مستثنی قرار دینے پر تیار نہیں۔ یہ امر بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات جنم لینے کا باعث بنا ہے۔ ماسکو اعلان کرتا ہے کہ ایسے حالات میں شام سے متعلق اقوام متحدہ میں مغرب کی ہر پیشکش کو مسترد کر دے گا۔"

دوسری طرف روسی صدر کے ترجمان دیمیتری پسکوف مغربی اور عرب ممالک کی جانب سے ایران اور روس پر مشرقی غوطہ کی خراب صورتحال کا ذمہ دار قرار دیئے جانے پر مبنی الزامات لگائے جانے کے ردعمل میں کہتے ہیں:
"دہشت گردی کے حامی ممالک اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "مشرقی غوطہ کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو دہشت گرد عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے دہشت گرد جو ابھی تک وہاں موجود ہیں۔"

مشرقی غوطہ، تکفیریوں کا آخری قلعہ
درحقیقت مشرقی غوطہ اس لئے خاص اہمیت کا حامل علاقہ ہے کہ وہ شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا آخری گڑھ اور قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے تکفیری دہشت گرد عناصر جنہیں بڑے پیمانے پر مغربی اور عرب ممالک کی جانب سے مالی اور فوجی امداد مہیا کی جا رہی ہے۔ مشرقی غوطہ انتہائی درجہ کی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے کیونکہ دارالحکومت دمشق سے انتہائی کم فاصلے پر واقع ہے۔ اسی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر یہاں موجود دہشت گرد عناصر نے کچھ عرصے سے دارالحکومت کو راکٹ اور مارٹر حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ان دہشت گردوں نے دمشق اور اس کے نواح میں بڑی تعداد میں بیگناہ عام شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ دہشت گردوں کے انہی مجرمانہ اقدامات کے ردعمل میں شام آرمی اور اس کی اتحادی
فورسز نے اس علاقے میں آپریشن کلین اپ شروع کیا ہے۔ اس آپریشن کا مقصد ان دہشت گردوں کو دارالحکومت سے دور کرنا ہے۔ اس آپریشن کا اصل مقصد دارالحکومت کو درپیش خطرات دور کرنا ہے۔

النصرہ فرنٹ کے گرد دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے
مشرقی غوطہ میں آپریشن شروع ہونے کے بعد اب تک شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز کو خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ دمشق کے اردگرد تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے کافی علاقے چھڑا لئے گئے ہیں جن میں انتہائی اہم علاقہ "الزبدانی" بھی شامل ہے۔ شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز دمشق کے اردگرد سکیورٹی پٹی بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شام آرمی اور سکیورٹی فورسز تکفیری دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ تر کرتے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے شام کے صوبہ ادلب میں بھی النصرہ فرنٹ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد زیادہ سرگرم ہیں اور وہاں بھی وہ شدید دباو کا شکار ہیں۔ لہذا شام آرمی نے دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ میں بھی اس گروہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کر لیا ہے تاکہ ملک کے دیگر حصوں میں ان کے خلاف آپریشن آسان ہو جائے اور دارالحکومت کے قریب ان کی فتنہ گری کا خطرہ ختم کر دیا جائے۔

مشرقی غوطہ، دمشق اور واشنگٹن کے درمیان مقابلے کا میدان
مشرقی غوطہ میں آج جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ گذشتہ چند سال کے دوران شام کی صورتحال سے جڑے ہوئے ہیں اور انہیں اس ملک کے ماضی کے حالات سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ درحقیقت مشرقی غوطہ کے موجودہ حالات شام اور اس کے اتحادی ممالک جیسے روس اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ٹکراو کا نتیجہ ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران شام اور اس کے اتحادی ممالک اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان کئی قسم کے مقابلے انجام پا چکے ہیں۔ امریکہ کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے ڈرونز کے ذریعے شام کے شہروں حمیمیم اور طرطوس میں موجود روس کے فوجی اڈوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح اس سال کے آغاز میں روس کا سوخو جنگی طیارہ منہدم کر دیا گیا۔ دوسری طرف شام کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے ملکی حدود میں داخل ہونے والے اسرائیلی ایف سولہ طیارے کو مار گرایا۔ درحقیقت گذشتہ ماہ سے امریکہ نے ایسے اشتعال انگیز اقدامات انجام دیئے ہیں جن کا مشرقی غوطہ کی موجودہ صورتحال کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

سعودی عرب تکفیری عناصر کا اصلی حامی
یہ جو کہا جا رہا ہے کہ امریکہ شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی فوجی مدد کر رہا ہے اور انہیں اسلحہ مہیا کر رہا بالکل درست ہے۔ ہم نے مشرقی غوطہ میں بھی واشنگٹن کی جانب سے تکفیری دہشت گرد عناصر کی فوجی مدد کا مشاہدہ کیا ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ تکفیریوں کے پاس موجود اسلحہ امریکہ ساختہ ہے۔ البتہ علاقائی سطح پر تکفیری دہشت گرد عناصر کو فراہم کی جانے والی مدد سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ تکفیری دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ کے علاوہ دہشت گرد گروہ "جیش الاسلام" بھی مشرقی غوطہ میں بہت فعال اور سرگرم ہے۔ اس گروہ کو سعودی عرب کی طرف سے مالی امداد مہیا کی جاتی ہے۔ درحقیقت شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہوں
کی مالی مدد کی ذمہ داری سعودی عرب کے سپرد کی گئی ہےجبکہ امریکہ نے انہیں فوجی ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرنے کا کام سنبھال رکھا ہے۔

واشنگٹن کی جانب سے بے بنیاد الزامات کے پیچھے کارفرما سیاسی اسباب
امریکہ کی جانب سے شام حکومت پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے مشرقی غوطہ آپریشن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جبکہ واشنگٹن نے یہ الزام ثابت کرنے کیلئے کوئی دلیل اور ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔ امریکی حکام یہ الزام عائد کرتے وقت کس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں: "شاید"، "احتمال پایا جاتا ہے"، "بعید از امکان نہیں" وغیرہ۔ ان الفاظ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکام کے پاس اپنا دعوی صحیح ثابت کرنے کیلئے قابل قبول ثبوت اور دلائل موجود نہیں۔ اس قسم کے الزامات کا مقصد صرف شام حکومت کے خلاف نفسیاتی جنگ کا آغاز اور منفی ماحول قائم کرنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ان الزامات کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب روس کے شہر سوچی میں شام حکومت اور مخالفین کے درمیان کامیاب مذاکرات کا انعقاد ہوا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ گروہوں نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حتی خود امریکہ نے بھی ان مذاکرات میں شرکت نہیں کی۔ لہذا امریکی حکام اپنے سیاسی حریف روس سے مقابلہ کرنے کیلئے اس کے اتحادی یعنی شام پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے پر اتر آئے ہیں۔

شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی جاری رہنے کی وجوہات
اگر آپ کو یاد ہو تو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے 17 جنوری کو اعلان کیا تھا کہ امریکہ شام خاص طور پر کرد اکثریتی علاقوں میں نیا فوجی اڈہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جب تک شام میں جاری بحران کا سیاسی راہ حل تلاش نہیں کر لیا جاتا اس کی فوجیں اس ملک میں موجود رہیں گی۔ البتہ امریکی حکام جب شام میں سیاسی راہ حل کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد وہی اپنا پرانا منصوبہ یعنی صدر بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ شام میں جاری سیاسی بحران روس کی مرکزیت میں انجام پانے والی کوششوں کے نتیجے میں ختم ہو جائے اور اس کا سہرا ماسکو کے سر سجے۔ امریکی حکام کی نظر میں سوچی میں منعقد ہونے والی امن مذاکرات کی نشست نے روس کو شام بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی جانب ایک قدم نزدیک کر دیا ہے۔

لہذا شام میں فوجی موجودگی جاری رکھنے کیلئے امریکی حکام کا اہم محرک سیاسی میدان میں روس سے مقابلہ کرنا ہے۔ دوسری طرف امریکی حکام دیکھ رہے ہیں کہ شام میں وسیع رقبہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے چھڑا لیا گیا ہے۔ وہ بخوبی اس امر سے آگاہ ہیں کہ دمشق اپنے اتحادی ممالک کی مدد اور تعاون کے ذریعے ان علاقوں کو دہشت گرد عناصر سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ لہذا امریکہ نے اپنی گذشتہ ناکامیوں کا ازالہ کرنے کیلئے شام سے متعلق نئی اسٹریٹجی تشکیل دی ہے جس میں اتحاد سازی شامل ہے۔ امریکہ قامشلی، حسکہ اور شام کے دیگر کرد اکثریتی علاقوں میں کرد حکام سے اتحاد کے ذریعے دمشق اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں اپنی فوجی شکست کا ازالہ کرنے کے درپے ہے۔
خبر کا کوڈ : 708882
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش