0
Thursday 8 Mar 2018 00:52

یہودی لابی آئی پیک کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت کا اعلان

یہودی لابی آئی پیک کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت کا اعلان
تحریر: علی اکبری

حال ہی میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں یہودی لابی آئی پیک (AIPAC: American Israel Public Affairs Committee) کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی خطاب کیا اور ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے۔ دوسری طرف اس لابی میں شامل یہودی رہنماوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات بڑھانے اور ان کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ میں یہودی تنظیموں کی یونین کے صدر اسٹیفن گرینبرگ نے اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے حکام کی ہر ممکن حمایت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقات کر چکے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان ممالک کے حکام بڑے دل کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرعزم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب کو شہزادہ محمد بن سلمان کی مطلوبہ اصلاحات کی حمایت کرنی چاہئے۔

اسی طرح غاصب صہیونی رژیم کے وزیر تعلیم اور یہودیوں سے متعلق امور کے سربراہ نافتلی بینیٹ نے آئی پیک کے اجلاس میں یہ دعوی کیا کہ اسرائیل روز بروز اپنے دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ نافتلی بینیٹ بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں صہیونی کابینہ کے شدت پسند دائیں بازو کی جماعت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: "ہمیں دوسرے ممالک کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔" غاصب صہیونی رژیم کے سابق نائب وزیر خارجہ ڈینی ایولون نے بھی اس اجلاس میں تقریر کرنے کے بعد الجزیرہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "میرے سعودی حکام سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور اسرائیل بحرین اور سعودی عرب جیسی خلیج عرب ریاستوں سے بہت زیادہ مشترکہ امور کا حامل ہے خاص طور پر یہ کہ ہمیں خطے میں ایران کے روز بروز بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ایران ہماری مشترکہ دشمن ہے۔"

صہیونی رژیم اسرائیل کی لیبر پارٹی کے سربراہ ایوی گیبی نے بھی آئی پیک اجلاس سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک سویلین فلسطینی حکومت کا قیام عمل میں لائے۔ ایوی گیبی جو خود کو آئندہ اسرائیلی وزیراعظم کیلئے ہونے والے الیکشن میں شرکت کیلئے تیار کر رہے ہیں، نے مزید کہا: "فلسطینیوں کو اسرائیل کی جانب سے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کی اجازت دینے کیلئے چند شرطیں پوری کرنا پڑیں گی۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ فلسطینی حکام اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے اہلخانہ کی مالی امداد بند کر دیں۔" یاد رہے اسرائیلی جیلوں میں قید افراد وہ ہیں جنہوں نے غاصب صہیونی رژیم کے قبضے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ فلسطینیوں کی جانب سے اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 6 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ ایوی گیبی جس نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ 1964ء میں مراکش سے اسرائیل نقل مکانی کی، نے نفرت انگیز انداز میں فلسطینی قیدیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا۔

ایوی گیبی نے اپنے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے کہا: "میرے والدین اس خاطر مراکش سے یہاں آئے تاکہ ایسے ملک کی بجائے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس ملک میں زندگی بسر کریں جہاں اکثریت یہودی شہریوں پر مشتمل ہے۔ لہذا ہمیں ہر حال میں یہودی شہریوں کی عددی برتری کو برقرار رکھنا ہو گا۔" انہوں نے مزید کہا: "ہم صرف مشرق وسطی کا حصہ ہی نہیں بلکہ ہمیں مشرق وسطی میں لیڈنگ رول ادا کرنا ہے۔" انسانی حقوق کی تنظیموں کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق مغربی کنارے میں 6 لاکھ یہودی غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ یہ افراد 1967ء کی جنگ کے بعد اس خطے میں آئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 709850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش