0
Thursday 8 Mar 2018 03:35

یمن جنگ اور عرب امارات کی بالادستی کا خواب

یمن جنگ اور عرب امارات کی بالادستی کا خواب
تحریر: آئی اے خان

یمن جنگ کے مقاصد کبھی بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ تاہم طویل عرصے سے جاری اس بے نتیجہ جنگ میں سعودی عرب کا حاصل محض اتنا ہے کہ یمن سرحد سے ملحقہ اس کے علاقے غیر محفوظ ہوچکے ہیں اور ان علاقوں کی یمنی قبائل سے حفاظت کیلئے اسے بیرونی فوجی دستوں کی مدد درکار ہے۔ انہی علاقوں میں اس جنگ کے خلاف اب آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو کہ عوامی مظاہروں کی صورت اختیار کررہی ہیں اور ان آوازوں کو دبانے کیلئے سکیورٹی کے نام پہ داخلی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ یمن جنگ میں ہونے والے تمام تر جانی و مالی نقصان کا الزام تو سعودی عرب کے سر ہے تاہم اس جنگ کے ذریعے سعودی عرب تاحال اپنا ایک بھی مقصد حاصل نہیں کرپایا۔ نہ ہی منصور ہادی حکومت کا دوبارہ قیام عمل میں آسکا ہے اور نہ ہی حوثی قبائل کو زیر کرکے انتظامی امور سے انہیں بیدخل کرسکا ہے۔ دوسری جانب اگر یمن، یمن کے عوام کے ہولناک جانی و مالی نقصان سے ہٹ کر اس جنگ میں سعودی نقصانات کا اندازہ کریں تو سب سے پہلے آل سعود خود تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں اور خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ یہ یمن جنگ کا ہی ثمر ہے کہ آل سعود کے وہ شہزادے جو پہلے ایک دوسرے پہ سبقت لینے کی لئے کوشاں تھے، آج ایک دوسرے کو زیر و زبر کرنے پہ اس طرح تلے ہیں کہ کئی شہزادوں کو اپنی ہی سرزمین پہ قید و بند و تشدد کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے یمن میں ہونے والے جانی بالخصوص معصوم بچوں کے قتل عام کو لیکر موجودہ سعودی رجیم کو پوری دنیا کیلئے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ یہ اسی تنقید کا ہی اثر ہے کہ سعودی حکومت سخت گیر مذہبی نظریات اور اپنے شدت پسندانہ چہرے پہ لبرل کا نقاب اوڑھنے پہ اس حد تک مجبور ہوچکی ہے کہ سعودی مفتی آج عبایا نہ لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

دوسری جانب سعودی عرب کا اہم حلیف متحدہ عرب امارات جس نے ایک طرف اس جنگ کے اثرات اور ردعمل سے خود کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور دوسری جانب یمن کے سٹریٹجک وسائل سے خوب استفادہ کرکے خطے پہ اپنی بالادستی کے خواب کو پروان چڑھانے کی تگ و دوکررہا ہے۔ عرب امارات نے یمن کے جنوبی ساحلوں اور جزیروں پہ نہ صرف اپنی عسکری سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے بلکہ یمن کے کئی اہم ترین جزیروں کو اپنے فوجی اڈوں میں بھی تبدیل کرلیا ہے۔ گزشتہ دنوں عرب میڈیا نے یمنی عہدیدار کے انکشاف کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا۔ جس میں اس عہدیدار نے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات دنیا کی اہم ترین گزرگاہ آبنائے باب المندب کے وسط میں واقع جزیرے میون کو ایک فوجی ہوائی اڈے میں تبدیل کر رہا ہے۔ یمنی عہدے دار نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ امریکا نے اس جزیرے پر ابوظہبی کے اس اقدام سے یمنی صدر منصور ہادی کو مطلع کیا ہے۔ ساتھ ہی امریکا نے ہادی حکومت کو جزیرہ میون کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر بھی دی ہیں، جن میں رن وے سمیت کئی تعمیراتی سرگرمیاں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ یمنی عہدے دارکا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی یہ خواہشات جزیرہ میون تک محدود نہیں، بلکہ وہ یمنی ساحلوں پر کئی اہم تزویراتی اہمیت کے مقامات پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، جن میں جزیرہ سقطری اور عدن، مکلا اور مخا کی بندرگاہیں شامل ہیں۔

جزیرہ میون بحیرہ قلزم اور خلیج عدن کے سنگم پر آبنائے باب المندب میں 13 مربع کلومیٹر کا چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اکتوبر 2015ء میں سعودی اتحاد نے شدید جنگ کے بعد اس جزیرے پر قبضہ کیا تھا۔ اس جزیرے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ایک طرف براعظم ایشیاء اور دوسری طرف افریقہ ہے۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان نہر سوئس اور بحیرہ قلزم سے گزرنے والے تمام جنگی اور تجارتی بحری جہاز اس جزیرے کے قریب سے گزرتے ہیں۔ اس سے قبل منصور ہادی کے پریس سیکرٹری مختار رحبی نے انکشاف کیا تھا کہ بحر ہند کا اہم جزیرہ سقطری اس وقت انتظامی طور پر متحدہ عرب امارات کے قبضے میں جا چکا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹ میں مختار رحبی کا کہنا تھا کہ ملک کے ایک اہم عہدے دار نے انہیں بتایا ہے کہ وہ حال ہی میں جزیرہ سقطری گئے اور وہاں جا کر جیسے ہی انہوں نے اپنا موبائل آن کیا، تو انہیں کمپنی کی جانب سے یہ پیغام موصول ہوا: متحدہ عرب امارات میں خوش آمدید۔ رحبی نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ سقطری کب سے امارات میں شامل ہوگیا۔ رحبی نے اپنی پوسٹ میں جزیرہ میون میں فوجی ہوائی اڈے کے قیام کا بھی ذکر کیا اور لکھا کہ اس حوالے سے یمنی حکومت کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ جزیرہ سقطری سے متعلق ’’فوکس آن مڈل ایسٹ‘‘ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سقطری جزیرہ در حقیقت چھ چھوٹے چھوٹے جزیروں کے مجموعے پر مشتمل بحر ہند کے قریب بحیرہ عرب میں واقعہ ایک ایسا یمنی جزیرہ ہے کہ جو مشرق سے ہار آف افریقہ کے ساحلوں سے 240 کلو میٹر تو جزیرہ نمائے عرب کے جنوب سے کوئی 300 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ 2008ء میں اس جزیرے کو یونسکو نے دنیا کے منفرد اور غیر معمولی خاصیتوں کے حامل جزیروں میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ جزیرہ ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کے اعتبار سے جزیر العرب کے اہم ترین جزیروں میں سے ایک شمار ہوتا ہے کہ جس کا رقبہ تقریبا 3796 کلو میٹر ہے۔ اس جزیرے کی جغرافیائی انتہائی اہم پوزیشن نے اسے ایک خاص مقام دیا ہے۔ ماضی سے لیکر اب تک اس جزیرے کو لیکر علاقائی و عالمی طاقتوں کے درمیان اس پر قبضے یا اثر ورسوخ کے لئے کشمکش رہی ہے جو اسے اپنی عسکری و اقتصادی اسٹرٹیجک گیرائی کے طور پر دیکھتے ہیں رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ خلیج عدن کے آخر میں واقع ہے تو دوسری جانب ہار آف افریقہ کے گذرگاہ تو تیسری جانب مغرب کی سمت سے بحرہند کی عالمی تجارتی گذرگاہ پر واقع ہے۔

اس جزیرے سے متعلق تاریخی کتابوں اور ویکیپیڈیا کے مطابق ماضی میں اس جزیرے پر یونانیوں، فرعونوں کے ساتھ ساتھ فارس کی بادشاہتوں،رومیوں اور پرتگالیوں کا بھی مختلف ادوار میں قبضہ رہا ہے جبکہ 1967ء میں برطانیہ نے اس پر قبضہ جمایا ہوا تھا اور سرد جنگ کے دوران جنوبی یمن کے صودیت یونین بلاک میں ہونے کے سبب روس نے بھی اس جزیرے میں اپنا فوجی اڈہ قائم کیا تھا۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ نے بھی بحری قزاقوں سے مقابلے کے بہانے اس جزیرے میں ایک عرصے تک اپنا فوجی اڈہ قائم کررکھا تھا۔ 2010ء میں امریکی جرنیل جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے اس وقت کے یمنی صدر علی عبداللہ صالح سے اس جزیرے پر امریکی واپسی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ متحدہ عرب امارات نے اس جزیرے پر قبضے کے لئے خیراتی، فلاحی اور کاروباری راستہ اپنایا کہ جس نے 2015ء میں یہاں آنے والے ایک طوفان کے بعد امدادی و فلاحی کاموں کے بہانے اس جزیرے پر اپنی رفت و آمد شروع کی جبکہ اس کے طیارے پورے یمن میں مسلسل آگ اور خون کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ امارات نے یمن کے اس جزیرے پر اپنی آمد و رفت اور بظاہر شروع کئے ہوئے فلاحی اور خیراتی کاموں کے لئے اس حکومت سے بھی اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 2016ء میں بعض میڈیا ہاوسز نے انکشاف کیا کہ یمن کے خود ساختہ وزیراعظم خالد بحاح اور امارات کے درمیان انجام پانے والے ایک معاہدے میں اس اہم ترین جزیرے کو 99 سال کے لئے امارات کو کرایے پر دیا گیا ہے کہ جس کی خود ساختہ صدر منصور ہادی کی جانب سے نفی کی گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ اس وقت یمن کے اس جزیرے میں مکمل طور پر امارات کا کنٹرول ہے، جہاں خود اہل یمن بھی ان کی جازت کے بغیر رفت و آمد نہیں کرسکتے۔ جزیرے کا ائرپورٹ سے لیکر پورٹ تک متحدہ امارات سے لائے گئے افراد کنٹرول کرتے ہیں جبکہ مقامی سطح پر جوانوں کی بھرتیوں سے ایک نئی فورس بنائی جارہی ہے۔ انٹیلی جنس آن لائن اور میڈل ایسٹ آئی کے مطابق امارات یہاں پراہم عسکری تنصیبات کے ساتھ ساتھ ایک فوجی اڈہ قائم کررہا ہے۔ یمن کی عوام اور ذمہ دار افراد اماراتی ان اقدامات کو قبضے سے تعبیر کرتے ہوئے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ سقطری سمیت دیگر جزیروں امارات اور سعودی عرب کو چلے جانا چاہیے یہاں تک یمن پر سعودی جارحیت کے حامی یمنیوں کا کہنا ہے کہ ہماری مدد کے بہانے سے آنے والے ہمیں لوٹ رہے ہیں اور ہم پر قبضہ کررہے ہیں۔ گذشتہ ماہ فروری 2018ء یمن کی سعودی حمایت یافتہ خودساختہ پارلیمان نے متفقہ طور پر ایک قرارداد پاس کی اور اس میں صدر منصور ہادی کی جانب سے انجام دیے گئے تمام معاہدوں کو کالعدم قرار دیا گیا اور متحدہ عرب امارات سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فورا سقطری جزیرے پر اپنا قبضہ ختم کردے۔

یمن کے جنوبی حصے پہ عرب امارات کے بڑھتے عسکری اثرورسوخ نے خطے کے دیگر ممالک کی تشویش میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ایک جانب عمان اس علاقے میں ابوظہبی حکومت کی عسکری سرگرمیوں پہ اپنی شدید تشویش کا اظہار کررہا ہے تو دوسری جانب یمن کی خودساختہ حکومت کے عہدیداروں نے بھی یواے ای کے اس عمل پہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ حوثی قبائل جو کہ اس وقت یمن کا سب سے بااثر دھڑا ہے وہ اعلانیہ یو اے ای اور سعودی عرب سے حالت جنگ میں ہے۔ عمان کا موقف ہے کہ ان جزائر پہ عمان کے قبائل طویل مدت سے آباد ہیں جو کہ طویل تاریخ کے حامل ہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ اس جزیرے پہ عمان کے امدادی سامان سے لدے طیاروں کو بھی اترنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یمن جنگ پہ نظر رکھنے والے عرب ادارے نے اپنی رپورٹ کے اختتامیہ میں لکھا ہے کہ یمن پہ حملہ آور اتحاد کی سرخیل سعودی حکومت اس لحاظ سے غفلت کا شکار ہے کہ اسے یمن جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ مسلسل خسارے کا سامنا ہے کہ جب کہ یواے ای نے ایک ایسے وقت میں جب اس جنگ نتائج سمیٹنے تھے، سعودی حکومت کی تمام تر توجہ قطر کی جانب مبذول کرادی ہے اور خود جنوبی یمن کا بلاشرکت غیرے حکمران بن بیٹھا ہے۔ مصر جو سعودی اتحاد کا اہم حصہ ہے وہ بھی داخلی بحرانوں کی زد میں ہے۔ سعودی نوجوان ولی عہد سلمان کو اندازہ ہی نہیں کہ کیسے سعودی عرب کے وسائل پہ لڑی گئی جنگ کے نتائج کسی اور نے سمیٹ لیے ہیں حالانکہ اس جنگ میں سعودی عرب نے شدید نقصان اٹھایا ہے جبکہ یوا ے ای نے صرف فائدہ وصول کیا ہے۔ عرب تجزیاتی اداروں کے یمن پہ حملہ آور اتحاد بارے یہ تجزیے آنے والے وقت میں اس اتحاد کی ٹوٹ پھوٹ کے اشارے دے رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ ظلم و غصب کی بنیاد پہ قائم الحاق کا انجام ہمیشہ نفاق و شکست پہ ہی منہتج ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 709860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش