2
0
Thursday 8 Mar 2018 07:26

چین کا فوجی اڈہ گوادر میں نہیں جیوانی میں قائم ہوگا

چین کا فوجی اڈہ گوادر میں نہیں جیوانی میں قائم ہوگا
تحریر و ترتیب: آئی اے خان

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دسمبر2017ء میں چینی فوج کے ایک گروپ نے بلوچستان میں شہر گوادر سے اسّی کلو میٹر دور واقع ایک قصبہ اور بندرگاہ جیوانی کا دورہ کیا۔ جیوانی سے صرف چونتیس کلو میٹر دور ایران کی سرحد واقع ہے۔ رپورٹس کے مطابق چین کے فوجی افسر یہ جائزہ لینے آئے تھے کہ کیا جیوانی میں ایک بحری و فضائی فوجی اڈہ قائم کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر جیوانی کو دیکھا بھالا اور فیصلہ کیا کہ چینی بحری و فضائی افواج یہاں اپنا عسکری اڈہ قائم کر سکتی ہیں۔ چناںچہ چین کی حکومت باقاعدہ طور پر پاکستانی حکومت سے یہ درخواست کر چکی ہے کہ اسے جیوانی میں بحری و فضائی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ اگر یہ درخواست منظور ہوگئی، تو بیرون ممالک میں جبوتی کے بعد جیوانی افواج چین کا دوسرا بیرونی فوجی اڈہ بن جائے گا۔ امریکہ کی مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹرز پینٹاگون سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنی عسکری صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پر وسعت دینے پر عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کے اندر فوجی اڈہ قائم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ 97 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ امریکی کانگریس کو پیش کی گئی ہے۔ دوسری جانب چین نے نئے برس کے آغاز میں پینٹاگون کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین ایسے کسی منصوبے کا حصہ نہیں ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کو چینی عسکری ترقی کو منطقی زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔

چین کی بیشتر بیرونی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ چینی حکومت کو خطرہ ہے کہ مستقبل میں امریکہ، تائیوان اور ان کے اتحادی بحرالکاہل میں موجود بحری راستوں کی ناکا بندی کرسکتے ہیں۔ اسی لیے چین ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے ذریعے متبادل ارضی و بحری راستے کھوج رہا ہے۔ پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ بھی ون بیلٹ ون روڈ کا ایک اہم ذیلی پروجیکٹ ہے۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے چین گوادر کو اپنی بیرونی تجارت کا اہم مرکز بنانا چاہتا ہے۔ گوادر خلیج فارس اور خلیج عدن کے قریب واقع ہے۔ بحر ہند میں واقع یہ دونوں سمندر اہم عالمی بحری تجارتی راستوں کی گزرگاہوں میں آتے ہیں۔ اسی لیے چین گوادر کو ترقی دے رہا ہے تاکہ وہ ایک بڑی سول بندرگاہ بنا سکے اور وہاں دیوہیکل تجارتی بحری جہاز لنگر انداز ہوسکیں۔ خیال ہے کہ 2025ء تک گوادر میں بڑی تعداد میں چینی باشندے آباد ہوں گے لیکن گوادر ایک سول بندرگاہ ہے، لہٰذا ممکن ہے چین کی حکومت اب جیوانی میں فوجی اڈہ تعمیر کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ خلیج فارس اور خلیج عدن ہی نہیں بحر ہند کے بڑے حصے میں اپنے بحری جہازوں اور گوادر میں اپنی قیمتی تنصیبات کی حفاظت کر سکے۔ اسی غرض سے چین بہ سرعت اپنی بحری فوج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہا ہے تاکہ اسے ’’بلیو نیوی‘‘میں ڈھال سکے، یعنی اسے ایسی بحری قوت بنا دے جو دنیا کی بڑے حصے تک رسائی اور مار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس ضمن میں جیوانی ایک اہم فوجی اڈہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جیوانی جغرافیائی لحاظ سے اہم مقام پر واقع ہے۔ اس کے نزدیک ہی خلیج فارس کا تجارتی راستہ موجود ہے۔ مذید براں قریب ہی ایران کی بندرگاہیں، چہ بہار اور پسابندر آباد ہیں۔ جیوانی میں پاک بحریہ نے اپنا چھوٹا سا اڈہ بنا رکھا ہے۔ نیز دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا ہوائی اڈہ بھی موجود ہے۔ چینی حکومت ان عسکری تنصیبات کا دائرہ کار پھیلانا چاہتی ہے تاکہ وہاں دیوہیکل بحری جنگی جہاز اور لڑاکا ہوائی طیارے رکھے جا سکیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حکومت پاکستان چین کی درخواست پر غور و فکر کررہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ چینی حکومت کو جیوانی میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اب اپنے روایتی اتحادی سپر پاور، امریکا کی حمایت سے محروم ہو چکا۔ یہی نہیں، اپنے مفادات کے تحت امریکی حکمران پاکستان کے دشمن بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اس بدلتی صورت حال میں پاکستان کے پاس صرف یہی راستہ بچا ہے کہ وہ ابھرتی سپرپاور چین سے تعلقات بڑھانے لگے۔

تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ماضی میں جب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا، تو اس کا بظاہر اتحادی، امریکا اسے دغا دے گیا۔ گویا یہ عالمی طاقت بااعتماد دوست ثابت نہیں ہوئی۔ امریکی حکمرانوں کے مقابلے میں چینی حکومت کا ریکارڈ بہتر ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں چین نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا اور اب سی پیک منصوبہ دونوں ممالک کو مزید قریب لے آیا ہے۔ یہ یقینی ہے کہ چین کی حمایت پاکر پاکستان جیسے چھوٹے ملک کے لیے آسان ہوگا کہ وہ خاص طور پر وہ اپنے طاقتور پڑوسی بھارت کے حکمرانوں کی بڑھتی جنگ جوئی اور استعمار پسندی کا مقابلہ کرسکے۔ پچھلے چالیس پینتالیس برس سے چینی حکومت کی پالیسی رہی ہے کہ ملکی و غیر ملکی تنازعات سے پہلو بچا کر معیشت کو ترقی دی جائے۔ یہ پالیسی انتہائی کامیاب رہی اور آج چین کا شمار دنیا کی بڑی معاشی قوتوں میں ہوتا ہے۔ مگر خصوصاً امریکی حکمران طبقہ چین کے بڑھتے اثرور رسوخ سے بہت خائف ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتاکہ دنیا کی قیادت وسیادت کا تاج مغرب کے سر سے اتار کر چین کے سر یہ جمادیا جائے۔ اس لیے امریکا اپنا عالمی اثرو رسوخ بچانے اور چین کو نقصان پہنچانے کی خاطر مختلف خفیہ و عیاں اقدامات کررہا ہے۔ چینی حکومت کو بھی ان سازشوں کا علم ہے لہٰذا وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر سرگرم عمل ہوچکی ہے۔ چین کا ایک اہم مفاد یہ ہے کہ وہ سمندروں اور خشکی پر بھی اپنے تجارتی راستوں کی حفاظت کرے اور انہیں کسی صورت بند نہ ہونے دے۔ مثلاً تجارتی راستوں کی بندش سے چین کو ایک ہفتہ بھی تیل نہ ملے تو مملکت میں سنگین بحران جنم لے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے، ان راستوں پر آمدورفت یقینی بنانے کی خاطر چین بحر ہند میں سول و عسکری اڈے قائم کر رہا ہے۔

چین نے قرن افریقہ (Horn of Africa) میں واقع مسلمان ملک، جبوتی میں اپنا پہلا عسکری اڈہ قائم کیا۔ یہ اگست 2017ء سے کام کررہا ہے۔ یہ اڈہ نصف مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کی رو سے وہاں تین سو چینی فوجی تعینات ہیں۔ یہ بنیادی طور پر چینی بحریہ کا اڈہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ خلیج عدن آنے جانے والے چینی تجارتی بحری جہازوں کی حفاظت کی جاسکے۔ سری لنکا کے قصبے، ہمبانتوتا میں بھی چین ایک بندر گاہ تعمیر کررہا ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا۔ یہ ایک سول بندرگاہ ہے جسے سری لنکن حکومت ننانوے برس کے لیے چین کو لیز پر دے چکی۔ 2014ء میں اس بندرگاہ پر ایک چینی آبدوز نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ اس پر بھارتی حکومت نے شور مچادیا کہ چین ہمبانتوتا کو اپنا عسکری اڈہ بھی بنانا چاہتا ہے۔ بحر ہند میں چین کی بڑھتی تجارتی و عسکری سرگرمیوں سے بھارتی حکمران طبقے کو بہت تشویش لاحق ہے۔ بھارت بحر ہند کو اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے۔ اور نہیں چاہتا کہ وہاں کوئی بیرونی طاقت قدم جمالے۔ اسی لیے بھارت کی نگاہوں میں ہمبانتوتا کی چینی بندرگاہ کانٹا بن کر کھٹکتی ہے۔ سی پیک منصوبے میں بھی گوادر بندرگاہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا بھارت اس چینی پروجیکٹ کا مخالف ہے۔ اب اگر چین نے جیوانی میں عسکری اڈہ بنالیا، تو بھارتی حکمرانوں کے سینوں میں سانپ لوٹنے لگیں گے۔بھارتی اور مغربی میڈیا یہ مسلسل پروپیگنڈا کررہا ہے کہ سی پیک منصوبے کی وساطت سے چین پاکستان کے وسائل پر قبضہ کرکے اسے اپنا غلام بنالینا چاہتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستانی عوام خصوصاً بلوچستان میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ سی پیک منصوبہ عام لوگوں کے لیے مفید نہیں اور یہ کہ اس سے طویل المعیاد طور پر پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔ ظاہر ہے،چین اپنے مفادات رکھتا ہے، اس نے ازراہِ ترحم سی پیک منصوبہ تشکیل نہیں دیا۔ یہ حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ بسلسلہ اس منصوبے کے، چین سے مذاکرات کرتے ہوئے ایسی شرائط یا امور تسلیم نہ کرے جو مستقبل میں ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو جائیں۔

سی پیک منصوبہ بہرحال پاکستان کے لیے کئی فوائد رکھتا ہے۔ اب جیوانی میں چین کے عسکری اڈے کا معاملہ ہی دیکھئے۔ اگر چین پاکستان میں اپنے سول و عسکری اڈے قائم کر لیتا ہے تو قدرتاً دفاع پاکستان کی ذمے داری میں چینی افواج بھی شامل ہوجائیں گی۔ ایسی صورتحال میں بھارت بلکہ امریکی سپرپاور کے لیے بھی آسان نہیں رہے گا کہ وہ پاکستان کو اپنے مفادات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکے۔ گویا پاکستان کا مفاد اس بات میں ہے کہ وہ چین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تجارتی و عسکری روابط بڑھائے تاکہ مستقبل کی سپرپاور اس کی قریبی ساتھی بن سکے۔ یہ روابط پاکستان کے مضبوط دفاع کی ضمانت بن جائیں گے۔ ظاہر ہے، چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات میں پاکستان کو اپنی معاشی، تہذیبی اور ثقافتی مفادات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ فی الحال پاکستان اور عالم اسلام کے بہت سے ممالک مغربی و امریکی تہذیب و تمدن کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ چین کا بڑھتا اثرو رسوخ خصوصاً پاکستان میں چینی تہذیب و تمدن کے اثرات پھیلا سکتا ہے۔ تاہم امریکا و یورپی طاقتوں اور چین کے مابین بڑا فرق ہے کہ آخر الذکر ملک استعماری طاقت کی حیثیت سے شہرت نہیں رکھتا۔ ماضی میں چینی حکمرانوں نے کبھی کسی ملک پر اس غرض سے حملہ نہیں کیا کہ اسے اپنی نوآبادی بنا لیں۔ خاص طور پہ موجودہ چینی حکومت یہ عزائم نہیں رکھتی کہ اپنا تہذیب و تمدن غیر ممالک میں پھیلا کر انہیں اپنے حلقہ اثر میں لایا جائے۔ بیرون ممالک چینی حکومت کی توجہ کا مرکز معیشت و تجارت میں اضافے اور اپنے معاشی و تجارتی مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ گوادر اور جیوانی کی غیر معمولی جغرافیائی پوزیشن دونوں کو اہم بندرگاہیں بنا دیتی ہے۔ یہ دونوں پاکستانی مقامات چین، روس، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقا کے سنگم پر واقع ہیں۔ گویا چین ان دونوں بندرگاہوں میں اپنے اڈے قائم کرکے بیک وقت کئی خطّوں سے تعلق و رشتہ استوار کر سکتا ہے۔ اسی لیے چینی حکومت ان پاکستانی بندرگاہوں کی جانب متوجہ ہوئی اور وہاں اپنے مراکز تعمیر کرنے کی خواہش مند ہے۔

دور حاضر میں عالمی قوتیں ایک ہی بندرگاہ میں سول اور عسکری اڈے بنانا پسند نہیں کرتیں۔ وجہ یہی کہ اس طرح وہ دشمنوں کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔ یوں دشمن ایک ہی حملے میں دو اہداف کو باآسانی نشانہ بنانے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے۔ اسی لیے اب ساحلوں پر الگ الگ سول و عسکری اڈے بنانے کا رواج چل نکلا ہے۔ اسی چلن کو مدنظر رکھ کر چین گوادر کے بجائے جیوانی میں فضائی و بحری عسکری اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان چین کو سول و عسکری اڈے دیتے ہوئے معاہدوں میں قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنائے اور انہیں اس طرح تشکیل دے کہ طویل المدتی لحاظ سے ملک و قوم کو معاشی و دفاعی طور پر فائدہ ہوسکے۔چین نے حال ہی میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستوں کی متشددانہ سرگرمیوں میں کمی آئی ہے۔ تاہم بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی یہی کوشش ہے کہ سی پیک منصوبہ ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں دہشت گردی کرائی جائے۔ لہٰذا وہ آنے والے وقت میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے سکتی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ایک مضبوط و مستحکم حکومت وجود میں آئے تاکہ وہ چین کے ساتھ عاقلانہ انداز میں سول و عسکری اڈوں کے سلسلے میں گفت و شنید کرسکے۔ ایسی حکومت اسی وقت سامنے آسکتی ہے جب پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو اور ایسے حکمران سامنے آئیں جو کرپشن اور ذاتی مفادات کی تکمیل نہیں اصول و قوانین پر عمل کرتے ہوں۔ قانون کی حکمرانی حقیقتاً خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کو جنم دینے کا پیغام اور نوید مسّرت ہے۔
خبر کا کوڈ : 709862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

she hayat
good
she hayat
we want good relation with China .because china is a good friend.
ہماری پیشکش