0
Friday 9 Mar 2018 11:23

اداروں کا ٹکراؤ اور ہارس ٹریڈنگ کا منفی رجحان

اداروں کا ٹکراؤ اور ہارس ٹریڈنگ کا منفی رجحان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات عائد کرنے والے متعدد پارٹیوں کے لیڈروں کو 14 مارچ کو پیش ہونے کے نوٹس جاری کیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ وہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے ثبوت بھی ساتھ لے کر آئیں۔ ان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی شامل ہیں اور حکمران مسلم لیگ نون کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی، جو تقریباً ہر بیان میں عمران خان کو جھوٹا قرار دیتی ہیں، لیکن سینیٹ کے انتخاب میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزام کے حوالے سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔ عمران خان کافی دن پہلے سے کہہ رہے تھے کہ سینیٹ کے انتخاب کے لیے سودے بازی ہو رہی ہے۔ انہوں نے انتخاب کے بعد اپنی پارٹی کے ایسے ارکان کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر ووٹ فروخت کیے۔ الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی کے کسی رکن کو نوٹس جاری نہیں کیا، تاہم پیپلز پارٹی پر بالعموم بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی۔ حکمران نون لیگ کے قائد نواز شریف نے ہارس ٹریڈنگ کا الزام تو عائد نہیں کیا، البتہ اسے مسترد بھی نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر سینیٹ کے انتخاب میں پیسہ چلا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سینیٹ کے الیکشن ہو چکے ہیں، لیکن ان الیکشن کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈر شپ ہی یہ الزامات عائد کر رہی ہے کہ ایم پی اے اور ایم این اے حضرات فروخت ہوئے ہیں، پہلے اس قسم کے الزامات غیرسیاسی حلقے ضرور لگاتے تھے یا سیاست میں موجود وہ چھوٹے چھوٹے گروپ الزامات لگاتے تھے جو خود الیکشن جیتنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن اس بار ٹاپ سیاسی لیڈر شپ نے بھی ایسے الزامات عائد کیے ہیں، اب سمجھ نہیں آتی کہ اس قسم کے الزامات سے جمہوریت کی خدمت ہوئی ہے یا جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے۔ منتخب ایوانوں کی بالادستی، ووٹ کے تقدس اور جمہوریت کے استحکام کی جس شدومد سے باتیں ہورہی ہیں اس کے پیش نظر سینیٹ کے انتخابات مثالی جمہوری اسپرٹ اور پیسے کے لین دین سے پاک جمہوری کلچر کی طرف مراجعت کی ایک اعلیٰ نظیر پیش کرتے تو عوام یقیناً اسے اداروں کے مابین ممکنہ ہم آہنگی اور افہام وتفہیم کی سمت ایک بریک تھرو قراردیتے، مگر سیاسی محاذ آرائی نے جہاں سینیٹ کے شفاف انتخابی عمل کو گہنا دیا، وہاں اس سے ان اداروں تک منفی پیغام بھی چلا گیا، جن کے خلاف بلاجواز سیاسی طوفان اٹھایا جارہا ہے، جب کہ عدلیہ سمیت دیگر مقتدر اداروں، سویلین بالادستی اور جمہور کی بے داغ و ناگزیر حکمرانی کے دعوے بھی شرمندگی اور خجالت سے لتھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

موجودہ سیاسی سسٹم صحت مند تبدیلی اور ارتقا وبقا کا متقاضی ہے، وفاقی و صوبائی حکومتوں کے لیے کڑا وقت ابھی آنے والا ہے جہاں سیاسی استقامت، دیانتداری، جمہوری عمل کے تسلسل اور شفاف حکمرانی سمیت جمہوری قدروں پر مبنی سیاسی اخلاقیات کو ایک دریا کے پار اترنے کی آزمائش کا سامنا ہو گا، دوسری اندوہناک حقیقت سیاست دانوں کی ستیزہ کاری اور بلاجواز لڑائی جھگڑے ہیں، جن میں وہ اپنی کمزوریوں اور دشنام طرازی کے باعث یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ سرمایہ داروں کو ٹکٹ بھی دیتے ہیں اور پھر کروڑوں کی رشوت دے کر سینیٹر بن جانے کا شور بھی مچاتے ہیں، سینیٹ میں تاجرانہ اور کاروباری کلچر سیاسی پولیرائزیشن کا ہی نتیجہ ہے۔ اتنی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی، مثلاً پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ شرمناک ہارس ٹریڈنگ ہوئی، نمایندے بکتے دیکھے، ضمیروں کی ایسی تجارت دنیا میں کہیں نہیں دیکھی، جہاں تک سیاسی جوڑ،توڑ اور چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کی باتیں اور رابطے ہیں تو یہ عمل جمہوری عمل کا حصہ ہے، دوسری جانب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر ضمیر فروشی، ووٹوں کی خرید وفروخت کے شرمناک الزامات یہ جانے بغیر لگا رہی ہیں کہ سیاست میں کارکن اظہار رائے کی آزادی کا حق بھی رکھتے ہیں، ان کی فرسٹریشن،ذات برادری، سیاسی کنکشن سے ماورا ترجیحات پورے ملکی سیاسی نظام سے پیوست حقیقتیں ہیں، اگر انتخابی اصلاحات متعارف ہوجاتیں تو کوئی یہ شکایت نہ کرتا کہ ارکان کی وفاداریاں خریدی گئیں۔

کسی سیاسی جماعت کو اپنے بے وفا امیداواروں کی سرگرمی سے تلاش کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی، مگر آج سینیٹ کے پوسٹ انتخابی سیناریو میں سیاسی نقب زنی کے طعنے ہیں اور وہ بھی عذر جفا کے ساتھ، المیہ یہ ہے کہ ووٹوں کی خریداری کی سنگین الزامات تراشی میں سیاست دان خود شامل رہے ہیں، پیسے کا لین دین ہوا بھی ہے تو کوئی غیر اس گناہ بے لذت میں شریک نہیں، ساری روسیاہی کا عمل سیاست دانوں کی اپنی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا، یوں شفاف انتخابی عمل کی پیش رفت کے بجائے قوم سینیٹ الیکشن پر گرد اڑانے اور سیاسی و جمہوری عمل کو گندا کرنے کا باعث بننے والوں کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ ملکی جمہوریت کے نکتہ عروج اور اس کی توقیر کا حوالہ نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی کردار کشی میں پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے، بعض کامیاب امیدواروں کے مطالبات، اعتراضات اور تجاویز کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان سے آزادسینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ماضی میں بلوچستان کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنتا رہا، اس مرتبہ چیئرمین بننا چاہیے، سپریم کورٹ نے مبینہ طور پر دہری شہریت رکھنے والے 4 نو منتخب سینیٹرز چوہدری محمد سرور، ہارون اختر، نزہت صادق اور سعدیہ عباسی کا نوٹیفکیشن روک دیا، دہری شہریت کے حوالے سے اٹارنی جنرل آفس کے سپریم کورٹ میں دیے گئے بیان پر تحریک انصاف کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے نومنتخب سینیٹر چوہدری محمد سرور 2013ء میں اپنی برطانیہ کی شہریت ترک کرچکے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا بیان سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے، نون لیگ کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں حکمراں جماعت اور اتحادیوں میں یکجہتی برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے گی، جب کہ مسلم لیگ نون کے رمیش کمار نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام جماعتیں سینیٹ انتخابات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں، ادھر یہ چہ مگوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ اگر چیئرمین سینیٹ کے لیے ڈیڈلاک پیدا ہوا اور اس صورتحال میں کوئی سپریم کورٹ چلاگیا تو ہوسکتاہے وہیں سے اس کا حل نکلے۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے جمہوریت کو چلنے دیا تو وہ ٹھیک ہوگی۔ جمہوریت بلاشبہ کوشش و لغزش ٹرائل اینڈ ایرر کا کھیل ہے، تسلسل نہ توڑا جائے تو ملکی سیاست جمہوری عمل میں مضمر خرابیوں پر رفتہ رفتہ قابو پاسکے گی۔ سینیٹ الیکشن اہل سیاست کے لیے چشم کشا تجربہ ہیں، سینیٹرز کو اپنے شفاف جمہوری رویے کی نشونما کے لیے زمینی حقائق پر نظر رکھنی چاہیے، جو سقم سینیٹ الیکشن میں اجاگر ہوئے ہیں ان پر ملک کی تین بڑی پارٹیوں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو سوچنا ہوگا کہ وہ کس قسم کا جمہوری کلچر ملک کو دے رہے ہیں ۔

ملک کی سیاسی صورت حال خاصی پیچیدہ نظر آ رہی ہے۔ ادھر انتظامی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے امور مملکت ایک جگہ جامد ہو چکے ہیں۔ ایک جانب اعلیٰ عدلیہ میں مختلف کیسز چل رہے ہیں، سینیٹ میں ہونے والی تقاریر ہیں، دوسری جانب نیب کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر مسلسل الزام تراشی کر رہی ہیں اور سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارتی فورسز کی جانب سے مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں، عالمی سطح پر بھی بعض ایسی تبدیلیاں اور صف بندیاں ہو رہی ہیں، جو پاکستان کے لیے قابل توجہ ہونی چاہئیں۔ بھارت کے امریکا کے ساتھ تعلقات گو ایک طرح سے اسٹرٹیجک اتحاد کی صورت اختیار کر چکے ہیں لیکن بھارت مشرق وسطیٰ میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہت گہرے ہو چکے ہیں۔ اس پیچیدہ اور مبہم صورت حال کا جاری رہنا ملک اور جمہوریت کے لیے کسی طور خوش آیند نہیں ہے، جہاں اداروں کو بھی سوچنا چاہیے وہاں سیاسی قیادت کی ذمے داری کہیں زیادہ ہے۔ جمہوریت کے لیے فہم و فراست، دور اندیشی اور تدبر لازمی چیز ہے، سیاست ان اوصاف سے خالی ہو گی تو اس کا نتیجہ انتشار اور افتراق کی صورت میں ہی برآمد ہوگا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 710093
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش