0
Monday 12 Mar 2018 04:05

چین کا دوسرا ماوزئے تنگ

چین کا دوسرا ماوزئے تنگ
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

چینی پارلیمنٹ نے دوبار صدر بننے کی حد ختم کردی ہے جس کے بعد صدر ژی جن پنگ تاحیات صدر رہ سکیں گے۔ چینی آئین کے مطابق ایک شخص مسلسل دو بار ہی 5,5 برس کی مدت کے لیے صدر منتخب ہو سکتا تھا۔ لیکن اب چین کی نیشنل پیپلز کانگریس نے صدر بننے کی حد ختم کر دی ہے، جس کے بعد موجودہ صدر ژی جن پنگ چین کے تاحیات صدر رہ سکیں گے۔ پارلیمنٹ میں اس آئینی تجویز کی منظوری کی حمایت میں 2 ہزار 958 ووٹ اور مخالفت میں 2 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ یاد رہے کہ ژی جن پنگ کی صدارت کی پہلی مدت رواں برس ختم ہونے والی ہے، موجودہ نظام کے تحت صدر شی جن پنگ کی مدت صدارت 2023 کو ختم ہونا ہے۔ چین کے موجودہ صدر ژی جن پنگ کو جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ کے بعد ملک کا طاقتور ترین رہنما تصور کیا جا رہا ہے۔ چین میں ہزاروں قانون سازوں کی جانب سے چینی صدر شی جن پنگ کو تاحیات صدر بنانے کے عمل کو پرجوش انداز میں سراہا گیا ہے۔ چین کی ربر اسٹیمپ سمجھی جانے والی پارلیمان نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے سالانہ سیشن میں لوگوں سے بڑی تعداد میں ملاقات کی، جو ماؤ زی ڈونگ کے بعد شی جن پنگ کو سب سے طاقت ور رہنما بنانے میں کردار ادا کرے گی اور فوج، معیشت اور ریاست کو ایک فرد کے ہاتھ میں سمیٹنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔

اس حوالے سے دو مرتبہ صدارتی مدت کے خاتمے کے لیے چیمبر میں ایک ترمیم پیش کی گئی، جسے پرجوش انداز میں سراہا گیا۔ قانون سازوں کی جانب سے اس ترمیم کی منظوری دی گئی اور چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی قیادت نے نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے لیے ایک ایجنڈا تشکیل دیا۔ اس ایجنڈے کے متن میں کہا گیا کہ شی جن پنگ کے ساتھ سی سی پی کی سینٹرل کمیٹی اتھارٹی کی حفاظت اور متحد قیادت کے لیے موزوں ہوجائے گی اور اس سے قومی قیادت کے نظام کو تقویت ملے گی۔ خیال رہے کہ یہ ترمیم وزیر اعظم لی کی چیانگ کی جانب سے دی گئی رپورٹ کے بعد کی گئی، جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ ملک معاشی خطرات، غربت اور آلودگی کے تین اہم مسائل سے لڑ رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے 2018 میں معاشی ترقی کا ہدف 6.5 فیصد تک رکھا ہے جو 2017 کے 6.9 فیصد جی ڈی پی کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ 2 برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی مسلح افواج کی سست رفتاری ختم کرکے انہیں تقویت دینے کے لیے دفاعی بجٹ میں بھی 8.1 فیصد تک اضافہ کیا گیا اور اسے ایک کھرب 11 ارب یوآن یعنی (175 ارب ڈالر) تک پہنچا دیا گیا۔

رپورٹ میں تائیوان کے حوالے سے خبردار کیا گیا کہ چین کسی ایسے علیحدگی پسند منصوبوں کو برداشت نہیں کرے گا جو ان کی سرزمین اور خود مختار جزیروں کے درمیان کشیدگی کا باعث ہو۔ دوسری جانب سالانہ اجلاس میں شنگھائی سے آئے وفد کے رہنما ژاؤ فینگ نے کہا کہ میں شی جن پنگ کی حمایت کے ساتھ آئین میں تبدیلی کی بھی حمایت کرتا ہوں۔ اس بارے میں ہینان صوبے سے آئے ایک اور وفد نے کہا کہ شی جن پنگ اچھے ہیں، لیکن متعدد دیگر قانون سازوں کی جانب سے ترمیم کے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس حوالے سے کچھ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ یہ اقدام خطرے کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے قیادت کے لیے بنایا گیا اجتماعی ماڈل ختم ہوجائے گا۔ این پی سی کے ترجمان ژینگ یاسوئی کا کہنا تھا کہ یہ عمل کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور ملٹری کمیشن چیئرمین کے عہدے کو ٹھیک کریں گے، جس میں مدت کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس ترمیم میں کہا گیا کہ انتہائی نچلی سطح اور اقلیت، پارٹی ارکان اور مختلف خطوں کے انتظامی عملے کی جانب سے متفقہ طور پر مدت کے اختتام سے متعلق دوبارہ سوچنے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمان آئینی ترمیم پر ووٹ ڈال سکے گی، جس کے تحت شی جن پنگ کا نام ریاست کے آئین میں لکھا جائے گا اور ایک نئی قومی انسداد کرپشن ایجنسی بنائی جاسکے گی۔

چین میں سنہ 1990 کے بعد سے صدر کے عہدے کی میعاد مقرر ہے، تاہم صدر شی نے روایت کے برخلاف اکتوبر میں ہونے والے کمیونسٹ پارٹی کانگریس میں اپنے جانشین کا اعلان نہیں کیا۔ اس کی بجائے انھوں نے اپنی سیاسی قوت کو تقویت دینے پر توجہ مرکوز رکھی اور پارٹی نے ان کے نام اور سیاسی آئیڈیالوجی کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے ووٹ دیا۔ اس طرح شی جن پنگ کا مرتبہ پارٹی کے بانی ماؤ زے تنگ کے برابر ہو گیا ہے۔ فروری کے اواخر میں پارٹی نے چین کے آئین سے یہ حد ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ صدر شی کے عہدے کی مدت سنہ 2023 میں ختم ہو رہی ہے۔ کانگریس بظاہر چین کا سب سے طاقتور قانون ساز ادارہ ہے اور اس کی حیثیت دوسرے ملکوں کے پارلیمان کی طرح ہے لیکن عملی طور پر اسے ربر سٹامپ ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسے جو کہا جائے، وہ منظور کر دیتی ہے۔ 

مخالفین:
تاہم شی جن پنگ کو تاحیات صدر مقرر کرنے کا معاملہ کسی حد تک متنازع بھی رہا ہے۔ لیکن چین میں عائد سینسر کی وجہ سے اس موضوع پر ہونے والی بحث سامنے نہیں آ رہی ہے۔ تاہم ایک ناقد نے ایک کھلا خط لکھ کر اس آئینی تبدیلی کی تجویز کو \'مذاق\' کہا ہے۔ ایک سرکاری اخبار کے سابق مدیر لی داتونگ نے کہا کہ صدر اور نائب صدر کے عہدے کی حد ختم کرنے سے انتشار جنم لے گا۔ انھوں نے یہ خط نیشنل کانگریس کے بعض ارکان کو بھیجا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ میں اسے مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنے دوستوں سے بات کر رہا تھا اور ہمیں اس پر سخت غصہ ہے۔ ہمیں اپنی مخالفت کی آواز اٹھانا ہو گی۔ البتہ سرکاری میڈیا نے اس تبدیلی کو ایسی اصلاحات قرار دیا ہے جن کی ایک مدت سے ضرورت تھی۔ چین میں شی جن پنگ پر براہِ راست تنقید نہیں کی جاتی بلکہ ان کی نمائندگی کے لیے ونی دا پو کارٹون استعمال ہوتا ہے۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ تاحیات صدر، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت زبردست بات ہے، ہمیں بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ تاہم بعد میں جب اس پر سخت تنقید ہوئی تو ٹرمپ نے کہا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا۔

مقبولیت:
 گذشتہ اکتوبر کمیونسٹ پارٹی نے شی جن پنگ کے نظریات کی منظوری دی تھی۔ اب سکول، کالجوں اور سرکاری کارخانوں میں یہ نظریات پڑھائے جائیں گے۔ کمیونسٹ پارٹی کے مطابق یہ جدید چین کا نیا باب ہے۔ شی سنہ 2012 میں صدر بنے تھے اور جیسے جیسے چین علاقائی سپر پاور کے طور پر ابھرتا چلا گیا، شی جن پنگ اپنی سیاسی قوت بڑھاتے چلے گئے۔ انھوں نے بدعنوانی کے خلاف سخت مہم چلائی ہے اور پارٹی کے دس لاکھ سے زیادہ ارکان کو سزا دی ہے۔ اس سے ان کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوا۔ اسی دوران چین میں کئی شخصی آزادیوں کو سلب کر لیا گیا اور سرکاری نگرانی اور سینسرشپ کے پروگراموں میں اضافہ کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے صدر شی جن پنگ کے نظریات کو آئین کا حصہ بنانے کے حق میں ووٹ دے کے انھیں کمیونسٹ چین کے بانی ماؤزے تنگ کی صف میں شامل کر دیا ہے۔ صدر شی 2012 میں چین کے سربراہ بنے اور وہ تب سے اب تک اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ پانچ سالہ کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے اجلاس کے اختتام پر ایک متفقہ ووٹ کے ذریعے شی جن پنگ کی سوچ کو آئین کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

19ویں کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے اس اجلاس میں 2000 سے زیادہ اراکین نے شرکت اور اس کی بیشتر کارروائی منظرِ عام پر نہیں لائی گئی۔ یہ ملک کی اہم ترین سیاسی میٹنگ ہوتی ہے۔ اس اجلاس کا آغاز گذشتہ ہفتے صدر شی کی تین گھنٹے طویل تقریر سے ہوا جہاں انھوں نے اپنے فلسفے سوشلزم بمع چینی عناصر کو متعارف کروایا۔ ریاستی میڈیا اور اعلیٰ چینی حکام نے فوراً اسے شی جن پنگ کے نظریات کہہ کر پکارنا شروع کر دیا جو کہ اس بات کا عندیہ ہے کہ صدر شی نے پارٹی پر اپنی گرفت انتہائی مضبوط کر لی ہے۔ صدر شی کے فلسفے کو آئین کا حصہ بنانے سے اب ان کے دشمن پارٹی کے اقتدار کو خطرہ لاحق کیے بغیر ان کے اقتدار کو چیلنج نہیں کر سکیں گے۔ سابق چینی رہنماؤں کے خیالات کو بھی آئین کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔ تاہم ماؤزے تنگ کے بعد صدر شی وہ پہلے رہنما ہے جن کے فلسفے کو ایک سوچ کا درجہ دیا گیا ہے جو کہ نظریاتی درجہ بندی میں سب سے اوپر تصور کی جاتی ہے۔ اس سے قبل صرف ماؤزے تنگ اور ڈنگ شاؤ پنگ کے نام ان کے نظریات سے منسلک کیے جاتے ہیں۔
 
اکیسویں صدی میں شاید ہی ایسا کوئی رہنما ہو جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے زندگی کا کچھ حصہ غار میں گزارا ہو اور ایک کسان کی طرح کھیتوں میں کام کیا ہو۔ پچاس برس قبل چین میں ثقافتی انقلاب کی افراتفری کے دوران 15 برس کے شی جن پنگ نے ایک سخت دیہی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ علاقہ جہاں شی جن پنگ نے کھیتی باڑی کی اس وقت خانہ جنگی کے دوران چینی کمیونسٹوں کا گڑھ تھا۔ شی جن پنگ کے اپنے تجربات کو آج مثبت انداز میں پیش کیا جا رہا ہے اور چین میں دیہی علاقے انتہائی تیز رفتاری سے شہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں جبکہ لیانگچاخر نامی وہ گاؤں جہاں شی جن پنگ نے وقت گزارا اب کمیونسٹ پارٹی کے عقیدت مندوں کے لیے ایک مقدس جگہ بن گیا ہے۔ صدر شی جن پنگ چین کے سیاسی منظر نامے پر چھا چکے ہیں۔ انھیں پارٹی کے حکمراں دھڑوں، فوج، اہم کاروباری شخصیات سب کی ہی حمایت حاصل ہے اور چین کے بانی ماؤ کے بعد شاید وہ طاقتور ترین صدر ہیں۔ ان کی تصویر اکثر بل بورڈز پر نظر آتی ہے اور ان کی سرکاری طور پر منظور شدہ عرفیت پاپا شی سرکاری گانوں میں شامل ہوتی ہے۔ 

تقریباً 80 کروڑ افراد نے چینی نئے قمری سال کی تقریبات دیکھیں جن میں صدر شی کی چینی سوچ کے نئے دور کی تشہیر کی گئی۔ کئی دہائیوں تک کمیونسٹ پارٹی چینی سیاست پر حاوی رہی ہے۔ اب شی جن پنگ اسی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں اور شاید اب وہ پارٹی سے بھی اہم ہو گئے ہیں۔ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول انتہائی مضبوط ہوتا تھا مگر اس کے سربراہ کے پاس کمانڈ کچھ ہی عرصے کے لیے ہوتی تھی۔ ایک رہنما ذمہ دارانہ انداز میں ایک دہائی تک کام کرنے کے بعد دوسرے کو کنٹرول دے دیتا تھا۔ مگر شی جن پنگ نے عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی دنوں میں ہی اس نظام میں تبدیلیاں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے جلد ہی ایک انسدادِ بدعنوانی مہم شروع کی اور تقریباً دس لاکھ پارٹی حکام کے خلاف رشوت یا حکومتی وسائل ضائع کرنے کے سلسلے میں کارروائیاں کیں۔ مگر اس مہم میں شی جن پنگ کے مخالفین خاموش ہو گئے۔
خبر کا کوڈ : 710823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش