0
Wednesday 14 Mar 2018 17:17

تاپی گیس منصوبے کے محافظ افغان طالبان اور سی پیک کے محافظ بلوچ مزاحمت کار!

تاپی گیس منصوبے کے محافظ افغان طالبان اور سی پیک کے محافظ بلوچ مزاحمت کار!
رپورٹ: نوید حیدر

صوبہ بلوچستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ہر سرمایہ کار صوبے میں درپیش دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بدامنی کے مسئلے کو اپنے لئے سب سے بڑا چیلنج سمجھتا ہے۔ چاہے ایک چھوٹے دکاندار کی بات ہی کیوں نہ ہو، سب سے پہلے ایسی جگہ پر اپنا کاروبار کو شروع کرنے کی کوشش کرے گا، جہاں امن و امان کی حالت قدرے بہتر ہو۔ اسی طرح اگر بات بڑے منصوبوں یعنی سیندک پروجیکٹ یا پاک چین اقتصادی راہداری کی ہو، تو اربوں ڈالر خرچ کرنے سے پہلے یہاں دہشتگردی کے چینلج سے نمٹنے کے لئے کوئی نہ کوئی راہ حل ضرور ڈھونڈا جاتا ہے۔ برطانیہ کے اخبار "فنانشل ٹائمز" نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اور بلوچ شدت پسندوں کے درمیان پانچ سال سے خفیہ مذاکرات جاری ہیں، تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو محفوظ کیا جاسکے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے ان رابطوں کی تردید ہوچکی ہے اور چین نے بھی ان باتوں کو رد کیا ہے۔ اسی طرح بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بھی چین کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے کی تردید کی ہے۔ دیکھا جائے تو چینی حکومت نے اگر ایسی کوئی پیشرفت کی بھی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ چین اور بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیموں کے درمیان رابطوں کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں متعین چینی سفیر یائو ژینگ نے کہا تھا کہ بلوچ شدت پسند اب ان کے لئے یعنی سی پیک کے لئے خطرہ نہیں رہے۔ چین کا یہ اظہارِ اطمینان، بلوچ شدت پسندوں سے مذاکرات ظاہر کرتا ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی فورسز بشمول خفیہ ادارے ان شدت پسندوں کی گردن مروڑ چکے ہیں، لیکن مزاحمتی سوچ اور اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن یہ گروہ کہیں نہ کہیں کوئی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں اگر بھارت سمیت دیگر پاکستان مخالف قوتیں ان مزاحمتی تنظیموں کی اخلاقی و مالی معاونت کرسکتی ہیں، تو اسی طرح چین بھی صوبے میں امن و امان کے قیام اور ترقیاتی منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مزاحمتی تنظیوں کو اپنے اعتماد میں لے سکتا ہے۔ تاہم اس میں پاکستان کی مرضی اور اجازت لازمی ہے۔ ماضی میں بلوچستان میں چینی انجینئرز اور دوسرے ہنر مند شہری قتل ہوچکے ہیں، جبکہ بھارت یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور چین اقتصادی اور معاشی میدان میں آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے معاون ہوں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے حال ہی میں کہا تھا کہ "پاکستان چین کے تعاون سے جنگ لڑ رہا ہے۔" پاکستان اور چین کی یہ قربت امریکہ کو بھی کسی طور پر قبول نہیں۔ امریکہ اور بھارت افغانستان میں ناکام ہوچکے ہیں اور بدلے میں وہ پاکستان کو کسی تباہی سے دوچار کرنے کی تخریبی نیت رکھتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کی کوشش ہوگی کہ بلوچ شدت پسندوں استعمال کریں۔ افراتفری کے ماحول میں بیرونی سرمایہ کار بلوچستان میں آنے سے پرہیز کریں گے اور ساتھ ہی سی پیک کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

23 فروری 2018ء کو افغانستان کے صوبے ہرات میں تاپی گیس منصوبے کا افتتاح ہوا اور افغان طالبان نے اس کو تحفظ دینے کا اعلان کیا۔ دراصل اس منصوبے پر پیشرفت طالبان دورِ حکومت میں ہوئی تھی، لیکن امریکہ نے اس کے خلاف فتنہ کاری کی تھی۔ یقینی طور پر اس منصوبے کے خلاف وہ گروہ متحرک ہوں گے، جو افغانستان اور افغانوں کے مفادات کے خلاف سرگرم ہیں اور یقینی طور پر ان گروہوں کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ اس لئے خود پاکستان کو بھی چاہیئے کہ وہ بلوچ شدت پسندوں سے رابطہ قائم کرے۔ اسی طرح آنے والے دنوں میں امریکی اور بھارتی سازشوں کا سدباب کیا جاسکے گا۔ امریکہ افغانستان میں پاکستان کو دھوکہ دے چکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی پوری توجہ پاکستان کے خلاف منفی پالیسیوں اور منصوبوں پر لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ ان حالات میں بلوچستان کے مسئلے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے معاہدے کو عملی جامعہ پہنایا گیا ہے، تب سے حکومتوں، سیاستدانوں اور سکیورٹی حکام کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیمیں سی پیک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے تخریبی منصوبوں پر کاربند ہیں۔ یہ تنظیمیں اگرچہ گوادر پورٹ اور سیندک میں چین کے ساتھ معاہدوں کو بلوچستان کے مفادات کے برعکس سمجھتی ہیں، لیکن بلوچستان میں وفاق پر عدم اعتماد اور الحاق کے معاہدے کے خلاف سیاسی و مزاحمتی تحریک کی تاریخ 1948ء سے شروع ہوتی ہے، کہ جب خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے مسلح مزاحمت شروع کرنے کی ٹھان لی اور لشکر تیار کرکے افغانستان ہجرت کرلی۔

بلوچوں نے افغان حکمرانوں کے آگے بھی مزاحمت کی ہے اور انگریزوں کے استعماری منصوبوں کے آگے بھی سینہ سپر ہوکر آزادی اور خود مختاری کا علَم بلند کرچکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد علیحدگی کی پے درپے تحریکیں اٹھیں، جن میں علیحدگی کے ساتھ صوبائی خود مختاری کا نعرہ شامل رہا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں بلوچ تحریک کے آگے پیپلز پارٹی کھڑی ہوگئی اور ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے کوئی رعایت نہ کی۔ 1977ء کے مارشل لا کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو قید کرکے فنا کے گھاٹ اُتار دیا اور حیدر آباد سازش کیس میں مقید سندھی، بلوچ، پشتون اور دوسرے سیاسی لوگوں کو رہا کر دیا۔ اس طرح علیحدگی کی تحریک پس منظر میں چلی گئی اور افغانستان میں مقیم بلوچ رہنماء بھی پاکستان آگئے۔ اُس زمانے میں پشتونستان تحریک بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ یعنی ان دونوں تحریکوں کی سرپرستی افغانستان کی جانب سے کی جاتی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سی پیک تو ابھی چند مہینوں کی بات ہے، لیکن اصل میں بلوچستان کا وفاق سے مسئلہ صوبائی خود مختاری کا رہا ہے، جس میں کبھی شدت آکر علیحدگی کا نعرہ بھی بلند ہو جاتا تھا۔ بلوچ مزاحمتی تحریک کے علمبرداروں میر احمد یار خان، شہزادہ عبدالکریم، نواب خیر بخش مری ہوں یا ان کے صاحبزادے، سب مختلف اوقات میں جمہوری نظام اور اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں اور آئینِ پاکستان کے تحت حلف اٹھا چکے ہیں۔

مطلب یہ ہوا کہ بنیادی مسئلہ آئین اور قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ خلافِ آئین و قانون اقدامات اور فیصلے احساسِ محرومی کے جذبات اور سوچ پیدا کرتے ہیں اور دشمن ایسے ہی موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے صوبائی خود مختاری تاحال ایک حل طلب مسئلہ ہے، اس پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور جمہوری عمل کو جاری و پروان چڑھنے دینا، دراصل ملک کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کا زینہ ہے۔ ملکی نظام کو مصنوعی حربوں سے چلانے سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں ایک خبر رساں ادارے کے متواتر بیانات اور خبریں لگیں کہ صوبے میں نئی حکومت بننے کے بعد عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کیا واقعی معاملہ اتنا آسان تھا، جو ماضی کی حکومتیں سمجھنے سے قاصر تھیں۔؟ سرکار کی جانب سے جاری کی ہوئی ایک خبر نظر سے گزری کہ وزیراعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے حلف اٹھانے کے بعد اپنا پہلا وعدہ پورا کر دیا۔ اس کی تفصیل یہ تھی کہ کوئٹہ کے علاقے جناح روڈ کا چند سو میٹر پر محیط مرکزی روڈ کی تعمیر میں تاخیر پہ تاخیر ہو رہی تھی، جبکہ میر عبدالقدوس بزنجو صاحب نے اقتدار میں آتے ہی اس روڈ کو بنا دیا۔ یعنی سڑک کی تعمیر کو کارنامے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ کیا اس طرح کے سطحی اقدامات سے بلوچستان اور یہاں کے عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے۔؟ ان مسائل کو حقیقی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سی پیک سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 711461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش