0
Thursday 15 Mar 2018 02:15

تکفیری سوچ اور حقیقی اسلام

تکفیری سوچ اور حقیقی اسلام
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

آئینِ پاکستان کی دفعہ (3) 260 کے مطابق ’’مسلم سے مراد ایسا شخص ہے، جو اللہ تبارک و تعالٰی کی وحدت و توحید، حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ کے آخری پیغمبر ہیں، کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور کسی بھی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم نہیں کرتا، جو حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو یا دعویٰ کیا ہو اور غیر مسلم سے مراد ایسا شخص ہے، جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص، یا کوئی بہائی اور جدولی ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہیں۔" مذکورہ بالا تعریف کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کے تمام مسالک مسلمان ہیں۔ مسلمان کی اس تعریف پر تمام مسالک (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ) کے اکابرین علماء متفق ہیں اور آئین پاکستان پر ان کے دستخط موجود ہیں۔ 1952ء کی متحدہ علماء کمیٹی کے بعد ملی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اور دیگر اتحادوں میں تمام مسالک کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہر مسلک دوسرے مسلک کو مسلمان سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کے یہ مسالک اسلام کے بنیادی اعتقادات جیسے توحید و رسالت، وحی، آسمانی کتابوں کے نزول، آخرت، ملائکہ کے وجود، حضور ﷺ ختم نبوت، تقدیر اور بنیادی ارکان جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی فرضیت پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ آئینِ پاکستان میں بیان کردہ مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے علاوہ کسی مسلمان مسلک کو کافر قرار دینا اور سمجھنا آئینِ پاکستان کی صراحتاً توہین ہے۔ اس لئے ایک مسلمان ریاست میں رہتے ہوئے اس طرح کا تکفیری منہج یا تکفیری طرزِ عمل انتہائی غلط ہے۔

جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا، اسے کافر کہنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا اے کافر، تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔‘‘(صحیح بخاری کتاب الادب) حدیث شریف میں ارشاد ہے ’’اگر کسی (مسلمان) نے دوسرے (مسلمان) کو کافر کہا تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی اور اگر وہ ایسا نہ تھا، جیسا اس نے کہا(یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا۔‘‘ (امام بخاری۔ الادب المفرد)۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تین باتیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں۔ جو لا الہ الا اللہ کہے اسے تکلیف نہ دینا، کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرو اور نہ ہم اسے کسی عمل سے اسلام سے نکالیں۔" (سنن ابی داؤد: کتاب الجہاد، باب الغزومع ائمتہ الجور)۔  حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں امام ابواللیث سمر قندی فرماتے ہیں:۔ ’’امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو مناظرہ کرتے دیکھا تو ان کو منع کر دیا۔ آپ کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ خود تو یہ کام کرتے ہیں۔؟ آپ نے فرمایا کہ ہم بات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ تم مناظرہ کرتے ہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا کفر چاہتا ہے۔ جو اپنے ساتھی کے لئے کفر کا ارادہ کرے، وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ (فتاوی النوازل: ص ۸۶، امام ابواللیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)۔ علمائے امت نے صراحت کی ہے کہ کسی مسلمان سے کوئی ایسا قول و فعل سرزد ہو، جس میں ننانوے احتمالات کفر کے اور صرف ایک احتمال صحیح نکلتا ہو تو حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس ایک صحیح احتمال کی بنیاد پر اسے مسلمان کہا جائے گا اور اس پر کفر کا فتویٰ عائد نہیں کیا جائے گا۔ علمائے کرام اس بات میں تو علمی طور پر اختلاف کرتے ہیں کہ کسی کو کافر قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں، مگر سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کو محض اس کے کفر کی وجہ سے قتل کرنے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔

ہر گروہ کے علماء خود بھی صدق دل سے اس کے قائل ہوں اور اپنے پیروکاروں کو بھی قائل کریں کہ ہم جو عقائد و تصورات رکھتے ہیں، ان کی وجہ یہ نہیں کہ ہم باقی تمام مسلم فرقوں کے عقائد و تصورات کو یکسر غلط یا کفر سمجھتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ دلائل کے اعتبار سے ہمارے عقائد و نظریات قابل ترجیح ہیں، لیکن ہم شرعاً یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ دوسرے سب غلط یا خدانخواستہ کفر پر ہیں۔ کسی نظریہ یا عقیدہ کی تکفیر کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور کسی شخص یا گروہ کو کافر قرار دینا ایک الگ مسئلہ ہے۔ علمائے دین کلماتِ کفر کو کفر قرار دے سکتے ہیں، مگر کسی شخص نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ قاضی یا عدالت کرے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فقہی اختلافات تکفیر کا باعث نہیں بنے اور کسی نے فقہی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا۔ مثلاً نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی کے طریقہ کار میں اختلافات وغیرہ۔ مسالک کے درمیان بعض اوقات قرآن و حدیث کی تاویل و تفسیر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک مسلک نے قرآن و حدیث سے ایک طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں جبکہ دوسرے مسلک نے دوسری طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ اس میں جتنی ہم آہنگی ہوسکتی ہے، وہ اچھی ہے اور جہاں نہیں ہوسکتی، وہاں اپنے نقطہ نظر پر عمل کرنا ہی مناسب ہے۔ اختلاف میں کوئی حرج نہیں، لیکن تناؤ، قتل و غارت اور تشدد کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اختلاف جس کی نوعیت علمی و تحقیقی ہے، وہ برا نہیں بلکہ قابل تعریف ہے، یہ اختلاف بلاشبہ باقی رہنا چاہیے کہ زندگی کی علامت اور علم و استدلال کے لئے مہمیز ہے، لیکن ایسا اختلاف جس کی عمارت دوسرے سے نفرت، اسے باطل، بدعتی اور کافر و گستاخ قرار دینے جیسی خطرناک بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے، یہ باعثِ رحمت اختلاف کو بھی زحمت اور عذاب میں بدل دیتا ہے۔

یحیی بن سعید انصاری ؒ جو جلیل القدر تابعی ہیں فرماتے ہیں: ’’اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، اس لئے ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ایک ہی چیز کو ایک عالم اور مفتی حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے حرام قرار دیتا ہے، اس لئے نہ تو پہلا دوسرے کو برا کہتا ہے اور نہ ہی دوسرا پہلے کو۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء، ۵/۴۷۴) تحقیق شعیب الارنووط۔ طبع دوم الرسالۃ)۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے: یہ جو کچھ ہے، ایک رائے ہے، جس پر ہم کسی کو مجبور نہیں کرتے اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ کسی (دوسرے مجتہد) پر اسے قبول کرنا لازمی ہے، جس کے پاس اس سے بہتر کوئی بات ہو اور وہ لے آئے۔ (یعنی ہم اسے بخوشی قبول کر لیں گے۔)‘‘ (الانتقاء فی فضائل الثلاثہ الائمۃ الفقہاء، مالک والشافعی و ابی حنیفہ۔ للحافظ ابن عبدالبر (ت ۴۶۳ھ)۔ ص: ۱۴۰۔ دارالکتب العلمیہ بیروت/ تعلیق عبدالفتاح ابو غدہ۔ ص: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیہ بحلب۔ ۱۹۹۸ھ)۔  تکفیر کا مسئلہ کلامی اور عقیدتی بحثوں سے جڑا ہوا ہے اور ہر ایک مسلک کے لوگ اپنا ایک خاص عقیدہ یا نظریہ رکھتے ہیں۔ عام طور پر عوام کے نزدیک مذہبی نظریات ناقابل تغیر ہوتے ہیں اور اسی لئے زیادہ معتبر ہوتے ہیں۔ اس لئے جب کوئی مسلک اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے تو دوسرے مسلک کے وابستگان کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان کا عقیدہ درست نہیں یا وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ یا یہ کہنا کہ ان کا عقیدہ یہ نہیں کچھ اور ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر دوسروں کی رائے اور دلیل جانے بغیر یک طرفہ رائے سے مسلکی اختلاف کو تقویت ملتی ہے۔ صدر اسلام میں آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد خلافت کے معاملے کا فیصلہ جس طرح سے ہوا، اس پر مختلف مسالک کے پاس کیا دلائل ہیں اور کن دلائل میں کتنا وزن ہے۔ اس سے قطع نظر ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ معاملات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور تاریخ کے واقعات کو ہم اکیلے اکیلے کیا باہم اتفاق سے بھی نہیں بدل سکتے۔

آج جو مسالک موجود ہیں، ان کا اُن واقعات کی تخلیق میں قطعاً کوئی حصہ نہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان واقعات کا مطالعہ کرکے ان کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور دوسرا کسی دوسری رائے تک پہنچتا ہے تو دونوں کے لئے باہمی احترام اور ایک دوسرے کو آزادی رائے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے لئے دونوں کو ایک دوسرے کی رائے جاننے اور رائے رکھنے میں آزاد قرار دینا ہوگا۔ فرقہ واریت کا وجود بھی مسلّم ہے اور ہر فرقے کا اپنے آپ کو ہی برحق سمجھنا بھی ایک حقیقت ہے، لیکن دیگر مسالک کے بارے میں ایسا طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جاسکتا، جو کسی بھی قسم کی کشیدگی کا سبب بنے۔ ہر ایک فرقے اور مسلک کو اپنے عقائد بیان کرنے کی اجازت ہے، لیکن دیگر مسالک کے خلاف شدت پسندی کے جذبات کو فروغ دینا، کیچڑ اچھالنا، گالی گلوچ اور نفرت انگیزی مناسب نہیں۔ اسلام چونکہ امن و آشتی اور محبت و وسعت کا دین ہے، لہذا اسلام کا تقاضا اور وطنِ عزیز پاکستان کی ضرورت ہے کہ تمام مسالک ایک دوسرے کے بارے میں آگاہی حاصل کرکے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ دوسرے مسلک کو امت مسلمہ کا حصہ سمجھتے ہوئے بین المسالک اتحاد قائم کرنا دین اسلام میں مطلوب ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘(آل عمران ۱۰۳:۳) اس آیت میں واضح طور پر فرقہ پرستی اور مسلکی اختلاف کی نفی کی گئی ہے۔ یہ آیت اخوت و اتحاد کی دعوت اور تفرقہ و انتشار کی مذمت،دونوں پہلووں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ظہورِ اسلام کا مقصد تمام نوعِ انسانی کو ایک مرکز پر لانا اور ایک دائمی وحدت کے رشتہ میں منسلک کرنا ہے۔ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کی باہمی محبت اور مودت کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک ہی جسم ہو، جس میں ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے خواب و بے آرام ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم۔ ۲۵۸۶)۔
خبر کا کوڈ : 711593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش