1
0
Thursday 22 Mar 2018 21:30

پاراچنار، یکطرفہ آبادکاری مہم کے بارے میں طوری قبائل کے تحفظات(2)

پاراچنار، یکطرفہ آبادکاری مہم کے بارے میں طوری قبائل کے تحفظات(2)
تحریر: روح اللہ طوری

گذشتہ سے پیوستہ
مری معاہدہ:

حاجی عابد حسین جعفری کا کہنا تھا کہ 2010ء میں کرم ایجنسی کے شیعہ سنی قبائل کے مابین مری کے مقام پر ایک معاہدہ عمل میں آچکا ہے، جس پر ہر فریق کے پچاس پچاس افراد نے دستخط کئے ہیں۔ جسے مری معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اسی معاہدے کی روسے کرم میں امن وامان بحال ہوا۔ اس معاہدے کے مطابق کاغذات مال کی روشنی میں اپنے مالکان کو اپنا حق دینا ہے۔ مالکانہ حقوق کے حامل قبائل کو اپنے اپنے مقامات پر دوبارہ بحال کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اور متاثرہ قبائل کے پورے تحفظ کی ضمانت مقامی قبائل کو دینا ہوگا۔ چنانچہ اگر حکومت اس معاہدے کو عملی شکل دے تو کسی بھی متاثرہ فریق کو اپنا اپنا حق نہ ملنے کی کوئی وجہ ہی نہیں۔
صدر تحریک حسینی مولانا یوسف حسین کا کہنا تھا کہ آج تحریک حسینی کی ٹیم نے جرنیل صاحب کی خدمت میں اپنے مسائل کے علاوہ، انکے ساتھ ہونے والی تاریخی زیادتیوں کی پوری لسٹ پیش کی۔ انہوں نے اقرار کیا کہ انجمن حسینیہ کے سیکریٹری حاجی نور محمد صاحب نے بھی ہم سے پہلے جرنیل صاحب سے ملاقات میں کرم کے مسائل پر تفصیلا روشنی ڈالی۔ اور جرنیل صاحب کو اپنے مطالبات و تحفظات سے پوری وضاحت کے ساتھ آگاہ کیا۔ یوسف آغا کی جانب سے جرنیل کی خدمت میں پیش کی جانے والے مطالبات کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ 

کرم ایجنسی میں فسادات کی تاریخ:
2007ء میں اگرچہ کرم ایجنسی میں کافی خاندان متاثر ہوکر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ تاہم اس سے قبل 1961ء، 1970ء، 1983، 1987 اور 1996ء میں بھی کرم ایجنسی میں فسادات ہوچکے ہیں۔ اور علاقے کے اصل باشندگان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی دوران متعدد خانوادے متاثر ہوکر نقل مکانی کرچکے ہیں، جو آج تک دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ 1961ء میں دسویں محرم کو صدہ میں عزاداروں کے جلوس پر حملہ کرکے درجنوں افراد کو قتل کرنے کے علاوہ صدہ میں موجود امام بارگاہ اور مسجد کو بھی جلادیا گیا۔ نیز وہاں پر آباد شیعہ قبائل کے درجنوں گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ اسکے بعد 1970 میں مقامی اہلسنت قبائل کے علاوہ افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں قبائلی لشکر نے چڑھائی کرکے سرحدی دیہات کو بھاری نقصانات سے دوچار کیا۔ اس دوران کنڈہ نستی کوٹ سے تین خواتین کو بھی اغوا کرکے اپنے ساتھ لے جایا گیا۔ جنہیں کئی ماہ تک افغان قبائل نے اپنی حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ یوں طوری قوم کی عزت و ناموس کی بیحرمتی کی گئی۔ مگر افسوس کی بات یہ کہ اس دوران اپنی سرکار نے ہماری کوئی کمک نہیں کی۔ اسکے علاوہ 1970 سے لیکر 1880 تک سرحدی دیہات نستی کوٹ، شنگک، پیواڑ اور خرلاچی پر سرحد پار سے بار بار حملے کئے گئے۔ اور بیسیوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے۔ 
1983ء میں صدہ میں موجود تین گھرانوں کو کئی روز تک محاصرہ میں رکھ کر اور انکا کھانا پینا بند کرکے، ان پر مسلسل فائرنگ کی جاتی رہی۔ لیکن وقت کی انتظامیہ صرف تماشا دیکھتی رہی، اس دوران مقامی قبائل اپنے ہم  نسب قبائل کی کمک کرنے کی غرض سے جب صدہ کے ارد گرد جمع ہوگئے تو حکومت نے دھوکہ دیکر تسلی دیتے ہوئے کہا کہ انہیں آج ہی محفوظ طریقے سے حملہ آوروں کے محاصرے سے باہر نکالا جائے گا۔ مگر پانچ دن کے مسلسل محاصرے کے بعد، وہاں پر محصور حاجی غلام حسین المعروف دادو کو بالآخر محفوظ طور پر نکالنے کا جھانسہ دیکر گھر سے تو باہر نکالا گیا۔ تاہم حاجی دادو اپنی خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ جیسے ہی باہر روڈ پر نمودار ہوگئے، تو ثالثین خود نودو گیارہ ہوکر انہیں گولیوں کے سیلاب میں تن تنہا چھوڑ دیا، اور یوں ایک ہی خاندان کے تمام افراد بچوں اور خواتین سمیت قتل ہوکر کربلا کی تاریخ تازہ کرگئے۔ اس دوران طوری بنگش قبائل کا املاک مکمل طور پر نابود ہونے کے علاوہ وہاں پر موجود مساجد و امامباگاہ کو مکمل طور پر مسمار کردیا گیا۔ حاجی غلام حسین المعروف دادو گھر کے پندرہ افراد سمیت، جن میں اسکے تین بیٹے، چار معصوم بچے اور تین خواتین شامل تھیں، نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کئے گئے۔ خوش قسمتی سے اسکے دو بیٹے گھر سے باہر تھے، آج انہی سے حاجی دادو کی نسل چل رہی ہے۔

1987ء فسادات:
1987ء میں بغدے کے ایک شخص کو منگل قبیلے نے اغوا کیا، ایک ماہ تک قبائلی جرگوں اور حکومت سے انصاف طلب کرنے کے بعد جو کامیابی دیکھنے میں نہ آئی، جواب میں انہوں نے بھی ایک منگل فرد کو اغوا کیا۔ جس کے بعد اغوا اور جوابی اغوائیگی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ طوری قبائل کے درمیان واقع گاؤں بوشہرہ نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال کر شیعوں کو گاڑیوں سے اتارنا شروع کیا۔ جن میں گوہر حسین جہلم زئی بھی شامل تھا، اسکے جواب میں 25 جولائی بروز جمعہ کو مرحوم کریم نے اپنے رشتہ دار کے بدلے میں بوشہرہ کے افراد کو اغوا کرنے کی کوشش کی، تو اہلیان بوشہرہ نے اس پر فائرنگ کھول جنگ کا آغاز کردیا۔ 
اسکے ساتھ ہی آنا فانا جنگ کے شعلے پورے کرم میں بھڑک اٹھے۔ اس وقت پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح اہلیان کرم نے اپنے علاقوں میں کئی لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ جنکو حکومت پاکستان، افغان حکومت اور روس کے خلاف ہر قسم کے مالی وسائل کے علاوہ ہر قسم کا اسلحہ بھی دے رہی تھی، چنانچہ مقامی اہل سنت نے مسلح افغان گروپوں (مجاہدین) کے تعاون سے بالش خیل، ابراہیم زئی، غربینہ، کُنڈیزار، سنگینہ، گوبزنہ، پیواڑ، خرلاچی، شنگک، کنج علی زئی، مینگک، کڑمان اور شلوزان وغیرہ پر بیک وقت حملے شروع کئے۔ مہاجرین کے ساتھ موجود بے پناہ وسائل کے مقابلے میں طوریوں کے پاس محدود وسائل کے باعث بالش خیل، ابراہیم زئی، غربینہ، کُنڈیزار، سنگینہ اور گوبزنہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ تاہم دیگر مقامات پر کانٹے کا مقابلہ ہونے کے باعث کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ اس دوران 100 کے لگ بھگ شیعہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ سینکڑوں خاندان گھر بار چھوڑ کر اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جن میں سے درجنوں خاندان آج بھی اپنے پناہ گزیں ہیں۔ 
1996ء کے فسادات:
۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 712972
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

sardar ali sawdai
Pakistan
allah mahfoz raki. ye jari raki.momkin ho tho kurram k jngon ka pora tarikh lekko. abhi tk kisi ny ye koshish nai ki.
ہماری پیشکش