0
Sunday 25 Mar 2018 22:28

آستانہ اور شام بحران کا نیا مرحلہ

آستانہ اور شام بحران کا نیا مرحلہ
تحریر: ہادی محمدی

شام میں جنگ بندی کی ضمانت فراہم کرنے والے تین ممالک یعنی ایران، ترکی اور روس کے وزرائے خارجہ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں اکٹھے ہوئے اور اس ملک میں امن و امان کے قیام کا جائزہ لیا۔ ان وزرائے خارجہ نے تاکید کی ہے کہ تناو کم کرنے والے علاقوں میں احتیاطی اور سکیورٹی تدابیر کے بعد ہی شام میں سیاسی عمل امکان پذیر ہو گا جس میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ امریکہ، مغربی ممالک، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور ان کی پٹھو عرب حکومتیں اس بارے میں مختلف نقطہ نظر کی حامل ہیں۔

اس بارے میں خود ان کے درمیان بھی جزوی اختلافات موجود ہیں لیکن وہ جس نکتے پر متحد اور متفق نظر آتے ہیں وہ شام میں دہشت گردی پر مشتمل بحران کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی اور عرب اتحادی تکفیری دہشت گردی کے ذریعے شام اور عراق میں خاص اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب وہ کھل کر میدان میں کود پڑے ہیں اور اعلانیہ طور پر شام میں دہشت گرد عناصر کی نابودی کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ وہ دہشت گرد عناصر کی مکمل نابودی کو روکنے یا اس کی رفتار کم کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔

میڈیا وار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی بے بنیاد الزامات سے لے کر فوجی حملے کی دھمکیوں تک کے اقدامات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد عناصر کو محفوظ رکھنے اور دریائے فرات کے مشرقی حصے میں انکے قبضے کو باقی رکھنے کی مایوس کن کوششوں کے ساتھ ساتھ ترکی کو عفرین، منبج اور شاید مشرقی فرات میں آپریشن کی سبز جھنڈی دکھا کر شام کی صورتحال مزید پیچیدہ بنانے سے بھی دل لگائے بیٹھے ہیں۔

ترک حکام نے عراق اور شام کے شمالی حصوں پر قبضے کی تاریخی لالچ پر کرد عناصر اور پی کے کے سے درپیش موہوم خطرے کی نقاب چڑھا رکھی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ شام کے شمالی حصوں پر فوجی قبضہ کر کے شام حکومت سے بھتہ وصول کر سکتے ہیں۔ رجب طیب اردگان جو دمشق پر فوجی قبضے اور اخوانی حکومت کے قیام کے خواب دیکھ رہے تھے آج آستانہ میں ایران اور روس سے تعاون کے ساتھ ساتھ امریکہ اور نیٹو کو بھی اس بات کے اشارے دے رہے ہیں کہ وہ دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے براہ راست طور پر شام میں فوجی مداخلت کریں۔

دوسری طرف ترکی نے شام کے شمالی حصوں میں کردوں کی جگہ لینے کیلئے امریکہ سے مذاکرات شروع کر رکھے ہیں کیونکہ امریکہ کردوں سے شراکت کو بھی غیر مستحکم تصور کرتا ہے اور دریائے فرات کے مشرق میں واقع اپنے فوجی اڈوں کو کمزور سمجھتا ہے لہذا براہ راست فوجی مداخلت کو اپنے لئے بہت مہنگا سمجھتا ہے جسکے نتیجے میں وہ ترکی سے تعاون میں ہی اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ روس، ایران اور ترکی کی مثلث کو کمزور کرنا اور دریائے فرات کے مشرقی حصے میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے ترکی کا تعاون حاصل کرنا ترکی سے مذاکرات کیلئے اس کے دو بڑے مقاصد ہیں۔

بہرحال دہشت گردی پر مبنی بحران کے نئے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے اور مشرقی غوطہ میں النصرہ فرنٹ اور فیلق الرحمان سے وابستہ دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ ایک یقینی امر ہے۔ ترکی جیش الاسلام اور احرار الشام کو اعتدال پسند گروہوں کے طور پر خطے میں باقی رکھنے کا خواہاں ہے۔ اسرائیلی حکام ابھی تک اپنے ایف سولہ طیارے کی سرنگونی کے صدمے میں مبتلا ہیں۔ اس نئی صورتحال میں شام میں ضروری ترجیحات ابہام کا شکار ہیں کیونکہ نئے میدان کو زیادہ اسٹریٹجک واقعات کے تناظر میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 713848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش