0
Tuesday 27 Mar 2018 12:30

مودب قوم کی مہذب گفتگو

مودب قوم کی مہذب گفتگو
تحریر: ڈاکٹر علی ابوتراب
abuturab110@gmail.com

دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں، سب ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی صورت جڑے ہوئے ہیں۔ بعض کی بعض سے دوستی ہے تو بعض سے بعض کی دشمنی۔ بعض بعض سے مال کا تبادلہ کرتے ہیں، بعض بعض سے اسلحہ۔ کسی کا دوست کسی کا دشمن ہے تو کسی کا دشمن کسی کا دوست۔ پاک انڈیا ہمیشہ آپس میں حریف رہے۔ پاکستان اسلامی نظریہ کے تحت وجود میں آیا اور سب سے پہلے پاکستان کو ایران نے تسلیم کیا، تاہم پاکستان کا دوست چائنا، انڈیا اور پاکستان دونوں کا دوست ایران۔ ایران کا دشمن امریکہ اور امریکہ کا دوست سعودی عرب۔ شاید اسی کو بین الاقوامی سیاسی پالیسی کہتے ہوں گے۔ ممالک آپس میں دوست ہو یا دشمن، آپس کے تعلقات کسی نہ کسی صورت بحال رہتے ہیں۔ دشمنی رکھنے کے باوجود بھی ایک دوسرے کا ایک سیاسی احترام بھی ہوتا ہے، جو نہ چاہتے ہوئے بھی بجا لانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں نجی گفتگو کا جو مزاج ہے، وہ بین الاقوامی نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ اپنوں کے ساتھ اپنا لہجہ ہوتا ہے، غیروں کے ساتھ لہجہ کا اپنا انداز ہوتا ہے، پھر غیروں میں بھی تمیز کی جاتی ہے کہ کس کے ساتھ کون سا ٹون استعمال کرنا ہے۔ پاکستان میں گفتگو کے جو ذرائع ہیں، اُن کے ادب آداب بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ سب سے بڑا میڈیا الیکٹرانک میڈیا ہے، جس کا اپنا رویہ ہوتا ہے، دوسرا بڑا ذریعہ پرنٹ میڈیا ہے، جس کا انداز اور ہوتا ہے، جلسوں، کانفرنسوں، سیمینار کے ٹون اور ہوتے ہیں۔

انڈیا ہمارا دشمن ہونے کے باوجود جب کبھی اُن کے کسی بڑے سیاستدان، یا فنکار کا انتقال ہوا تو احتراماً آنجہانی سے پکارا۔ ہمارے ہاں زلزلہ آیا تو دیگر اقوام کی طرح انڈیا نے نہ صرف مدد کا اعلان کیا بلکہ کچھ چیزیں بھیج بھی دیں۔ اچھی بات ہے، اس طرح باہمی رواداری کو فروغ ملتا ہے، لوگوں میں بھائی چارگی کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ مگر اخبارات کے لہجے کو کون درست کرے، کیسے سمجھائیں، ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے، مگر یہ لکھنے پہ آئے تو پورا نام بھی لکھنا گوارا نہیں کرتے، جو سراسر غلط امر ہے۔ دنیا میں یوں تو سارے انسان اشرف المخلوقات ہیں، مگر بعض انسان اپنی خداد محنت اور بے پایاں فضل رب کے سبب وہ عام انسانوں سے مقام و مرتبے میں بلند ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں کڑوڑوں کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں، جب بھی اُن کا نام لیا جاتا ہے، لوگ احترام سے سر جھکاتے ہیں، کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسے میں ایسی ہستیوں کے ناموں کو حقارت اور تزہیک آمیز انداز میں لیا جائے تو اُن ہستیوں کے عقیدت مندوں پہ کیا گزرتی ہوگی۔ ایسے ناموں میں سرفہرست خاتم الانبیاء علیہم السلام کا نام نامی ہے، آپﷺ کے بعد خلفاء اور بارہ آئمہ علیہم السلام، سیاسی اعتبار سے قائد اعظم ؒ علامہ اقبال اور دیگر بے شمار ہستیاں، جن کے قوم پر بے شمار احسانات ہیں، جنہوں نے ہمیں مہذب بنانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، جنہوں نے ہمارے مستقبل کی خاطر اپنے حال کو قربان کر دیا ہے۔

مقامی گفتگو مقامی ہوتی ہے، جس میں الفاظ جیسے ہوں سہنا ہوتا ہے، مگر جب بین الاقوامی بات کرنی ہو تو گفتگو کے رکھ رکھاو اور آداب اور ہوتے ہیں۔ ایران میں انقلاب کی سرگرمیاں جب تیز ہوئیں تو شاہ ایران کو خائن سے پکارا، چونکہ شاہ مقامی تھا، اسی دوران جب کبھی امریکہ کے صدر جمی کارٹر کا نام لیا جاتا تو دشمن ہونے کے باوجود احتراماً آغائے کارٹر سے پکارا جاتا۔ جب کبھی روس کے صدر کا نام لیا گیا، احتراماً آغائے گورباچوف سے پکارا، چونکہ یہ بین الاقوامی ٹون ہے۔ آپ کے ملک کا دشمن سہی، وہ اپنے ملک کا صدر یا وزیراعظم ہے، لہذا ادب اور تعظیم وہی ملنی چاہئے، مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان کے اخبارات میں اسلامی جمہوری ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا نام لیا جاتا ہے یا لکھا جاتا ہے تو ایسے ہی لکھا جاتا ہے، جیسے پاکستان کے کسی شکست خوردہ سیاست دان کا لکھا ہے۔ ارے میڈیا سے منسلک لوگو، آیت اللہ سید علی خامنہ ای صاحب ایک ساتھ ولی فقیہ، مفتی، شاعر، مفسر، مجتہد، جرنیل اور ایک اسلامی ملک کے سربراہ بھی ہیں۔ رہبر معظم ؒ صرف ایران والوں کے مجتہد نہیں، دنیا میں موجود کڑوڑوں شیعیان حیدر کرار کے فقیہ مجتہد اور ولی ہیں۔ جب کبھی آپؒ کا نام پورا لکھا نہیں ہوتا تو پوری ملت کو دکھ ہوتا ہے، جو لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا، ویسے بھی ایران اور پاکستان قریب ترین دوست اسلامی ممالک ہیں۔ ایک دوسرے کے درمیاں باہمی روابط مضبوط ہیں۔ باہمی رابطہ صرف مال کے بدلے مال کی تجارت کو نہیں کہتے۔ رابطہ تو دلوں کے درمیاں پیدا ہوتا ہے، جس کے لئے احترام کا دامن ہاتھ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے اخبارات میں صرف خامنہ ای سے پکارا جاتا ہے۔ ارے لکھنے والو خامنہ ای آپ کے سکول فیلو یا کلاس فیلو ہیں کیا، یا ایک ساتھ کھیلتے کودتے رہیں ہیں کیا۔ آپؒ کا نام لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکن میں موجود ہوتا ہے۔ آپؒ کے ایک حکم پر پوری ملت جان قربان کرنے کو تیار رہتی ہے اور آپ یوں نام لے رہے ہیں، جیسے آپ نے اپنے کلاس فیلو کا نام لیا۔ آپ اپنی اس عادت میں تبدیلی لائیں اور آئندہ احتیاط اور احترام سے نام لکھیئے۔ میں اس مضمون کی وساطت سے صرف آیت اللہ حضرت سید علی خامنہ ای کے حوالے سے شکایت نہیں کرتا بلکہ جس شحصیت کو جتنی عزت ملتی ہے، ویسا ہی برتاو کیا جائے۔ آخری بات یہ کہ پاکستان کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر جس طرح صرف خامنہ ای اور خمینی سے پکارا جاتا ہے، میں آپ سے عاجزانہ سوال کرتا ہوں کہ اُن کی طرح آپ کے ایک حکم پر دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ کٹ مرنے کے لئے تیار ہیں، کیا دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگ اُن کی دینی تعلیمات کی جیسی پیروی کرتے ہیں، کیا آپ کی بھی کرتے ہیں۔ دنیا میں اُنکے عقیدت مند اُن کے ایک جلوے کے لئے ترستے ہیں، آپ کی بھی شکل مبارک دیکھے ایسا کرتے ہیں؟ دنیا میں لاکھوں لوگ اُن کی اطاعت کو رضائے الٰہی سمجھتے ہیں، ادھر آپ کی اطاعت کتنے لوگ کرتے ہیں۔ یہ مجتہدین جب نماز جمعہ کا خطبہ دینے لگتے ہیں تو اِن کے ہر حکم پر لبیک لبیک کا اعلان کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ہاتھ بلند کرتے ہیں، آپ جب بازار سے گزرتے ہیں تو کتنے لوگ مصافحہ کرنے آگے بڑھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جب آپ نمودار ہوتے ہیں تو آپ آپ نہیں رہتے بلکہ اِس ملک کی آواز بن کر بولتے ہیں اور پاکستان کی آواز تو نہایت نرم دلنشیں اور پُر اثر ہے، جبکہ آپ کی آواز میں ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا۔ خدا را قوم کی آواز کو مہذب دکھائیں۔ بات میں تلخی آئی تو معذرت چونکہ میں زہر ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔
خبر کا کوڈ : 714207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش