3
0
Wednesday 28 Mar 2018 16:58

پاراچنار، دلخراش سانحات کی داستان(1)

پاراچنار، دلخراش سانحات کی داستان(1)
تحریر: ایس این حسینی 
 
چند روز قبل اسلام ٹائمز کی انہی سطروں میں دو قسطوں پر مشتمل ایک تحریر قارئین کی نظروں سے گزر چکی ہوگی۔ جسمیں کرم ایجنسی میں ہونے والے فسادات کی داستان بیان کی جاچکی تھی، قارئین کے بےانتہا اصرار اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ گذشتہ سطروں میں آپ پر یہ بات واضح کی گئی تھی کہ 1987ء کی شیعہ سنی لڑائی کی بنیاد بوشہرہ (جسے بوشہرہ کی بجائے ام الفساد کہنا مناسب ہوگا۔) ہی سے پڑ گئی اور پھر آنا فانا جنگ کے شعلے پورے کرم میں بھڑک اٹھے۔ مقامی اہل سنت نے مسلح افغان گروپوں (مجاہدین) کے تعاون سے بالش خیل، ابراہیم زئی، غربینہ، کُنڈیزار، سنگینہ، گوبزنہ، پیواڑ، خرلاچی، شنگک، کنج علی زئی، مینگک، کڑمان اور شلوزان وغیرہ پر بیک وقت حملے شروع کئے۔ مہاجرین کے ساتھ موجود بے پناہ وسائل کے مقابلے میں طوریوں کے پاس محدود وسائل کے باعث بالش خیل، ابراہیم زئی، غربینہ، کُنڈیزار، سنگینہ اور گوبزنہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے جبکہ سینکڑوں خاندان گھر بار چھوڑ کر اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
 
ستمبر 1996ء کے فسادات:
1987ء کے بعد جزوی طور پر کرم ایجنسی میں کئی فسادات ہوئے، جن میں کوئی خاص نقصان نہ ہونے کے سبب ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ تاہم 1996ء میں ایک بار پھر فسادات کی جڑ بوشہرہ ہی رہا۔ ہوا یوں کہ یہاں پر موجود ہائی سکول میں، ایک متعصب تھیالوجی ٹیچر افسری محمد منگل نے کلاس میں موجود درجنوں شیعہ طلباء کے سامنے حضرت ابوطالب کی شان میں گستاخی کی۔ اس پر شیعہ طلباء اشتعال میں آکر واک آؤٹ کرگئے، واک آؤٹ کے بعد انہوں نے اپنے دیگر اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر سے شکایت کی، انکی جانب سے کوئی مثبت جواب نہ آنے پر طلباء نے ایجنسی ایجوکیشن آفیسر کی طرف رجوع کیا۔ انہوں نے بھی سنی ان سنی کردی۔ چنانچہ اس کے بعد ایجنسی میں حالات کشیدہ ہونا تو فطری امر تھا، مگر حالات اس قدر کشیدہ ہونے کے باوجود ان عناصر نے صبر کی بجائے ایک قدم اور لیا، پاراچنار شہر میں آٹے میں نمک کے برابر ہونے کے باوجود اسرار شہید ہائی سکول پاراچنار میں سنی طلباء نے اسلامیات پیریڈ میں (اپنے سرپرستوں کی ایماء پر) کمرہ جماعت کے تختہ سیاہ نیز سکول کے احاطے میں دیواروں پر "شیعہ کافر" کے نعرے لکھ کر جلتی پر تیل ڈالدیا۔ کلاس میں جب شیعہ طلباء آگئے (خیال رہے کہ اس وقت شیعہ اور سنی طلباء کے لئے اسلامیات کی الگ الگ کتاب اور پیریڈ ہوا کرتے تھے۔) تو یہ نعرہ دیکھ کر سخت مشتعل ہوگئے اور نعرہ بازی شروع کی۔

شیعوں کی نعرہ بازی کے سات ہی قریب واقع سنی جامع مسجد کے مینار سے فائرنگ شروع ہوگئی، گویا سکول کے طلباء کے ساتھ مسجد کا ڈائریکٹ رابطہ تھا، اس دوران کئی طلباء اور اساتذہ کے علاوہ عام راہی جاں بحق یا زخمی ہوگئے۔ اسی سکول کے ایک قابل استاد حسین خان بھی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگ کر عمر بھر کے لئے مفلوج ہوگئے لیکن جنگ شروع ہونے پر درجنوں سنی طلباء سکول میں محصور ہوگئے، تاہم شیعہ ہیڈ ماسٹر حاجی اسرار حسین بنگش نے اپنے سنی شاگردوں کی آخری دم تک حفاظت کا اپنا پیشہ ورانہ فریضہ سرانجام دیا، یہاں تک کہ اپنی جان قربان کی مگر درجنوں سنی طلباء کا دفاع کرتے ہوئے انکی جان بچا دی۔ (خیال رہے کہ اسکے اس فرض منصبی کے وجہ سے اسے تمغہ جرات دیا گیا۔ نیز اس سکول کا نام اسرار شہید رکھا گیا)۔ یوں 10 ستمبر 1996ء کو دن کے 10 بجے فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ 1987ء کی طرح اس مرتبہ بھی پورا علاقہ (کرم ایجنسی) فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ آنا فانا کڑمان، خرلاچی، پیواڑ، شنگک، نستی کوٹ، کنج علیزئی، شلوزان، ملانہ، بالش خیل، لوئر کرم کے تمام علاقوں پر جنگ مسلط کی گئی۔ جسکے نتیجے میں بالش خیل خصوصا سرحدی دیہات پیواڑ اور خرلاچی کو شدید نقصان پہنچ گیا۔ تاہم 1987ء کے مقابلے میں اس دفعہ طوری بنگش اقوام کی دفاعی صلاحیت بہتر تھی، نیز افغان مہاجرین کی تعداد بھی نسبتا کم تھی، چنانچہ جہاں طوریوں کو نقصان پہنچا اس سے کہیں بڑھ کر مقابل فریق بھی نقصان سے دوچار ہوا۔
 
اپریل 2007ء کے فسادات:
2005ء سے طالبان نے دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم میں بھی اپنی سرگرمیاں تیز کردی تھیں، شیعہ عمائدین، علماء اور دیگر رہنماؤں نے بار بار حکومت کو خطرناک نتائج سے آگاہ کردیا، یہاں تک کہ 2006ء میں شہید عارف حسینی کی برسی کے موقع پر تحریک حسینی نے ایک وائٹ پیپر شائع کیا جس کی کئی کاپیاں مقامی انتظامیہ کو بھی دی گئیں مگر حکومت نے بظاہر اپنی بےبسی کا اظہار کرکے نفی میں جواب دیا۔ اس دوران طالبان کو ایک سنہری موقع اس وقت ہاتھ آگیا جب کرم ایجنسی کی سنی اقوام نے سپاہ صحابہ کے بدنام زمانہ دہشتگرد عید نظر منگل کو جامع مسجد کا انچارج اور اپنا سیکرٹری منتخب کیا۔ انہوں نے اسی سال 12 ربیع الاول (یکم اپریل 2007ء) کو عید میلاد النبی کے جلوس میں نعوذ باللہ "یزیدیت زندہ باد، حسینیت مردہ باد" کے نعرے بلند کئے۔ جس پر کافی کشیدگی پیدا ہوگئی۔ شیعہ جوانوں کا اصرار تھا کہ انہیں اجازت دیکر جلوس میں جوابی نعروں کی اجازت دی جائے تاہم اس وقت کے سیکرٹری حاجی علی اکبر نے انہیں تسلی دی کہ اسکا جواب 17 ریبع الاول کے عید میلاد النبی جلسے میں دیا جائے گا۔ چنانچہ 17 ربیع الاول (6 اپریل) کو جلسہ سے خطاب کرنے کے لئے جیسے ہی ایک سنی عالم دین سٹیج پر تشریف لے آئے، کہ اس دوران چند جذباتی جوانوں نے نعرے لگاتے ہوئے جلوس نکالا۔ انکی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں تھی۔ دو درجن افراد پر مشتمل جوانوں کا جلوس جیسے ہی مسجد کے قریب یعنی پنجابی بازار پہنچ گیا۔ تو پہلے سے تاک میں بیٹھے ہوئے دہشتگردوں حتی کہ اس وقت کے محال تحصیلدار ریحان نے جلوس پر فائرنگ کرکے خاک و خون میں غلطاں کردیا اور پھر شدید فائرنگ شروع ہوگئی، چونکہ مسجد والوں کو حالات کا پتہ تھا۔ انہوں نے جنگ کی بھرپور تیاری کی تھی چنانچہ دو روز تک مسجد سے مارٹر کے گولے برسائے۔ جس سے سینکڑوں کی تعداد میں شیعہ جاں بحق یا زخمی ہوگئے۔ اس دفعہ بھی فسادات کی آگ پوری کرم میں بھڑک اٹھی۔ اور کوئی 15 دن تک جاری رہنے کے بعد لڑائی تھم گئی۔ اس لڑائی میں سینکڑوں کی تعداد میں شیعہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ 

نومبر 2007ء کی لڑائی:
طالبان نے 2005ء ہی سے کرم ایجنسی میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیئے تھے۔ مقامی سنی قبائل کے تعاون سے شیعہ افراد، سکول کے بچوں، راستوں میں گاڑیوں کے ڈرائیوروں وغیرہ کو اغواء کرنا شروع کردیا۔ لوئر کرم تو طالبان کا گڑھ تھا ہی، اب شیعہ اکثریتی علاقے پاراچنار میں موجود سنی مسجد کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ حکومت کے ہوتے ہوئے پاراچنار شہر میں ایسی حالت میں مسلح گشت شروع کی، جبکہ شیعہ افراد اپنے علاقے میں چاقو تک نہیں لے جاسکتے تھے۔ اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں حالات نہایت کشیدہ ہوگئے۔ طالبان نے طوری افراد خصوصا سکول کے بچوں کی اغوا کی کاروائیاں شروع کیں۔ اور بالآخر 16 نومبر 2007ء کو ایک گھر سے بازار کے وسط میں ہینڈ بم پھینک کر فسادات کا آغاز کردیا۔ اسکے ساتھ ہی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور پھر آنا فانا پورے کرم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوئر کرم پر وزیرستان، خیبر ایجنسی یہاں تک کہ سوات جیسے دور افتادہ علاقوں سے طالبان کے لشکر پر لشکر کرم پر چڑھائی کرنے لگے۔ افسوس کی بات یہ کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں کلومیٹر دور واقع علاقوں سے طالبان کے مسلح قافلے ایسے سرکاری روڈ پر کرم آکر لشکر کشی کرتے رہے، جہاں عین سڑک پر پشاور، کوہاٹ، ہنگو اور ٹل سکاوٹس کی طرح درجنوں دیگر فوجی قلعے بھی واقع تھے، یہاں تک کہ فوجی قلعہ جات سے گزرتے وقت، ایف سی میں موجود طوری اہلکار، بیسیوں گاڑیوں پر مشتمل مسلح قافلے کی اطلاع، کرم میں برسرپیکار طوری گروپوں کو دیا کرتے تھے، چنانچہ ان لشکر کشیوں کے نتیجے میں ابتداء میں طوریوں کے کئی دیہات جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے، سیدانو کلے (آڑاولی)، جیلمئے، چاردیوال، خونسیدئے اور خیواص کی شیعہ آبادی کو مکمل طور پر ملیامیٹ کردیا گیا اور یوں ہزاروں خانوادے متاثر ہوکر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تاہم اسکے بعد اپر کرم کے طوری بنگش قبائل نے جوابی لشکرکشی کرکے لوئر کرم کے طوریوں کی کمک شروع کی، تو طالبان اور طالبان نواز مقامی قبائل کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران انکے بھی درجنوں ایسے دیہات جو طالبان کا گڑھ بن گئے تھے، جیسے مخی زئی، باگزئی اور غم کوٹ وغیرہ راکھ کا ڈھیر بن گئے اور طالبان کو کوئی پچاس کلومیٹر پیچھے دھکیل کر ٹل پہنچا دیا گیا۔ خیال رہے کہ اس دوران تین ہزار سے زائد افراد کو طالبان اور انکے ہم مشربوں نے راستوں میں گاڑیوں سے اتار کر یا دھماکے کراکر قتل، جبکہ 10 ہزار سے زائد افراد کو زخمی کردیا۔ 

اہلیان پاراچنار کی ٹارگٹ کلنگ کے دلخراش واقعات کی داستان:
اہلیان پاراچنار پر لشکر کشیوں کی چال جب ناکام ہوگئی تو طالبان اور انکے ہم مشربوں نے اپنا پینترا بدل کر خودکش دھماکے شروع کئے، پانچ چھ دھماکے کرکے سینکڑوں افراد کو شہید اور زخمی کردیا، تاہم اس سے نمٹنے کے لئے جب لوگوں نے مقامی سطح پر اپنی رضاکار فورس تشکیل دیکر پاراچنار کی سیکیورٹی سخت کردی اور دھماکوں کی روک تھام کرگئے۔ تو طالبان نے اپنا پینترا ایک بار پھر بدل دیا، اور پشاور، اسلام آباد، کوہاٹ، خیبر ایجنسی اور افغانستان کو اپنا مرکز بناکر یہاں طوریوں پر حملے شروع کر دیئے۔ راستوں میں لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر اغواء یا قتل کرنے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ اغواء برائے تاوان کے تحت طوریوں نے کروڑوں کا تاوان ادا کیا۔ اغوا کاروں کی اصلیت کا حکومت کو بخوبی علم تھا۔ طوری اقوام اپنی شکایت جب حکومت کو پیش کرتیں تو وہ اپنی بےبسی کا اظہار کرکے سنی ان سنی کردیتی تھی۔ اس کی ایک طویل تاریخ ہے تاہم ذیل میں مختصرا کچھ چیدہ چیدہ واقعات کا تذکرہ کردیتے ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 714388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

shabir hussain toori
Pakistan
mazrat, qastoon ma dia jani wala tahreer ma ziada waqfa na raka karo. ap loog mazmon ka aik hisa shaya karty han, insan ko tama ma raka kartay han, js tarah tv pr drama deya jata hy. insan ko aik hafta intzar krna parta hy. mazrat k sath. agla hisa b agly he din shaya kia karen.
thanks
محمد علی جان
Pakistan
کرم ایجنسی کی مکمل تاریخ اگر ہوسکے تو اسلام ٹائمز پر قسط وار پبلش کریں۔ خصوصاً یہاں پیش آنے والے واقعات کی پوری تفصیل اگر ممکن ہو تو شائع کرین۔
Syed Naib Hussain
Pakistan
Sallam. Agar hu saky saary waqiaat ka detail video documentary baby. Shukrya
ہماری پیشکش