0
Wednesday 28 Mar 2018 09:24

امام محمد تقی (ع) کی سیرت طیبہ اور امت اسلامی کی وحدت میں ہماری ذمہ داری

امام محمد تقی (ع) کی سیرت طیبہ اور امت اسلامی کی وحدت میں ہماری ذمہ داری
تحریر: محمد اشرف ملک
malikashraf110@gmail.com

امام محمد تقی (ع) کی  ولادت:
جب امام رضا (ع) کی عمر مبارک 47 سال ہوتی ہے تو سال 195ھ میں امام محمد تقی (ع) کا تولد پر برکت اور نور پرافروز 10 رجب المرجب کی رات کو امام رضا (ع) کے گھر میں طلوع ہوتا ہے۔ امامت کے سلسلہ کی نویں کڑی امام کے وجود پر برکت سے تکمیل ہوتی ہے۔ عالم، امام کے نور سے منور ہوتا ہے۔ امام کے دل میں سکون اور اطمینان نہمین آفتاب امامت کی زیارت سے ایجاد ہوتا ہے۔ دشمنوں کی تمام کوششیں نقش بر آب ہوتی ہیں اور مومنین اس زمان سے قیامت تک امام کے وجود پر برکت سے اس دن خوشحال و مسرور ہوتے رہیں گے۔

امام محمد تقی (ع) کی امامت سے  قبل عالم اسلام کی سیاسی صورتحال: 
امام موسی کاظم (ع) کی شہادت کے بعد امام  علی رضا (ع) کے سامنے مختلف  چیلنجز ہیں ایک  طرف سے بعض منحرف شیعہ  امام کی امامت کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں شبہات ایجاد کرتے ہیں تو دوسری طرف معتزلہ اسلام کا حقیقی چہرہ مامون کی سرپرستی میں خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ امام رضا (ع) کے زمانہ میں بہت سارے  اسلامی اور شیعی فرقے وجود میں آچکے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگ امام رضا (ع) کی امامت کے منکر ہو جاتے ہیں۔ سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ ہارون کے مرنے کے بعد امین اور مامون  کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے اور امین  مامون کی فوج کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور اس کا سر طشت میں رکھ کر مامون کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں شیعیان حیدر کرار اور علویان کی تعداد و قوت اس قدر نمایاں حیثیت رکھتی  ہے  کہ  مامون مجبور ہو جاتا ہے  کہ امام (ع) کو مدینہ سے خراسان بلائے اور اس طریقہ سے  امام (ع) اور پیروان امام کو کنٹرول کر سکے، امام کو  مدینہ سے خراسان بلا لیتا ہے۔ مامون  ظاہری طور پر امام کا حد سے زیادہ احترام کرتا ہے، امام کو حکومت پیش کرتا ہے جس میں کامیاب نہیں  ہوتا تو  امام کو ولیعہدی پر مجبور کرتا ہے جسے امام مصلحت کے تحت بعض شرائط سے قبول کر لیتے ہیں۔

جب علی ابن موسی رضا (ع) کی ولایت عہدی کی خبر مکہ، مدینہ، عراق، ایران اور شام گویا تمام مملکت اسلامی میں پہنچتی ہے تو ان تمام مقامات پر لوگوں کی زبان پر اہلبیت کے فضائل ہوتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر وہ شہر ہیں کہ جن میں صرف عام لوگ معمولی جگہوں پر نہیں بلکہ اپنے خیال کے مطابق اہل علم جمعہ کے دن، جمعہ کے خطبات میں مسجد کے اندر ہزاروں نمازیوں کی موجودگی میں آل محمد (ع) کو برا بھلا کہتے تھے اور کسی کو ان کو روکنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ امام (ع) کی ولی عہدی  قبول کرنے سے  آل محمد کے ماننے والوں کے دلوں میں سکون و اطمینان ایجاد ہوتا ہے جبکہ آل محمد سے  بعض بےخبر لوگ ان کی عظمت اور شان سے آشنا ہو کر ان کو  اپنا امام ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مامون  نے جن اہداف کے تحت امام (ع) کو مدینہ سے بلایا تھا  وہ ہمیشہ ان کی تکمیل میں لگا رہتا جبکہ امام (ع) بھی اس  موقع سے  کماحقہ استفادہ کرنے کی کوشش میں ہمیشہ مصروف رہتے  تھے۔ مامون نے امام علی رضا (ع) کے ساتھ مختلف ادیان کے لوگوں کے ساتھ مناظرے کروائے، ان مناظروں میں بھی امام (ع) کامیاب رہے اور لوگوں کے دلوں میں آل محمد (ع) کی محبت روز بروز زیادہ سے زیادہ ہو رہی  تھی۔

امام محمد تقی (ع) کا داخلی طور پر گمراہ و منحرف افراد سے مقابلہ: 
حضرت  امام  محمد تقی (ع) نے خود تشیع  میں گمراہ  ہونے والے افراد  کے بارے  میں سکوت  اختیار نہیں کیا  بلکہ فرقہ واقفيہ کے بارے میں کہ جو لوگ امام موسي كاظم (ع)کی غیبت کے قائل تھے اور اسی بہانہ کی وجہ سے بہت زیادہ شرعی رقوم کو ہڑپ کر لیا تھا، ایسے لوگوں کو اس آیت شریفہ "وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے"، کا مصداق شمار کیا ہے اور ایک جگہ فرمایا کہ شیعوں کو ان لوگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہیئے۔ حضرت (ع) نے اپنے زمانے کے غالیوں کو جنہوں نے ابو الخطاب کی رہنمائی میں حضرت علي (ع) کو الوهيت اور ربوبيت کی حد تک پہنچا دیا تھا،کے بارے میں فرمایا: ابو الخطاب، اس کے ساتھیوں اور جو لوگ اس پر لعنت کرنے میں توقف کریں یا شک کریں، ان سب پر خدا کی لعنت ہو۔ اس فرقہ کے متعلق حضرت (ع) کا سخت رویہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ آپ (ع) اسحاق انباری سے ایک روایت میں فرماتے ہیں:" ابو المہری اور ابن ابي الرزقاء کو جس طرح بھی ہو سکے قتل کیا جائے"۔
  
آج کے دور میں امام  کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے تشیع لندنی  کی سازشوں کا ناکام کرنا: 
آج اس دور میں خود شیعہ کے اندر  تشیع لندنی ایجاد کر کے  مختلف  شبہات ایجاد کئے جا رہے ہیں اور تشیع کا شاندار و تابناک چہرہ گرد آلود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں کہ جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مقام معظم رہبری  آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے قوم  شیعہ کو ان کے  فتنہ سے ہوشیار رہنے  کی نصیحت فرمائی ہے۔ پاکستان کے اندر مجالس حسین (ع) کہ جو  اسلام حقیقی کا بہترین ذریعہ ہیں ان مجالس کے اندر بعض منحرف ذاکر و خطبا، شیعہ عقاید، شیعہ کردار و رفتار جو معصومین (ع) سے بیان شدہ ہے اس کے خلاف جب بیان کرنا شروع کیا تو آیت اللہ محمد حسین نجفی زید عزہ نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ حقیقت کیطرف قوم کو متوجہ کیا اور آج جسے تشیع  لندنی کہا گیا ہے اس فقیہ اہلبیت   (ع) نے سالہا سال پہلے ان کی گمراہی سے آگاہ کیا۔ ہم سب کو امام محمد تقی (ع)  کی ولادت با سعادت کے دن امام (ع) سے عہد کرنا چاہیئے کہ اے امام جواد ہم دنیا کو آپ کی پاکیزہ سیرت سے اور  مکتب اہلبیت سے آشنا کروانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور داخلی و خارجی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔

امام (ع) کا یحیٰی بن اکثم سے مناظرہ: 
امام محمد تقی (ع) کا آٹھ سال کی عمر مبارک میں وہ مقام عظمت ہوتا ہے کہ مامون جسے  درک کر لیتا ہے اور  امام کی حرکات و سکنات کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنی بیٹی امام کی زوجیت میں دینے کا ارادہ کرتا ہے کہ جس کی بنو عباس کے باقی افراد مخالفت کرتے ہیں۔ مامون ان کو قانع کرنے کے لئے  امام کی عظمت اور علم کا دعوی کرتا ہے کہ جسے ثابت کرنے کے لئے مختلف مناظرات کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ ایک مناظرہ میں عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے "یحییٰ بن اکثم" کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد (ع) کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحیٰی نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا، اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔ مامون نے کہا خود ان سے اجازت لو، یحیٰی نے امام محمد تقی (ع) سے اجازت لی۔ امام (ع) نے فرمایا: یحیٰی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ یحیٰی نے کہا، یہ فرمائیے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔ امام محمد تقی (ع) نے اس کے جواب میں فرمایا، اے یحیٰی! تمہارا سوال بالکل مہمل ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاہل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہو گیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جا سکتا۔

امام محمد تقی (ع) نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحیٰی بن اکثم حیران و ششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اور شکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے تھے امام (ع) کےسامنے اس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اور گنگ ہو گئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاہدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔ مامون نے امام محمد تقی (ع) کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔ امام محمد تقی (ع) نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرت نے (ع) نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہے تو یہی کفارے دگنے ہو جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو "منیٰ " میں قربانی کرے گا، اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو "مکہ" میں اس کی قربانی کرے گا اور شکار کے کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں (کفارہ کے واجب ہونے کے علاوہ) گنہگار بھی ہے، لیکن بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔  

مامون نے کہا: احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیى بن اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ (ع) سے سوال کیا ہے۔ امام (ع) نے یحیی سے کہا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کہا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہو جاؤں، اگر مجھ سے ہو سکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔ امام محمد تقی (ع) نے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہو گئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہو گئی، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہو گئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔ امام (ع) کے سوال کو قاضی القضاة یحیٰی بن اکثم سن کر مبہوت ہوکر کہنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی نہیں معلوم ہے، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔ امام (ع) نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے "ظہار" کیا جس کی وجہ سے پھر حرام ہو گئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بنا پر پھر حرام ہو گئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہو گئی۔ امام (ع) کے ان علمی کامیابیوں اور مناظرہ میں عظمت کا واقعہ پوری مملکت اسلامی میں پھیل گیا، علویان اور شیعیان حیدر کرار کی عظمت کے چرچے تھے جو لوگ معصومین (ع) کو نہیں جانتے تھے ان تک جب آل محمد کی عظمت اور سیرت پہنچتی ہے تو وہ دل سے آل محمد کی تعلیمات کو قبول کرتے ہیں  اور  دشمنی و بغض اہلبیت کو ہمیشہ کے لئے دل سے نکال دیتے ہیں۔ آج  کے اس دور میں تمام شیعیان حیدر کرار کو اور خصوصا طلاب، علماء دین کو مکتب آل محمد کی حقیقی تصویر دکھانے کی ضرورت ہے،  جسے مرجعیت اور ولایت فقیہ کے راہنما اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر اس فریضہ کی ادائیگی میں جلد ہی کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔

امت مسلمہ کی وحدت کیلئے امام محمد تقی (ع) کے ماننے والوں کا کوشش کرنا: 
پاکستان کے اندر اس وقت نمائندہ ولی فقیہ معصومین (ع) کی سیرت طیبہ سے الہام  لیتے ہوئے اور امام خمینی (رہ) و مقام معظم رہبری کے راہنما اصولوں کے پیش نظر اپنی سیاسی بصیرت سے استعمار، امریکہ اور اسرائیل کی تمام کوششوں کو ناکام کرتے ہوئے امت مسلمہ کی وحدت کی طرف صرف نام کی حد تک اور صرف نظری طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر متحدہ مجلس عمل کی صورت میں آغاز کر چکے ہیں۔ آج  ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق ولایت و قیادت ہاتھوں کو مضبوط کرے، اس لئے کہ  اس سے امت مسلمہ میں اتحاد و وحدت کی راہیں مضبوط ہو سکتی ہیں۔ مسلمین  کی وحدت، امت مسلمہ کے درمیان  اتحاد و اخوت، امام خمینی (رہ) اور مقام معظم رہبری کا  ایک خواب ہے کہ  جس  کی تعبیر کے لئے  ہم سب کو  ماضی کے تمام  تلخ حالات کو  بھلاتے ہوے ولایت و قیادت کی آواز پر لبیک  کہنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔ جن لوگوں کو کل تک شیعہ سے دور رکھنے کی ہر کوشش  کی گئی  قیادت کی بصیرت سے  آج وہ اپنی  بقا کا راز مکتب تشیع  کو سمجھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے بغیر گلدستہ امت اسلامی میں خوشبو سے معطر نہیں ہوا جا سکتا۔

مقام معظم رہبری اس حوالے سے امام محمد تقی (ع) کے ایک  فرمان کی روشنی میں فرماتے ہیں: امروز هر حنجره‌ای كه به وحدت دنیای اسلام دعوت كند، حنجره‌ی الٰهی است، ناطق من اللّه است، هر حنجره‌ای و زبانی كه ملتهای مسلمان را، مذاهب اسلامی را، طوایف گوناگون اسلامی را به دشمنی با یكدیگر تحریك كند و عصبیتها را علیه یكدیگر تحریك كند، ناطق من الشیطان است. «من اصغی الی ناطق فقد عبده فان كان النّاطق عن اللّه فقد عبد اللّه و ان كان النّاطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس»۔ آنهائی كه از زبان ابلیس حرف مزنند، خودشان و مستمعین خودشان را به طرف جهنم میبرند؛ خودشان را هم دچار ہلاكت میكنند۔ كسانی كه امروز دنیای اسلام را از اتحاد و یكپارچگی دور میكنند در حالی كه احتیاج به یكپارچگی، امروز بیشتر از همیشه است، اینها به نفع شیاطین كار میكنند، به نفع ابلیس‌ها كار میكنند"۔ ۱۳۹۲/۰۳/۱۸
آج ہر وہ گلا کہ جو  عالم اسلام کی  وحدت کی طرف دعوت کرتا ہے  وہ گلا، الٰہی گلا ہے یعنی خدا کی طرف سے بول رہا ہے۔ ہر وہ گلا اور زبان جو مسلمان اقوام کو، اسلامی مذاہب کو اور اسلام کے مختلف گروہوں کو  ایک دوسرے کے خلاف دشمنی پر ابھارتا ہے اور ان کے تعصبات کو ایک دوسرے کے خلاف حرکت میں لاتا ہے تو  ایسا شخص شیطان کی طرف سے بول رہا ہوتا ہے۔ یہ مطلب امام محمد تقی (ع)  کے اس فرمان سے لیا گیا ہے۔ "من اصغی الی ناطق فقد عبده فان كان النّاطق عن اللّه فقد عبداللّه و ان كان النّاطق ینطق عن لسان ابلیس فقد عبد ابلیس". مقام معظم رہبری فرماتے ہیں کہ آج جو لوگ  عالم اسلام کو وحدت، اتحاد اور ایک  پارچہ ہونے سے دور کر رہے ہیں جبکہ اس زمانے میں بیشتر از ہمیشہ ایک پارچہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد شیاطین کے منافع کے لئے کام کر رہے ہیں، ابلیسھا کے منافع کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی امام جواد (ع) کے صدقہ میں ہم سب کو  اسلام  ناب  محمدی کی نصرت کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین 
خبر کا کوڈ : 714394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش