3
0
Saturday 31 Mar 2018 22:15

ایم ایم اے کی بحالی پر چند سوالات

ایم ایم اے کی بحالی پر چند سوالات
تحریر: نادر بلوچ

دینی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل 2002ء میں اس وقت وجود میں آیا، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہوچکی تھی، اس اتحاد کا بظاہر مقصد فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسی کی مخالفت اور اسلامی رہنما اصولوں کا دفاع کرنا شامل تھا، اس اتحاد میں دینی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام سین، تحریک جعفریہ پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت اہل حدیث، جے یو پی نورانی اور جماعت اسلامی پاکستان شامل تھیں۔ اس اتحاد نے 2002ء میں بھرپور الیکشن لڑا اور خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں کے علاوہ صوبے کی تمام قومی اسمبلی کی نشستیں اپنے نام کیں اور صوبے میں آسانی سے حکومت بنالی۔ اس کے علاوہ اس اتحاد نے سندھ سے 5، پنجاب میں 3 اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 6 نشستیں حاصل کیں۔ یوں دینی جماعتوں کے اس اتحاد نے قومی اسمبلی کی کل 342 میں سے 63 نشستیں اور ایوان بالا یعینی سینیٹ میں 100 میں سے 6 نشستیں حاصل کیں۔

یہ اتحاد اس وقت پارہ پارہ ہوا، جب مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کی جنرل کونسل کے متفقہ فیصلوں سے انحراف کرتے ہوئے دینی جماعتوں کے سیاسی کردار کو سوالیہ نشان بنا دیا تھا۔ یوں رسمی طور پر یہ اتحاد دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں اپنے انجام کو پہنچا اور دینی جماعتیں الگ الگ اپنی شناخت کے ساتھ الیکشن میں وارد ہوئیں۔ تقریباً دس سال بعد یہ اتحاد تو بحال ہوگیا ہے، لیکن اس بار اہل سنت والجماعت یعنی بریلوی مکتب فکر کی بڑی جماعت جے یو پی اور دیوبند سے تعلق رکھنے والے مولانا سمیع الحق اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں، اتحادی کی بحالی پر سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہے اور اس اتحاد کی بحالی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

احمد حذائفہ نے ایم ایم اے کی قیادت کی تصویر کے ساتھ یہ کمنٹ لکھا کہ"اسلام زندہ ہوتا ہے ہر پانچ سال بعد"، اس تصویر اور کمنٹ کو کم و بیش دس ہزار سے زائد لوگوں نے شئیر کیا، ایک دل جلے نے لکھا کہ اس بار اسلام پانچ نہیں بلکہ دس سال بعد زندہ ہوا ہے۔ اسی طرح متعدد لوگوں نے طنزیہ جملے کسے، جنہیں تحریر کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس اتحاد کی مخالفت اتنی شدت سے کیوں کی جا رہی ہے۔؟ ماضی میں ایم ایم اے کے ٹوتنے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو بہت ساری چیزیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور شائد یہی مخالفت کی بھی وجوہات ہیں۔

2006ء میں تحفظ حقوق نسواں ترمیمی بل پر ایم ایم اے میں شامل تمام دینی جماعتوں نے تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا، اس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے یہاں تک اعلان کیا تھا کہ ’’اگر اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا تو استعفے دے دیں گے۔‘‘ مرحوم قاضی حسین احمد نے 21 ستمبر 2006ء کو پریس کانفرنس میں کچھ یوں کہا تھا "اس وقت جنرل مشرف ہر کام امریکہ کی خوشنودی کے لئے کر رہے ہیں، اگر حکومت نے حدود آرڈیننس کا وہی بل دوبارہ پیش کیا تو ایم ایم اے تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے گی۔" اس دھمکی کے باوجود مشرف حکومت نے 10 نومبر 2006ء کو تحفظ حقوق نسواں ترمیمی بل منظور کر لیا اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان نے فقط لفظی گولہ باری پر ہی اکتفاء کیا، مولانا نے کہا تھا کہ "سلیکٹ کمیٹی نے جو بل کا مسودہ پیش کیا تھا، قومی اسمبلی میں پیش کردہ مسودہ وہ نہیں ہے اور علماء کمیٹی سے طے شدہ بھی نہیں ہے، سلیکٹ کمیٹی اور اسمبلی سے باہر کے علماء سے جو اس سلسلے میں تعاون لیا تھا، اس کا بھی احترام نہیں کیا گیا، باہر سے ترامیم لائی گئی ہیں، جس معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جو 3 ترامیم ہم نے دی تھیں وہ تک شامل نہیں کی گئیں۔"

بعد میں صورتحال گھمبیر ہوگئی اور 17 نومبر 2006ء کو ایم ایم اے کے سربراہ جناب قاضی حسین احمد نے کچھ یوں کہا تھا کہ "حکمرانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی پر آنچ نہیں آنے دیں گے، اللہ کے قوانین کی حفاظت کیلئے تو ہزاروں دفعہ ایم این اے شپ اور حکومتیں قربان کر دیں گے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی غلامی کرنے والوں کو دہشت گردی جبکہ اسلامی تشخص کو مجروح کرنے والوں کو حکومت نواز رہی ہے اور امریکہ اور مغرب کا غلام بنانے کی پالیسی پر چل رہی ہے، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، حقوق نسواں بل فحاشی، عریانی اور بےحیائی کا مرکز ہے، اسے ایم ایم اے جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔"

اسی روز نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ "استعفوں کا فیصلہ مجلس عمل کی جنرل کونسل کا متفقہ فیصلہ ہے، ایم ایم اے مستعفی ہوکر عوام کے پاس جائے گی اور حکومت کو ضمنی الیکشن نہیں کروانے دے گئی، مجلس عمل نے حکومت کا چیلنچ قبول کر لیا ہے۔" مرحوم قاضی حسین احمد نے یہاں تک کہا تھا کہ "سترہویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب کسی صورت اس بل پر حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے، اگر بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو حکومتوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔" یاد رہے کہ مشرف کو باوردی صدر بنوانے میں بھی ایم ایم اے کا اہم کردار تھا۔

ایم ایم اے میں شامل تمام جماعتوں نے اتفاق کیا تھا کہ بل کی منظوری کی صورت میں دین اسلام کی خاطر تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے، لیکن پھر مولانا فضل الرحمان آڑ گئے اور یوں ایم ایم اے کا متفقہ فیصلہ ہوا میں اڑا دیا گیا اور آخری وقت تک مجلس عمل امریکہ نواز حکومت کا حصہ بنی رہی۔ مولانا فضل الرحمان کی وجہ سے تمام دینی جماعتوں کی سبکی ہوئی اور بعد میں ایم ایم اے کا انجام ٹوٹنے پر ہی منتج ہوا۔ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے یہاں تک کہا تھا کہ جب تک ایم ایم اے کے ٹوٹنے کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوتا، اس وقت تک جماعت اسلامی کسی صورت متحدہ مجلس عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔ لیکن تاریخ نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے دیکھا کہ تمام جماعتیں جو ماضی میں اصولی معاملات پر الگ ہوگئی تھیں، اب پھر سے مولانا فضل الرحمان کی قیادت پر متفق ہوگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور قرآن مجید کی قسمیں کھانے والے اب مزید کس کی قسمیں کھائیں گے۔؟ لبرلزم اور امریکہ کا حوالہ دیکر قوم کو مزید کتنا بےوقوف بنایا جاسکتا ہے۔؟ ایم ایم اے میں شامل تمام دینی جماعتوں کو ماضی کے فیصلوں اور وعدوں کا حساب دینا ہوگا۔

پچھلی مرتبہ مجلس عمل صرف اور صرف مولانا فضل الرحمان کی جاہ طلبی اور اقتدار پرستی کی وجہ سے ٹوٹی تھی، اس لئے اس پر دوبارہ اعتماد کرنا اور اسکی قیادت میں کام کرنا ایک غیردانشمندانہ اقدام ہے، مولانا فضل الرحمان ریاستی عہدوں کے لالچ میں اسلام بیچنے کی تاریخ رکھتے ہیں اور ان کا ماضی اسکا گواہ ہے، ایسے میں مولانا فضل الرحمان کو اسلام اور مسلمین سے مخلص یا ایک قابل اعتماد رہنما سمجھنا خود فریبی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ محمد عامر خاکوانی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایم ایم اے کیوں بنی تھی؟ اس اتحاد نے کیا مقاصد حاصل کئے؟ نقصان کیا ہوا؟، سب سے اہم کہ یہ اتحاد کیوں ٹوٹا؟ اس کے بعد یہ سوال آتا ہے کہ دوبارہ جڑنے سے پہلے کیا ان وجوہات کا سدباب کر لیا گیا، جن کی وجہ سے ایم ایم اے کی ہنڈیا بیچ چوراہے ٹوٹ گئی تھی۔؟ ان تمام سوالوں کا ایم ایم اے کو جواب دینا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 714437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بلوچ صاحب اس بات کو مت بهولو هم اور آپ پاکستانی هی هیں اور پاکستانی ہی رهیں گے، آپ اور آپ جیسے دوسرے دوستان کے ایم ایم اے کے بارے سوالات کا جواب ناچیز کی نظر میں سیرت سیاسی آئمه معصومین خصوصا امام علی کا پچیس ساله خانه نشینی کے دور اور ظاهری حکومت کا دور ہے اور اسی طرح امام حسن کے دورانیہ امامت میں پوشیده ہے کیونکه یه ملک بننے سے اب تک ایک طرف سکولایزم کی زد میں ہے اور اسکا مقابله آپ کو کسی طرح تو کرنا هی هوگا که نهیں ؟!!! اور دوسری طرف مکتب اهل بیت کے ماننے والوں کی اس ملک میں اقلیت کے مدنظر دین کا دم بهرنے والی مذهبی جماعتیں جو اس مملکت میں رول ادا کرسکتی ہیں اور کر رهی ہیں تمام مشکلات اور نکات ضعف کے باوجود یہی ایم ایم اے میں شامل جماعتیں ہی ہیں، لذا اس ماحول میں کسی سکولالر اور بی دین جماعت کی سپورٹ کریں یا ووٹ کاسٹ ہی نہ کریں اور غیر الهی کام قرار دیں یا تنها اور اکیلے الیکشن میں حصه لیں، جس کا تلخ تجربه بهی آپ کے سامنے ہے، بالاخر آپ میرے خیال میں اعتراضات کے بجائے ایم ایم اے سے ان شرایط کے مدنظر بهتر راه حل بتائیں؟ کیونکه صرف اعتراض کرنا تو کوئی هنر نهیں ہے، اصل بات راه حل کی ہے۔
Iran, Islamic Republic of
بہت اعلٰی
Iran, Islamic Republic of
کالم بهت اچها اور حقائق پر مبنی ہے۔
ہماری پیشکش