0
Saturday 31 Mar 2018 00:13

واشنگٹن ریاض کی بڑھتی قربتیں اور اردن کی پریشانی

واشنگٹن ریاض کی بڑھتی قربتیں اور اردن کی پریشانی
تحریر: ڈیلی رای الیوم

اردن کا دارالحکومت عمان شدید پریشانی کا شکار ہے۔ اس کے انتہائی قریبی دو اتحادی ممالک سعودی عرب اور امریکہ نے مسئلہ فلسطین سے متعلق اپنے موقف میں اچانک یو ٹرن لیا ہے جو اردن کے موقف سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ امریکی حکومت میں تیزی سے اعلی سطحی عہدیداروں کی تبدیلی خاص طور پر حال ہی میں جان بولٹن جیسے شخص کو قومی سلامتی کا مشیر بنائے جانے نے اردن کے حکام کو کنفیوز اور پریشان کر ڈالا ہے۔ جان بولٹن مسئلہ فلسطین کے بارے میں اردن کے حمایت یافتہ دو ریاستی راہ حل کے شدید مخالف ہیں اور انہیں دو ریاستی راہ حل اور مغربی کنارے کو اردن کے کنٹرول میں دیئے جانے پر مبنی منصوبے کا قاتل تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا ایسے وقت امریکہ کا دورہ کرنا جب ریاض تل ابیب جانے اور آنے والے جہازوں کیلئے اپنا آسمان کھول چکا ہے اس نکتے پر تاکید سمجھا جا رہا ہے کہ خطے سے متعلق نئی "ڈیل" پر سازباز ہو چکی ہے۔ زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس نئی ڈیل کا سب سے زیادہ نقصان اردن کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

جان بولٹن صرف عمان کے بارے میں ہی نظرثانی نہیں کریں گے۔ انہوں نے گذشتہ سال عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار یدیعوت آحرنوٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ مقبوضہ فلسطین کی صورتحال فلسطین اتھارٹی کی تشکیل سے پہلے والی صورتحال کی جانب پلٹانے کیلئے غزہ کی پٹی مصر کے کنٹرول میں دے دینے کا خیر مقدم کریں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم مصری حکام کی نظر میں یہ مسئلہ فلسطین کا صحیح راہ حل ہے۔ مصر انٹیلی جنس اور فوجی اعتبار سے غزہ کی پٹی میں موجود ہے اور زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے اقتصادی تعلقات میں بہتری لانے کے منصوبے (نیوم نامی عظیم پراجیکٹ کے ذریعے) میں شامل منظرنامے میں بھی یہی راہ حل زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

دوسری طرف اردن کا دارالحکومت امریکی حکومت میں مسلسل اعلی سطحی عہدیداروں کی معزولی اور نئے افراد کی شمولیت کے باعث صدمے کا شکار ہو چکا ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی برطرفی درحقیقت امریکی کابینہ میں عمان کے حامی اور دوست شخص کا فقدان تھا۔ یہ سفارتکار خاص طور پر اردن کے مفادات کے بارے میں بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کرتا تھا اور اس کے عمان سے انتہائی وسیع تعلقات اور چینلز تھے۔ شدت پسند حکومت کی آگ کی حرارت کم کرنے والے سفارتکار ٹلرسن کے فقدان سے ہونے والے نقصان سے زیادہ بڑا نقصان اردن کو اس وقت ہوا جب ان کی جگہ سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیک پمپیو کو نیا امریکی وزیر خارجہ بنا دیا گیا جو خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ شدت پسند تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ شام پر پہلے امریکی حملے کے حامی تھے اور توقع کی جاتی ہے کہ شام پر مزید امریکی حملوں کے حامی اور سبب قرار پائیں گے۔ عمان میں امریکی سفارتخانے نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن نے جدید اسلحے کی نئی کھیپ شام کے جنوبی حصے میں ارسال کی ہے۔ اس اعلان کے بعد اردن مزید پریشانی اور دباو کا شکار ہو چکا ہے۔

آج اردن عملی طور پر امریکی حکومت میں اپنے اتحادی کھو چکا ہے۔ عمان کے خارجہ سیاست سے مربوط ادارے امریکی منصوبے کے بانیان یعنی امریکی صدر کے داماد جیرڈ کوشنر اور مشرق وسطی میں امن کیلئے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی جیسن گرین بلاٹ سے رابطے میں ہیں لہذا اردن حکومت امریکہ سے تعلقات میں شدید احتیاط اختیار نہیں کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں امریکی سیاست میں کوئی ایسی تبدیلی رونما نہیں ہوتی جو حادثاتی ہو۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آج امریکی حکومت کی فرنٹ لائن پر ایسی شخصیات کی موجودگی امریکی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے یہ پیغام ہو کہ خطے میں "آرڈر کی تنظیم نو" کا وقت آن پہنچا ہے جو البتہ مسئلہ فلسطین حل ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف امریکی مفادات کے تناظر میں انجام پائے گا اور اس میں سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ یہیں سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ واشنگٹن کی نظر میں ان عالمی اداروں کی کوئی اہمیت نہیں۔

مذکورہ بالا مطالب سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عمان کو موجودہ حالات میں انتہائی محتاطانہ رویہ اپنانا ہو گا اور کوشش کرنا ہو گی ماضی کی طرح دوسروں کو مراعات نہ دیتا رہے جیسا کہ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے ایک بیان میں "باقورہ" نامی علاقے کو اسرائیل کی ملکیت قرار دے دیا تھا۔ آج اقوام متحدہ امریکہ کے مقابلے میں خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے بارے میں تنہا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ اور اسرائیل کے روز بروز بڑھتے ہوئے دباو کے مقابلے میں مشرق وسطی میں امن پروسس کے کوارڈینیٹر نکولائی ملاڈینوف کی پسماندگی بخوبی اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 714790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش