1
0
Thursday 5 Apr 2018 18:31

فطرت(1)

فطرت(1)
تحریر: سید حسین موسوی

اللہ تبارک و تعالٰی کیلئے فطری دلیل
فطرت کسے کہتے ہیں:
 لفظ فطرت عربی کے لفظ "فطر" سے نکلا ہے جس کے معنی " کسی چیز کو لمبائی میں کاٹنا یا چیرنا" کے ہیں، البتہ بعد میں یہ لفظ ہر چیز کی چیر پھاڑ کیلیئے استعمال ہوا ہے، جیسا کے تخلیق سے مراد "عدم کا پردہ چاک کرکے وجود میں آنا " ہے اس لئے فطر کی ایک معنی خلق کرنے اور پیدا کرنے کے بھی ہیں۔ البتہ فِطرت (فاء کے نیچے زیر) کے معنی "تخلیق یا پیدائش کا خاص طریقہ یا ترتیب ہے"۔ جب انسانی "فطرت" کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے تو اُس اصطلاح سے مراد انسان کی نفسیات کی ایک خاص بناوٹ کے ساتھ پیدائش ہے، جس کے کچھ لازمی نتائج، اثرات اور تقاضے ہیں۔ انسان جس خاص نفسیاتی بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اُس میں کچھ چاہتیں، رجحانات اور سمجھ موجود ہے، اُن چاہتون اور سمجھ کو فطری چاہتیں اور فطری سمجھ کہا جاتا ہے۔ انسان کے اندر موجود اُن خواہشات کو فطرت کہا جاتا ہے، جو بغیر سکھانے کے ہر انسان میں موجود ہیں اور پیدائشی طور پر اس کے ساتھ ساتھ ہیں مثال کے طور پر علم اور جمالیات کی چاہت وغیرہ۔ ایسی بنیادی سمجھ کو بھی فطری سمجھ کہا جاتا ہے، جس کے لئے کسی بڑے غور و فکر کی ضرورت نہیں، مثال کے طور پر دو آدھے ملینگے تو ایک مکمل بنیگا۔
 
فطرت اور عادت میں فرق:

1۔ فطرت بغیر سکھانے کے ہی انسان کے اندر ہوتی ہے، جبکہ عادات کو انسان اپنے عمل کو بار بار دہرانے سے اپنے اندر ڈالتا ہے، مثال کے طور پر چائے پینے کی عادت۔
2۔ فطرت دنیا کے ہر انسان کے اندر ہوتی ہے، جبکہ عادت کسی میں ہوتی ہے اور کسی میں نہیں۔

کچھ دوسرے الفاظ کی وضاحت:
 طبیعت، جبلت، اور فطرت: جو خاصیتیں جمادات میں ہیں ان کا نام طبیعت ہے، جیسے آگ جلاتی ہے، یہ آگ کی طبیعت ہے، جانوروں میں جو جمادات والی خصوصیات ہیں ان کو طبیعت ہی کہا جائیگا، مثال کے طور پر جانور وزن رکھتا ہے لیکن جانوروں میں کچھ اضافی خصوصیتیں بھی ہیں جن کو جبلت کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر بھوک اور پیاس کا لگنا۔ انسانوں میں جو جمادات والی خصوصیات ہیں ان کو طبیعت کہا جائیگا اور جو جانوروں والی خصوصیات ہیں ان کو جبلت کہا جائیگا۔ البتہ انسانوں میں کچھ اضافی خصوصیات ہیں جو نہ جمادات میں ہیں اور نہ ہی جانوروں میں، ان کو فطرت کہا جاتا ہے، مثال کے طور پر عدل سے محبت اور ظلم سے نفرت وغیرہ۔ البتہ ہمارے معاشرے میں یہ تینوں الفاظ ان کے معنی اور مفھوم کی طرف توجہ دیئے بغیر استعمال ہو رہے ہیں۔

فطرت اور اللہ تبارک و تعالٰى  کی تلاش:
انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اپنے وجود اور کائنات کے بارے میں معلومات حاصل کرے، یعنی تحقیق اور جستجو کرنا ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کی یہ صفت اسقدر طاقتور ہوتی ہے کہ سمجھدار انسان تو دور چھوٹے بچوں میں بھی یہ صفت موجود ہوتی ہے۔ نیچے دی گئی مثالوں پر غور کریں،
مثال: جب کوئی والد اپنے بچوں کو چڑیا گھر یا کسی ایسی جگہ لے جاتا ہے جو بچوں نے پہلے نہ دیکھی ہو، تو اپنے والد سے ہر وقت پوچھتے رہتے ہیں کہ ابو یہ کیا ہے، وہ کیا ہے؟ یہ جستجو اور تحقیق کی ہی صفت ہے جو بچوں سے ایسے سوال کرواتی ہے۔ اب اس مثال پر غور کریں:
مثال: کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ٹریفک کے حادثے میں کوئی آدمی زخم ہوکر بیہوش ہو جاتا ہے، اسکو علاج کے لئے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے، اور جب اسکو ہوش آنے لگتا ہے تو اپنے آس پاس کھڑے لوگوں سے سب سے پہلے یہ سوال کرتا ہے کہ اسے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ اور یہاں سے کب جائیگا؟ ایسے سوال انسان کی فطرت اور تحقیق و جستجو والی حس کا نتیجہ ہیں۔
 
اِسی طرح جب انسان اِس دنیا میں شعور والی آنکھ کھولتا ہے، جو کہ اس کے لئے اجنبی ہے اور عجیب و غریب نظارے دیکھتا ہے، مثال کے طور پر خوبصورت ستاروں سے مزین یہ اونچا آسمان، من کو لبھانے والے نظاروں کے ساتھ یہ وسیع و عریض زمین، رنگ برنگی مخلوق، خوبصورت پرندے، اس دنیا کو دیکھ کر انسان کی فطری حس یہ سوال کرتی ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ میرا خالق کون ہے؟ میں اس وقت کس جگہ پر ہوں؟ یہاں سے کب اور کہاں جاوںگا؟ اس لئے انسانی فطرت انسان کو خالق کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 715536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

علی عمران طور
Hungary
بہت اعلٰی قبلہ سلامت رہیں۔
ہماری پیشکش