2
1
Wednesday 4 Apr 2018 14:53

پاراچنار، دلخراش سانحات کی داستان(3)

پاراچنار، دلخراش سانحات کی داستان(3)
تحریر: ایس این حسینی

گذشتہ سے پیوستہ (آخری قسط)
شہید ساجد حسین ولد محبوب علی شلوزان:
ساجد حسین سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور ٹرک کنڈیکٹر کے طور پر گھر کی کفالت کرتا تھا۔ اسے اپنے درجنوں دیگر ساتھیون سمیت شب عید پشاور سے گھر آتے ہوئے صدہ میں اتار لیا اور نہایت ہی بیدردی سے شہید کر دیا گیا۔ انکی ایک بہن سے جب بھائی کی داستان پوچھی گئی تو انکا کہنا تھا کہ پشاور سے حرکت سے پہلے بھائی نے خدمت پوچھی، تو میں نے انکی سلامتی کے علاوہ ہر چیز کو مسترد کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ ٹل میں جب میرا بھائی دیگر مسافروں کی طرح کانوائے میں شامل ہوئے تو انکے ساتھ تین دفعہ میرا رابطہ ہوا۔ یہاں تک کہ جب آخری مرتبہ میں نے فون کیا اور اپنے بھائی کا نام لیتے ہوئے سلام کیا، تو جواب میں ایک طالب نے کہا کہ تیرے بھائی کی خون آلود لاش میرے پاؤں میں پڑی ہے۔ یہ سن کر میں بے ہوش ہوگئی، گھر والوں نے آکر خیریت پوچھی تو میں جواب دینے کے قابل نہیں رہی تھی۔ یہ سن کر اس بدنصیب بہن کے ساتھ ساتھ ہمارے رخسار بھی بے اختیار بھیگ گئے۔

لائق حسین ملا باغ
لائق حسین کے ذبح ہونے کی ویڈیو نے تو کرم کے کشیدہ حالات میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا۔ لائق حسین ایف سی میں ملازم تھا، اسے اپنی سرویس کے دوران وزیرستان میں طالبان نے اغوا کر لیا اور ان کا سر کاٹنے کے دوران ان سے اپنا من پسند بیان بھی لیا۔ اس روئیداد کی ویڈیو میں ایک بچہ ایک تیز دھار چھری لیکر لائق حسین کا سر کاٹ کر اسکے سینے پر رکھتا ہے۔ طالبان نے اپنی بربریت کے اس واقعے کی ویڈیو بھی فوراً نشر کی، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ تین سال تک مسلسل صبر کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھنے کے بعد اہلیان کرم کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔

سید امجد حسین زیڑان
سید امجد حسین کا تعلق زیڑان کے شاہ جی خیل گاؤں سے تھا، وہ پولیس میں ملازم تھا۔ اپنی ملازمت کے دوران دوآبہ کے رہائشی اسکے ایک سنی کولیگ کو طالبان نے ذبح کیا تھا، چنانچہ اس واقعے کے چند روز بعد وہ اپنے شہید ساتھی اہلکار کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی غرض سے دوآبہ جا رہے تھے کہ راستے میں ہی طالبان نے اسے بس سے اتار کر اغوا کر لیا اور دوران حراست اسے ذبح کرنے کے علاوہ اسکی لاش کو بری طرح سے مسخ کیا۔ اسکی سربریدہ اور تشدد زدہ لاش 15 دسمبر 2007ء کو جب کرم ایجنسی پہنچی تو پہلے سے کشیدہ حالات مزید بگڑ گئے اور اگلے ہی روز 16 دسمبر کو پاراچنار میں دوبارہ فسادات شروع ہوگئے۔

محترمہ ثریا بیگم
محترمہ مستری حسن علی کی بھتیجی تھی، جسکا تعلق پیواڑ سے ہے، تاہم پاراچنار میں رہائش پذیر ہیں۔ محترمہ محکمہ صحت میں ملازمہ تھیں۔ ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی سرکاری ایمبولینس میں دیگر سرکاری عملے کے ہمراہ پشاور جا رہی تھی کہ چھپری کے علاقے میں اسے دیگر سرکاری عملے کے ساتھ گاڑی میں قتل کر دیا گیا اور پھر لاشوں کو کھینچ کر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ سڑک پر پڑی محترمہ کی لاش کی بیحرمتی کرکے اسکی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ ان تمام حالات کی ویڈیو اب بھی موجود ہے۔

طالب علم سید تصور حسین شاہ زیڑان
سید تصور کیڈٹ کالج رزمک کے نہایت قابل اور باصلاحیت طالب علم تھے، والد کے کہنے کے مطابق تصور لیفٹنٹ بننے کے خواہشمند تھے۔ چنانچہ اسی مقصد کے لئے فوج میں آئی ایس ایس بی کا امتحان پاس کیا۔ امتحان کے بعد چھٹیاں گزارنے کی غرض سے گھر آیا تھا۔ راستے بند ہونے کے باعث اسکی چھٹیاں ختم ہوگئیں، مگر جانے کے لئے کوئی کنوینس نہیں تھی، چنانچہ ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے اسکے چچا سید شریف نے اسے سرکاری ایمبولینس میں بٹھا کر پشاور بھیج دیا، لیکن انہیں کیا معلوم کہ راستے میں اسکے قابل بھتیجے کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے۔ چنانچہ چارخیل کے مقام پر انہیں محترمہ ثریا بیگم کے ہمراہ گاڑی سے اتار کر نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
 
8 افراد کے اڑتالیس ٹکڑوں کا دلسوز واقعہ:
خواتین و حضرات کو گاڑیوں سے اتار اتار کر قتل کرنے کے واقعات شمار سے باہر ہیں۔ جسکی تفصیل کے لئے ایک علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔ انہی میں سے ایک اہم واقعہ ان آٹھ افراد کا ہے، جنہیں بگن کے مقام پر ایف سی، کرنل مجید اور لوئر کرم کے اے پی اے عطاؤ الرحمان کی موجودگی میں "سرکاری کانوائے" سے اتار لیا گیا، انکے بارہ ٹرکوں کو جلا دیا گیا، ٹرکوں کے سنی ڈرائیوروں کو چھوڑ کر آٹھ شیعہ ڈرائیوروں کو اغوا کر لیا گیا اور اگلے روز ہر ایک کو چھ چھ ٹکڑوں میں تقسیم کرکے مجموعی طور پر 48 ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور بوریوں میں بند کرکے آڑاولی کے قریب فقیر خومسہ میں پھینک دیا گیا۔ غسل دیتے وقت ٹکڑوں کو ملانا نہایت مشکل تھا۔ ٹکڑے ٹکڑے لاشوں کو عزیزوں کو دکھانا اخلاقی لحاظ سے معیوب تھا، چنانچہ صحیح طور سے پتہ نہ چل سکا کہ کس کا سر کس کے جسم سے لگایا گیا۔ ان افراد کی لاشوں کے ٹکڑوں کی ویڈیو اور تصاویر نیٹ پر آج بھی دستیاب ہیں۔

طالب علم قیصر حسین کا اغوا
یونیورسٹی کے طلباء کے اغوا کی بھی ایک طویل داستان ہے، جن میں سے آگرہ کے قیصر حسین بھی ایک ہیں، تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اسکی تازہ ہی پوسٹنگ ہوئی تھی کہ اسی دوران پشاور سے پاراچنار آتے ہوئے گاڑی سے اتار اور اغوا کرکے لاپتہ کر دیا گیا۔ قیصر نہایت غریب والدین کا چشم و چراغ تھے، نہایت غربت میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کرکے خوش تھے کہ اب والدین خوشی سے زندگی بسر کرتے رہیں گے، تاہم اسکی تنخواہ کا والدین کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ آج تک اسکی لاش کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ اسی طرح ملانہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم سید جبین حسین کو اغوا کر لیا گیا اور آج تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل سکا۔

ٹریکٹر کے بدلے دو معصوم بچوں کا اغوا:
لوئر کرم کے علاقے مینگک سے دو نہایت چھوٹے بچوں کو جنڈاڑی کے ایک خاندان نے اپنے ایک گمشدہ ٹریکٹر کے بدلے میں اغوا کر لیا، کچھ عرصہ بعد حکومت کی دلچسپی کی وجہ سے انکا ٹریکٹر تو برآمد ہوگیا، تاہم ان دو معصوم بچوں کو برآمد کرنے میں حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی تو درکنار، یہاں تک کہ ان بچوں کو برآمد کرانے کی نیت سے جب کچھ لوگوں نے لوئر کرم کے ایک فرد کو اغوا کیا، تاکہ مغوی کے خاندان والے خود کوشش کرکے اپنے شخص کی خاطر بچوں کو برآمد کریں تو حکومت نے بچوں سے قطع نظر صرف اس شخص کو طاقت کے بل بوتے پر فوراً برآمد کرا دیا، جبکہ بچوں کا آج تک کوئی اتہ پتہ نہیں۔ جنداڑی سے تعلق رکھنے والے اصل اغوا کار سے جب حکومت نے رابطہ کیا تو اسکا کہنا تھا کہ ہم نے انہیں طالبان کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔ جو اس وقت ہمارے بس سے باہر ہیں۔

افغانستان میں کارروائیاں:
2007ء سے لیکر 2012ء تک پشاور جانے کے لئے حکومت کے ہوتے ہوئے، پاکستانی سرزمین کا استعمال جب اہلیان کرم پر حرام قرار دیا گیا، تو یہ لوگ پشاور جانے کے لئے افغانستان کا راستہ استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 260 روپے کرایہ پر صرف پانچ گھنٹوں میں طے ہونے والا فاصلہ، اب 5000 ہزار روپے کے عوض 36 گھنٹوں میں طے ہونا شروع ہوا تو دشمنوں سے یہ بھی برداشت نہ ہوا۔ یہاں آباد منگل، مقبل اور جاجی وغیرہ چونکہ ڈبل نیشنلٹی رکھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے افغانستان میں اپنے عزیز و اقارب کے پاس بیٹھ کر اپنے منصوبوں کا جال پھیلا دیا اور افغانستان میں اپنے عزیز و اقارب کی کمک سے طوری بنگش مسافروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور یوں افغانستان کی سرزمین کو بھی ہمارے خون سے رنگین کر دیا گیا۔ اس دوران ایک ویگن میں بارہ مسافرین کو قتل کر دیا گیا۔ اسکے علاوہ کئی افراد کو خواتین سمیت اغوا کر لیا گیا۔ جن میں سے کئی کو دوران حراست قتل جبکہ دیگر کئی افراد سے کروڑوں روپے تاوان لیکر چھوڑ دیا گیا۔ افغانستان میں قتل ہونے والوں میں حاجی کمال حسین شبلان کا بھتیجا، لالہ مالی خیل اور انکے دو بھائی، زیڑان کے سید ابراہیم حسین اور خرلاچی کی معروف شخصیت ملک طاہر حسین کا بھتیجا قابل ذکر ہیں۔
اغوا برائے تاوان کے دیگر واقعات:
درجنوں افراد کو پشاور، اسلام آباد، اور ٹل پاراچنار روڈ سے دن دیہاڑے اغوا کر لیا گیا اور پھر ان سے کروڑوں روپے تاوان وصول کرکے چھوڑ دیا گیا۔ جن کی علیحدہ ایک طویل داستان ہے۔

متاثرین کو دیئے جانیوالے معاوضہ کا تناسب:
فسادات کے دوران اور اسکے بعد آج تک ہزاروں افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ ان میں سے صرف چند سو افراد کو معاوضہ ملا ہے۔ وہ بھی ملک کے دیگر علاقوں نیز کرم ایجنسی کے رہائشی طالبان نواز قبائل کے مقابلے میں عُشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اہلیان خیواص کے متاثرین میں سے چالیس فیصد کو فی گھرانہ صرف تین تین لاکھ روپے ملے ہیں، جبکہ منگل قبائل کو فی خاندان دس لاکھ سے لیکر بیس لاکھ تک نقد معاوضہ جبکہ بذریعہ بینک اکاونٹ ماہوار ہزاروں روپے کمک ملتی ہے۔ اہل سنت کے بعض خاندانوں کو ایک ایک کروڑ روپے کمک ملی ہے۔ جن میں مخی زئی کے پیر خمار قابل ذکر ہیں، جبکہ طوری قبائل میں سے جنکو کمک ملی ہے، وہ دھماکوں میں شہید یا زخمی ہونے والوں کو ملی ہے اور وہ بھی تمام دھماکوں کی نہیں۔ صرف آخری دھماکوں میں شہید یا زخمی ہونے والوں کو ملی ہے۔ 2007ء میں عیدگاہ کے مقام پر جو خودکش دھماکہ غیور خان چمکنی نے کیا تھا، جس میں ایک درجن افراد شہید جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے تھے، اسکے بعد 2008ء میں شہید ڈاکٹر ریاض کے الیکشن آفس کے سامنے خودکش دھماکہ ہوا تھا۔ جس میں 70 افراد شہید جبکہ 200 شدید زخمی ہوئے تھے، اسی طرح 2012ء میں کرمی بازار میں، اسکے بعد پنجابی بازار اور زیڑان روڈ میں دو جڑواں دھماکے ہوئے۔ ان تمام دھماکوں میں ہونے والے نقصانات کا معاوضہ کسی کو بھی نہیں ملا ہے۔ اسی طرح 2007ء سے لیکر آج تک تین ہزار سے زائد طوری بنگش افراد شہید جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ انتہائی قلیل تعداد میں متاثرین کو معاضہ دیا گیا ہے اور وہ بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں عُشر عشیر بھی نہیں۔ چنانچہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر متاثر شخص اور خاندان کو بلا تفریق پاکستان کے دیگر شہریوں کے برابر معاوضہ ادا کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 715572
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

shabir hussain
Pakistan
اچھی تحریر ہے۔ خصوصاً ساجد حسین کی شہادت کی کہانی بہت افسوسناک ہے۔ اس پر آنسو کے جگہ خون بہانا چاہئے۔
عزت علی طوری
Pakistan
مولا حسین آپکو اسکا اجر دے کہ آپ نے اتنی محنت کی اور یزیدیت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اسکی ویڈیو کہاں سے ملے گی، حاصکر کنوائی میی 8 ڈرائیوروں کو اغوا کے بعد ذبح کرکے 48 حصوں میں بھیج دینا مجھے وہ تصویریں یا کٹے سروں کی جو ویڈیو تھی، وہ چاہیے۔
ہماری پیشکش