0
Thursday 12 Apr 2018 16:09

کشمیر ظلم و ستم کے شکنجے میں

کشمیر ظلم و ستم کے شکنجے میں
تحریر: جاوید عباس رضوی

گذشتہ اٹھائیس سال سے مقبوضہ کشمیر میں کشت و خون کا بازار مسلسل گرم ہے۔ یہ داروگیر کا ماحول اور خون خرابہ عرصہ دراز سے عروج پر ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں رُکنے کا نام نہیں لی رہی ہیں، وقفہ وقفہ کے بعد اعلانیہ اور غیراعلانیہ کرفیو کا نفاذ اس پر مستزاد ہے، نیز احتجاجی مظاہروں پر گولی باری، لاٹھی چارج، آنسو گیس کا استعمال، پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں، نظر بندیاں بے دریغ ہو رہی ہیں۔ قابض فورسز کی ان خون ریز کارروائیوں کے باعث نہ صرف روز انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں بلکہ اس وقت بھی ہزاروں افراد اسپتالوں میں زخمی پڑے ہیں، سینکڑوں زخمی جسمانی طور پر ناکارہ ہوچکے ہیں اور لاتعداد نوجوان قوت بینائی سے محروم ہونے کے علاوہ دماغی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، سڑکیں اور بازار ویران ہیں۔ سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور ہر قسم کے شعبے بند پڑے ہیں۔ اس عرصۂ دراز کے دوران شاید ہی کوئی دن گزرا ہو جب یہ بہشت نما سرزمین ابن آدم کے خون سے ایک بہانے یا دوسرے بہانے سے لالہ زار نہ ہوئی ہو، یہاں کے طول و عرض میں انسانیت کی تذلیل نہ ہوئی ہو، بستیاں نہ اُجڑ گئی ہوں، مظلومین کی آہ و بکا اور چیخ و پکار سے عرش و فرش نہ ہلے ہوں، کشمیریوں کو اپنے وطن اور بیرونِ وطن جان کے لالے نہ پڑے ہوں۔ ذرا سوچئے کہ تقریباً تین دہائیوں سے یہاں نامساعد حالات کے چلتے اتنی بہاریں خزان رسیدہ ہوئیں کہ ان کا کوئی شمار نہیں۔ اتنی معلوم و نامعلوم قبریں بنیں کہ اس کا کوئی حساب نہیں۔ اتنے زندان اور عقوبت خانے آباد ہوئے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا مگر حق یہ ہے کہ اس سب کے باوجود مسئلہ کشمیر کا درد سر اپنی جگہ موجود ہے۔ غور طلب ہے کہ آخر اتنی تباہیوں، بربادیوں اور زور زبردستیوں کے بعد بھی آج مسئلہ کشمیر وہیں پہ کیوں لٹکا ہوا ہے، جہاں یہ پہلے روز تھا۔

بے شک بھارت اور پاکستان نے کبھی اپنے انشیٹیو اور کبھی دوسروں کے دباؤ میں وقتاً فوقتاً مسئلہ کشمیر پر کوئی پیشرفت کئے بغیر گفت و شنید کی میزیں سجائیں، ٹریک ون اور ٹریک ٹو سطح پر سفارتی مراسم قائم کئے، مختلف مواقع پر خوش نما اعلامیے جاری کئے، اپنی ’’دوستی اور مفاہمت‘‘ کو ناقابل تبدل تک جتلایا، سارک فورم پر مصافحے و معانقے بھی کئے، دہلی لاہور بس سروس کا اجراء کیا، بحالی اعتماد کے نام سے لائن آف کنٹرول پر آرپار بس سروس شروع کی، کرکٹ میچ کھیلے، ثقافتی وفود کی آمد و رفت ہوئی، برتھ ڈے کیک کاٹے، نواز شریف اور نریندر مودی نے اظہار محبت کے طور شال اور ساڑھی کا تبادلہ کیا، اس کے بین بین دہلی نے ایک بڑی جست لگاتے ہوئے داخلی طور کشمیر کی گرہیں سلجھانے کے لئے گول میز کانفرنسیں منعقد کیں، آٹھ ورکنگ گروپ بنائے، سہ رُکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، مذاکراتکاروں کی تقرریاں عمل میں لائیں، مالی پیکجوں کے اعلانات کئے وغیرہ وغیرہ مگر یہ سب کچھ فضول ثابت ہونا طے تھا، سو یہی ہوا، کیونکہ کشمیر حل کے بنا اتنی ساری کد و کاوش کا حشر یہی ہوتا رہے گا۔

شیخ محمد عبداللہ کے ریکارڈ سے لے کر کرگل معرکہ تک کی کہانی اسی حقیقت پر مہر تصدیق کرتی ہے، کہ آج کی تاریخ میں بھارت و پاک سردمہری کا رُخ بہت ہی کڑا ہے۔ یہ اسی چیز کا برملا مظاہرہ ہے کہ ایک جانب دہلی حکومتی سطح پر اعلاناً اسلام آباد کو ’’کانٹے سے کانٹا نکالا جائے‘‘ جیسی دھمکیوں سے توپ و تلوار کی زبان میں بات کرتی ہے اور دوسری جانب کشمیر میں آپریشن آل آوٹ کے عنوان سے روز نئی نئی خون آشامیوں کی المناک تاریخ مرتب کر رہی ہے۔ گاہے گاہے لائن آف کنٹرول پر بھی دو طرفہ جنگ کا دل دہلانے والا سماں بھی بندھ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے دشت و میدان میں اور لائن آف کنٹرول کے آرپار حالات کس وقت کیا کروٹ لیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ایل او سی کے دونوں اطراف میں فوجیوں کی لاشیں ہی نہیں گرتیں بلکہ عام لوگوں کی جانیں بھی تلف ہوتی ہیں، ان کے گھربار اور مال مویشی بھی پھونکے جاتے ہیں۔ ایسے میں کس سیاسی جیوتشی و سادھو کو حالات میں بہتری کے آثار نظر آئیں اور کس تجزیہ کار کو حالات میں سدھار کی کوئی کرن دکھائی دے۔؟ یہ ستر سال طویل جنجال ہے، اس پر حقیقت پسندانہ غور و فکر غور کیجئے تو یہی اخذ ہوگا کہ کشمیر مسئلے کا ڈراؤنا سایہ ہمیشہ برصغیر کے امن و آشتی، تعمیر و ترقی اور نیک ہمسائیگی کے لئے نحوست آمیز رہا ہے اور یہ اُس وقت تک جوہری طاقت سے لیس بھارت و پاک کے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرتا رہے گا، جب تک تینوں فریق کشمیر حل کا کوئی پُرامن اور پائیدار فارمولہ نفع نقصان اور ہارجیت سے اوپر اُٹھ کر وضع نہیں کرتے۔

بہرصورت عقل و شعور کا تقاضا بلکہ برصغیر کے ان دو غریب ہمسایہ ممالک کا قومی مفاد اسی میں مضمر ہے کہ دونوں ملک عالمی طاقتوں کی خودغرضانہ و تاجرانہ سیاست کا مہرہ بنے بغیر مسئلہ کشمیر سے جتنی جلدی ممکن ہو گلوخلاصی حاصل کرنے کی سعی بلیغ کریں، البتہ اس سلسلے میں اہل کشمیر کو اول تا آخر اعتماد میں لے کر ہی دہلی اور اسلام آباد گفت و شنید کی میز پر آئیں تو بات بنے گی، دونوں حکومتیں ماضی کی دو طرفہ تلخیاں بھلا کر بقائے باہم کے جذبے سے زندہ رہنا سیکھیں، تناؤ اور کشیدگی کی فضا میں پروان چڑھیں دشمنیاں اور انتقام گیریاں بہت آزمائی جا چکی ہیں، اب خلوص دل سے جیو اور جینے دو کے جذبے سے دوستی اور سینہ صفائی کو موقع دیا جائے، کشمیر کے حوالے سے اپنے بے لچک و متضاد مواقف کو ووٹ بنک سیاست سے جوڑ کر عوامی جذبات کا استحصال ترک کیا جائے، مسئلہ کا سیاسی تصفیہ کرنے کے لئے قومی تفاخر اور ہم ہستی سے کام لینے کے بجائے جمہوری انداز ِ فکر اپنایا جائے، سب سے بڑھ کر مقبوضۃ کشمیر میں امن و آشتی کی پروائیاں چلانے کے لئے فوری طور افسپا کے مضرات و نقصانات کے پیش نظر اسے مکمل طور واپس لیا جائے۔ اس ضمن میں امر واقع بھی گرہ میں باندھ لی جائے کہ کشمیر کو جنگ و جدل کا اکھاڑہ بنانے اور یہاں تخریب و تشدد کی آگ بھڑکانے سے مقبوضہ کشمیر بلاشبہ بھسم ہوتی رہے گی مگر مسئلہ جوں کا توں دہلی اور اسلام آباد کے لئے درد سر بلکہ دردِ جگر بن کر رہے گا۔ چنانچہ آج تقریباً اٹھائیس سال گزرنے کے بعد جب ہم خون کے آنسو رُلا دینے والی کشمیر کی اَن کہی سرگزشت پر تجزیاتی نظر ڈالتے ہیں تو یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ کشمیر کاز ہلاکت خیز اسلحہ کے انبار، سات لاکھ بھارتی فوج، مظالم و مصائب کی گھٹاؤں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود زندہ و جاوید حقیقت ہے، جس کے منصفانہ حل سے برصغیر کی ہمہ گیر ترقی مشروط ہے۔
خبر کا کوڈ : 716357
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش