0
Saturday 7 Apr 2018 13:44

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عالم اسلام لہو لہو ہے، مشرق و مغرب میں اسلام کے ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ فلسطین سے لیکر کشمیر تک اور  برطانیہ میں بھی مسلمانوں کو سزا دو کی مہم چل رہی ہے۔ ہر جگہ مسلمانوں کا خون ارزاں ہے۔ ٹیپو سلطان کے والد نواب حیدر علی کے زمانے میں  ایک راجہ نے ریاست پر حملہ کیا، ریاست کی فوج کمزور تھی اور دربار میں تجویز آئی کہ  کچھ مال دے کر دوسرے راجہ کے لشکر کو روانہ کر دیا جائے، تاکہ جنگ بھی نہ ہو اور ریاست بھی بچ جائے۔ اس پر حیدر علی نے کہا تھا، آج آپ ایک راجہ کو مال دے کر روانہ کر دیں گے تو  اردگرد کی ریاستوں پر ہمارا رعب ختم ہو جائے گا اور ہر تبدیل ہوتے موسم کے ساتھ ہمیں ایک نئے حملہ آور کو تاوان دینے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ راجہ اور دربار والوں نے حیدر علی کی تجویز  کو مسترد کر دیا اور مال دے کر لشکر کو رخصت کر دیا، مگر اس کے بعد یہی ہوا کہ علاقائی راجوں نے اس وقت تک حملے جاری رکھے، جب تک انہیں طاقت سے روک نہ دیا گیا۔

فلسطین کا مسئلہ بھی یہی ہے، طاقتور جو کہتا ہے، وہی قانون ہوتا ہے۔ وہ قتل کرے تو دفاع کہلاتا ہے اور فلسطینی پرامن احتجاج بھی کرے تو وہ قومی ریاست کے تصورِ خود مختاری کے خلاف ناقابل معافی جرم ٹھہرتا ہے اور سترہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور تازہ خبر کے مطابق دس مزید شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، جب یہ حد عبور کی جاتی ہے تو لوگ جینے پر مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ اپنوں پرائیوں سب سے اتنے دھوکے کئے ہیں کہ اب انہیں کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ غزہ ایک پنجرے کی شکل اختیار کر چکا ہے، آبادی زیادہ ہوچکی ہے، لوگ دیکھتے ہیں کہ انہیں اپنی زمینوں پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ظلم یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر نام نہاد بین الاقوامی طاقتوں نے جو اصول و ضوابط طے کرکے جو علاقے فلسطینیوں کو دینے کا اعلان کیا تھا اور جس معاہدے پر نوبل پرائز بانٹے گئے تھے، وہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زمینوں پر واپس جائیں، گھروں کو دوبارہ آباد کریں۔ ایسی صورت میں فلسطینیوں کا ایک قدم آگے بڑھنا بہت ضروری ہوگیا ہے، جب تمام قوانین کو پامال کرتے ہوئے بیت المقدس پر مکمل اسرائیلی قبضے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

غیروں سے کیا گلا کرنا، یہاں فلسطینوں کی پشت پر سب سے بڑا خنجر سعودی شہزادے کی طرف سے گھونپا گیا ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے بغیر انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھاتا چھوڑ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ فلسطینیوں کا یہ فیصلہ بہت زبردست ہے کہ وہ پرامن انداز میں اپنی واپسی کے لئے بارڈز کی طرف مارچ کریں گے۔ وہ بے حس دنیا کو یہ بتائیں گے کہ کس طرح وہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں؟ کس طرح دنیا انہیں بھول چکی ہے؟ کس طرح دن بدن ان کی مزید زمین کو ہڑپ کیا جا رہا ہے؟ فلسطینی بچے والدین سے پوچھتے ہیں کہ ہم کب گھروں کو واپس جائیں گے؟ کشمیر بھی جل رہا ہے، وہاں بھی دسیوں لوگوں کو خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ دنیا کی بڑی جمہوریت کے چہرے پر مظلوم کشمیریوں کا خون ایک قرض ہے۔ نہتے لوگوں پر گولیوں کی برسات کی جا رہی ہے، نوجوان، خواتین و حضرات کے چہروں پر گولیاں ماری جا رہی ہیں۔ ان کے خون آلود چہرے اور ان کی آنکھوں سے بہتا خون عالمی ضمیر کو آواز دے رہا ہے کہ دنیا میں کتے کے حقوق کی آوازیں بلند کرنے والوں یہاں انسانوں پر وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ تم کب تعصبات کے پردے ہٹا کر صرف مظلوم کے لئے آواز بلند کرو گے۔ لاکھوں لوگوں کے آزادی کے حق میں اجتماعات اہل کشمیر کے اصل مطالبے کو واضح کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ دنیا ان کی آواز سنے۔

ایک اکتالیس ممالک کا اتحاد بنا تھا، جس کے بننے پر کہا گیا تھا کہ یہ مسلمانوں کی طاقت ہوگا، انہیں ظلم سے نجات دلائے گا۔ اگر کسی کو کہیں نظر آئے تو انہیں فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں شہید ہوئے معصوموں کی تصاویر دکھائیں اور بتائیں کہ یہ سب آخری نبی ؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں اور مسلمانوں ہیں، مصیبت و پریشانی کا شکار ہیں، انہیں قتل کیا جا رہا ہے، ان کی مدد کرو۔ اسلام کے نام پر ملوکیت کے تحفظ کے لئے قائم اس اتحاد کا اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، اگر ہوتا تو یقیناً یہ میدان میں ہوتا۔ یہ دنیا طاقتور کی دنیا ہے، کمزور اور محکوم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سب ڈرامے ہیں کہ سب کے انسانی حقوق برابر ہیں۔ یہ طاقت ہی تھی کہ امریکہ نے ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خان سے اٹھا لیا، عافیہ کو افغانستان لے جا کر سزا دی، ورڈ ٹریڈ سنٹر میں عام امریکی مارے گئے، مگر اس کے نتیجے میں دیکھیے دنیا بھر کا امن غارت کر دیا گیا۔ اسرائیل کو ہی لے لیں،  اس کے پاس طاقت ہے، آئے روز فلسطینیوں کا قتل کرتا ہے۔ یہ کیوں فلسطین، کشمیر،  افغانستان، عراق، شام اور یمن پر حملے ہوتے ہیں؟ اس کا جواب بقول اقبال
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
 ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
خبر کا کوڈ : 716376
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش