0
Monday 9 Apr 2018 07:41

سعودی نواز ڈاکٹر اجمل منظور کی غلط بیانیاں

سعودی نواز ڈاکٹر اجمل منظور کی غلط بیانیاں
تحریر: محمد حسن جمالی

بن سلمان کا حالیہ انٹرویو  مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکر منظر عام پر  آچکا ہے، جس پر اہل قلم  اور تجزیہ نگاروں نے مختلف جہتوں سے تجزیہ و تحلیل کرکے مسلمانوں کو حقائق سے باخبر کرانے کی کوشش کی ہے، یہ انٹرویو بن سلمان نے کفار کی گود میں بیٹھ کر دیا، جس میں انہوں نے مسلم دشمنی پر مبنی سعودی عرب کی پالیسیز پر کھل کر بات کی، پوری دنیا کے انصاف پسند محققین، دانشوران اور حالات حاضرہ سے آگاہ تعلیم یافتہ افراد بن سلمان کا انٹرویو سن اور پڑھ کر بے ساختہ ہنس پڑے اور یہ انٹرویو تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ایک لطیفہ بن کر ثبت ہوا، ہنسی کی وجہ بن سلمان کی حماقت تھی، یہ امریکہ کے ہاتھوں کھل کر استعمال ہوئے، پوری دنیا کے سامنے امریکہ بہادر نے جو بھی ان کی زبان سے اگلوانا چاہا وہ بول پڑے، اس انٹرویو میں بن سلمان نے شفاف طریقے سے سعودی عرب کا چہرہ مسلمانوں کو دکھایا ہے، جس  کے بعد بھی اگر کوئی سعودی عرب کو مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
 
گذشتہ روز  سعودی نواز نام نہاد ڈاکٹر اجمل منظور کے قلم سے ایک تحریر ہماری نظر سے گزری، جس کا عنوان یہ تھا "سلفیت کے خلاف پروپیگنڈہ بن سلمان ایک بہانہ"۔ جو خود راقم کے بقول بن سلمان کے انٹرویو کا کامل ترجمہ ہے، جس کا صرف مقدمہ پڑھ کر اہل علم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لکھنے والا کس قدر جہل مرکب کا شکار ہے، دلیل یہ ہے کہ راقم نے اپنی تحریر کے شروع میں ہی سفید جھوٹ لکھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو جادہ حق سے ہٹانے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ توجہ رہے کہ اس مختصر تحریر میں فقط ڈاکٹر اجمل کی تحریر کے مقدماتی دو سفید جھوٹ کا جواب لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نے لکھا ہے (رافضی بن سلمان کے انٹرویو  کے سیاق و سباق سے عبارت کو کاٹ کر مملکت توحید اور سلفیت کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ بی بی سی لندن، الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر رافضی اور تحریکی اخبارات اپنا اپنا گند پورے عالم میں پھیلا رہے ہیں۔)

لگتا ہے یہ صاحب ڈاکٹر نہیں مریض ہیں، یہ اپنی عقل کھو بیٹھے ہیں یا سعودی ریال کے مزے نے انہیں مکمل اندھا بنا دیا ہے جو بھی ہو اب سعودی عرب کا دفاع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، پانی سر سے گزر چکا ہے اور دنیا کے مسلمان جان چکے ہیں کہ سلفیت، وہابیت، داعش اور طالبان کی فکر توحیدی ہے یا تکفیری؟ دنیا کے تمام مسلمان اور غیر مسلمان اس بات کے گواہ ہیں کہ امریکہ اور صہیونیت کے زیر سایہ تربیت یافتہ وہابی نامی فرقہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے اور مظلوم اور نہتے عوام کو خاک و خون میں غلطاں کرنے میں مصروف ہے۔ فرقہ وہابیت جو جزیرۃ العرب میں محمد بن عبد الوہاب تمیمی نجدی (۱۱۱۵۔۱۲۰۶ھ ق) کے ذریعے بارہویں صدی ہجری میں معرض وجود میں آیا ایک گمراہ، منحرف اور اسلامی تعلیمات سے دور فرقہ تھا کہ جس نے اب تک عالم اسلام کے اندر سوائے فتنہ پروری اور قتل و غارت کے کچھ نہیں کیا۔خالص توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی کرنے والا یہ فرقہ ضالہ عالمی استکبار اور استعمار کے ساتھ ساز باز کر کے اسلامی عقائد میں تحریف اور اسلامی آثار کو مٹا کر دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے مسلمانوں کے اندر یہ فرقہ وجود میں لا کر مسلمانوں کو پاش پاش کرنے کے لئے اپنا آلہ کار بنایا اور مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو گہرا صدمہ پہنچایا۔ اس فرقہ نے سرزمین وحی پر اپنا قبضہ جما کرایک طرف تو خالص توحید کا دعوی کیا اور دوسری طرف کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کر کے اسلامی سرمائے کو ان تک منتقل کر دیا جسے پوری طرح سے جاننے اور سمجھنے کے لئے سلفی وہابی تکفیری  ٹولے کے خود ساختہ عقائد اور نظریات  سے آشنا ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ فرقہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی انتھک محنتوں سے وجود میں آیا اور شیخ محمد عبد الوہاب کے نظریات کا ایک نمونہ قارئین کے مطالعے کے لئے پیش خدمت ہے۔

شرک کے ساتھ جنگ، خالص توحید اور سلف صالح کی اسلام کی طرف بازگشت:
محمد بن عبد الوہاب کے نظریات میں سے ایک اہم نظریہ یہ تھا کہ عصر حاضر کے مسلمانوں کا عقیدہ خالص توحید پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان کے عقائد میں شرک کی آمیزش ہے، اس لئے انہوں نے مسلمانوں کو خالص توحید اور شرک اور خرافات سے دوری اختیار کرنے کی طرف دعوت دی۔ اس سے بدتر یہ کہ ابن عبد الوہاب اور ان کے حامیوں نے اکثر مسلمانوں کو مشرک اور کافر ہونے کا لقب دے دیا، یہاں تک کہ انہیں واجب القتل قرار دے دیا اور مشرک اور کافر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کو ''جہاد فی سبیل اللہ" گردانا۔ ان کا یہ نظریہ اس بات کا باعث بنا کہ تمام عالم اسلام کے اندر خانہ جنگی شروع ہو گئی، حنبلی مذھب کے علاوہ جس کے وہ خود ماننے والے تھے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کو جہاد کا نام دے دیا! محمد بن عبد الوہاب اور ان کے پیروکاروں نے توحید اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی اس طرح تفسیر کرنا شروع کی کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا موحد بن ہی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے کلمہ توحید کی تفسیر کے ساتھ تمام قبور حتٰی قبر نبی پاک (ص) کی زیارت کرنا، بزرگوں کی قبروں پر گنبد تعمیر کرنا، قبروں پر فاتحہ پڑھنا اور چراغ جلانا، ضریح پیغمبر (ص) کو چومنا، اصحاب اور آل رسول (ص) کی قبروں کی زیارت اور ان کے پاس نماز ادا کرنا، ان سے توسل کرنا اور شفاعت طلب کرنا وغیرہ وغیرہ سب چیزوں کو شرک اور کفر کے مصادیق میں سے قرار دے دیا۔ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب کشف الشبھات میں اپنے ٹولے کے علاوہ تمام مسلمانوں کو مشرک، کافر، بت پرست، مرتد، منافق، دشمن توحید، دشمن خدا، اہل باطل، جاہل اور شیطان جیسے القاب سے نوازا اور ان عناوین سے تمام مسلمانوں کا خون بہانا اور ان کے اموال میں تصرف کرنا جائز قرار دیا۔ 
 
تفسیر قرآن، اجتہاد، فلسفہ، عرفان اور نئی انسانی ایجادات کی مخالفت محمد بن عبد الوہاب توحید خالص اور سلف صالح کے اسلام کی طرف بازگشت کے حوالے سے اپنے افکار و نظریات میں عقل، فلسفے، اجتہاد، عرفانی مسائل سے تمسک کرنے اور قرآن اور سنت کی تفسیر بیان کرنے کے مخالف ہیں۔ جس  کے باعث وہابی، خشک اور بے وزن قسم کے افکار کے حامل ہو گئے اور دین کی بنیادی مباحث جیسے توحید، ایمان، اسلامی حکومت، توسل، شفاعت، خیرات و صدقات، اعیاد و عزاداری وغیرہ میں انحراف کا شکار ہو گئے، ان کی صحیح اور درست وضاحت بیان نہ کر سکے اور نتیجۃ انسان کی نئی ایجادات اور اختراعات جیسے ٹیلیفون، گاڑی، لائٹ، کیمرہ اور دیگر بےشمار نئے ابزار و آلات کی صحیح تفسیر بیان کرنے کی بجائے پہلی فرصت میں ان کا استعمال حرام قرار دے دیا اور ان کے ساتھ جنگ کرنے اٹھ کھڑے ہو گئے جبکہ اسلام اور قرآن انسانی اختراعات کے مخالف نہیں بلکہ تمام انسانوں کو علم حاصل کرنے اور خدادادی ذخائر سے جائز استفادہ کرنے کی تشویق دلاتا ہے، عقلی علوم فلسفہ و منطق، اور فقہ و اصول، عرفان اور تفسیر قرآن تمام انسانی افکار کی رشد و نمو کے لئے اور معنوی کمالات کے ارتقاء کے لئے اسلام کی نظر میں جائز ہی نہیں بلکہ بسا اوقات لازمی ہیں۔ وہابی تمام نئی ایجادات کو جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں موجود نہیں تھیں کو بدعت اور حرام سمجھتے تھے! جیسے علم منطق، علم فلسفہ، علم سائنس، تمباکو کا استعمال، سائیکل سواری، (اس لئے کہ وہ سائیکل کو شیطان کا گھوڑا سمجھتے تھے کہ یہ شیطان کے پیروں اور جادوں کی قوت سے چلتی ہے) اور دیگر نئی ایجادات جیسے ٹیلیفون، ٹیلیگراف، کیمرہ، گاڑی، وغیرہ وغیرہ کا استعمال حرام جانتے تھے۔(1)
 
ڈاکٹر اجمل نے اپنی تحریر کے مقدمے میں اہلسنت مسلمانوں کو شیعوں سے دور اور تکفیری ٹولے سے قریب کرنے کی بے ہودہ کوشش کی ہے جبکہ حقیقی شیعہ و سنی مسلمان تکفیری و سلفی ٹولے سے اظہار برات کرتے ہیں اور دونوں کا یہ مستحکم عقیدہ ہے کہ یہ ٹولہ اسلام کے ماتھے پر بدنما داغ ہے آج پوری دنیا میں اسی ٹولے کی اولاد طالبان القاعدہ اور داعش نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر اجمل صاحب کا یہ پرایپگنڈہ  واضح طور پر یہ اعلان کررہا ہے کہ اسے نہ شیعہ مسلمانوں کی تاریخ اور عقائد کا کچھ پتہ ہے اور نہ اہلسنت کی تاریخ و عقائد کے بارے میں کچھ معلومات، وہ مسلمانوں کی تاریخ اور عقائد کے بارے میں تھوڑا سا بھی مطالعہ کرتے تو ایسی غلیظ و قبیح قلمی حرکت کرکے قلم کی حرمت پامال کرنے کی کھبی جرات نہ کرتے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ مسلمان بیدار ہوچکے ہیں وہ ایسے پراپیگنڈوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ ایسی بےبنیاد باتوں کو لکھ کر جناب ڈاکٹر نے صرف اپنا وقت ضائع کیا ہے اور اپنا  ایسا نقصان کیا ہے جو قابل جبران نہیں، خدا انہیں ہدایت دے ۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 (1) http://www.erfan.ir/urdu/ 65680.html
 
     
خبر کا کوڈ : 716470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش