0
Sunday 8 Apr 2018 15:38

اکسٹرمزم سے لبرلزم تک(1)

اکسٹرمزم سے لبرلزم تک(1)
تحریر: ایس ایم شاہ

اسلام زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی کی تلقین کرتا ہے، خواہ اس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، اعتقادات کا معاملہ ہو یا اخلاق و فقہ کے مسائل۔ ان تمام امور میں اسلامی دستور میانہ روی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کی کتاب نے چلنے کا انداز  اور بولنے کا سلیقہ تک سکھلا دیا:“اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔”(لقمان/19) کھانے پینے کے مورد میں بھی اعتدال سے کام لینے کاحکم دیا:“اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔”(فرقان/67) میدان جنگ میں جہاد کے دوران بھی زیادہ روی سے منع کیا ہے:“اور تم راہ خدا میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقیناً دوست نہیں رکھتا۔"(بقرہ/190) اعتقاد میں میانہ روی کی تلقین:“لہٰذا آپ اپنا رخ محکم دین کی طرف مرکوز رکھیں، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس کے اللہ کی طرف سے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہے، اس دن لوگ پھوٹ کا شکار ہوں گے۔”(روم/43) جہاد کے حکم کے ساتھ کفار کی جانب سے صلح کی پیشکش ہوئی تو اسے بھی قبول کرنے کا حکم ہے:“اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔ یقیناً وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔”(انفال/61) علاوہ ازیں مؤمن تو کیا کافروں کی نسبت ان کے بتوں کے حوالے سے بھی زیادہ روی کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ“گالی مت دو، ان کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں۔”(انعام/108) مؤمن و مسلمان تو بہت دور کی بات ایک عام انسان کے قتل کو اللہ کی کتاب نے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف اور ایک عام انسان کی جان بچانے کو تمام انسانوں کی جان بچانے کے برابر قرار دیا ہے:“جس نے کسی ایک کو قتل کیا جبکہ ایک خون کے بدلے میں یا زمین فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام مسلمانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔”(مائدہ/32)

اسلام کی اسی جامع حکمت عملی کے باعث کفار بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے اور نصف صدی کے اندر اسلام دنیا کی بڑی بڑی سرحدوں کو پار کر گیا۔ اسلام کے خلاف سازشیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ حضورؐ کی حیات پاک میں ہی یہ سلسلہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں آپ کو کافی جنگیں بھی لڑنی پڑیں۔ آپ کے ارتحال کے بعد یہ معاملہ شدت اختیار کیا۔ ناکثین و قاسطین و مارقین کی صورت میں مختلف فتنے کھڑے ہوئے۔ 61 ہجری تک پہنچتے پہنچتے دشمنوں کی سازشیں اتنی زیادہ ہوگئیں کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین ؑ کو اتنی بڑی قربانی دینی پڑی کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بعد ازاں حق و باطل کا چہرہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ لیکن دشمن "بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی" کا مصداق بن کر مختلف اوقات میں سازشیں کرتے رہے۔ اب جب اسلام میں اکسٹرمزم کا کوئی حکم ہے ہی نہیں تو آخر مسلمانوں میں یہ مذہبی انتہا پسندی کہاں سے وجود میں آگئی اور اتنے مسلمان کیوں قتل ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں؟ آخر ان تمام مسلمانوں کے خون بہانے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کے جواب کا آج ہر مسلمان منتظر ہے۔ ساتویں صدی میں احمد بن تیمیہ حرانی حنبلی نے سابقہ علماء کے برخلاف بعض اقدامات اٹھائے۔ مثلاً اولیائے الٰہی کو خدا تک رسیدگی کے لئے وسیلہ قرار دینا، کسی بھی زندہ یا مردے سے مدد طلب کرنا اور اولیائے الٰہی اور پیغمبران الٰہی کی قبروں سے تبرک کرنے کو حرام قرار دیا۔ جن کے باعث انہیں علماء کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے نتیجے میں ان کے نظریات کا پرچار کرنا بہت مشکل ہوا اور ان کے نظریات لوگوں میں سرایت نہ کر پائے۔ یہاں تک کہ (1115ہجری) محمد بن عبد الوہاب عیینہ نام شہر میں پیدا ہوا۔ ان کے والد عبدالوہاب عیینہ میں قاضی تھے اور شرعی مسائل بیان کرنے کے علاوہ تدریس بھی کرتے تھے۔ محمد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس وقت ہی ان کے والد ان کے اندر انحرافات اور گمراہی کے آثار کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ لہذا وہ ہمیشہ اس کی سرزنش کرتے رہتے اور اپنے گھر والوں کو ان(کے فکری انحرافات) سے بچے رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ بعدازاں اس نے مدینے جا کر وہاں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اس دوران میں اس کی زبان سے بعض ایسی باتیں ظاہر ہوتی تھیں، جو ایک خاص عقائد کی حکایت کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ اس کے اساتذہ کو بھی یہ خوف لاحق ہونے لگا کہ اگر یہ خود مبلغ دین بن جائے تو لوگوں کو گمراہ کئے بغیر نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ  بصرہ گیا اور وہاں لوگوں کے اعتقادات اور رسومات کا مذاق اڑانے لگا۔ اس نے اتنی سخت گیری سے کام لیا کہ آخر کار بصرے والوں نے اسے اپنے شہر سے نکال باہر کردیا۔(https://www.mashreghnews.ir/amp/264578)

محمد بن عبدالوہاب کی کارستانیوں پر ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے علمائے دیوبند ہند کی جانب سے جاری ہونے والے ایک مذمتی بیان جس میں مختلف علماء کے نظریات کو حوالے سمیت نقل نقل کیا گیا ہے، اس میں سے کچھ اقتباسات کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے  ہیں: حضرات علمائے دیوبند نے اپنی کتب میں بار بار وہابی، سلفی اور سعودی نجدی عقائد کی زبردست تردید کی ہے،مثلاً: مولانا خلیل احمد اینٹھوی دیوبندی(۱۸۵۲ء۔۱۹۲۷ء) لکھتے ہیں:’’ ان کا (محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے تابعین) عقیدہ یہ ہے کہ بس وہ ہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو، وہ مشرک ہے اور اس بناء پر انہوں نے اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا۔‘‘(المسند علی المفند، مطبوعہ کراچی صفحہ،۲۲) مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری (۱۸۷۵ء۔۱۹۳۴ء) سابق شیخ الحدیث دیوبند لکھتے ہیں کہ’’اما محمد بن عبدالوہاب النجدی فانہ کان رجلا بلیدا قلیل العلم فکان یتسارع الی الحکم بالکفر۔‘‘(فیض الباری مطبوعہ قاہرہ ۱۹۳۸ء) ترجمہ:’’یعنی محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک کم علم اور کم فہم انسان تھا۔ اس لئے کفر کا حکم لگانے میں اسے باک نہ تھا۔‘‘ مولانا حسین احمد مدنی (۱۸۷۹ء۔ ۱۹۵۷ء) شیخ الحدیث دیوبند رقم طراز ہیں:
(الف):’’محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل عالم و تمام مسلمانان دیار مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل و قتال کرنا اور ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے۔(الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند،ص۲۳)
(ب)’’زیارت رسول مقبول ﷺ و حضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو یہ طائفہ بدعت، حرام وغیرہ لکھتا ہے۔(ایضاً صفحہ ۴۵)
(ج):’’شان نبوت و حضرت رسالت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مماثل ذات سرور کائنات خیال کرتے ہیں... توسل دعا میں آپ کی ذات پاک سے بعد وفات ناجائز کہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کا مقولہ ہے کہ معاذاللہ معاذاللہ۔ نقل کفر کفر نباشد۔ کہ ہمارے ہاتھ کی لاٹھی ذات سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم کو زیادہ نفع دینے والی ہے، ہم اس سے کتےّ کو بھی دفع کرسکتے ہیں اور ذات فخر عالم ﷺ سے تو یہ بھی نہیں کرسکتے۔‘‘(ایضاً صفحہ ۴۷)
(د):’’وہابیہ کثرت صلوٰۃ و سلام و درود برخیرالانام علیہ السلام اور قرات دلائل الخیرات و قصیدہ بردہ و قصیدہ ہمزیہ وغیرہ۔۔۔ کو سخت قبیح و مکروہ جانتے ہیں۔‘‘(ایضاً صفحہ۶۶)’’الحاصل وہ (محمد بن عبدالوہاب نجدی) ایک ظالم و باغی خو نخوار فاسق شخص تھا‘‘۔(ایضاً صفحہ۴۲)

مولانا حسین احمد مدنی کتاب ’’الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب‘‘ کے مندرجہ ذیل اقتباسات وہابیہ نجدیہ کے متعلق سواد اعظم اہل سنت کے نقطہ نگاہ کو بالکل واضح، غیر مبہم اور صاف لفظوں میں پیش کرتے ہیں:’’وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالۃ جانتے ہیں اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ واہیہ، خبیثہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہوگئے۔ چنانچہ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعویٰ حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن عمل درآمد کا ہرگز جملہ مسائل سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر نہیں ہے، بلکہ وہ بھی اپنے فہم کے مطابق جس حدیث کو مخالف فقہ حنابلہ خیال کرتے ہیں، اس کی وجہ سے فقہ کو چھوڑ دیتے ہیں، ان کا بھی مثل غیر مقلدین کے اکابر امت کی شان میں الفاظ گستاخانہ بے ادبانہ استعمال کرنا معمول بہ ہے۔‘‘(الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب صفحہ۶۲،۶۳) ’’ان وہابیہ نجدیہ کا اعتقاد یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے واسطے حیات فی القبور ثابت نہیں بلکہ وہ بھی مثل دیگر مسلمین کے متصف بالحیوۃ البرزخیہ اسی مرتبہ سے ہیں۔ پس جو حال دیگر مومنین کا ہے، وہ ہی ان کا ہوگا۔ یہ جملہ عقائد ان کے ان لوگوں پر بخوبی ظاہر و باہر ہیں، جنہوں نے دیار نجد عرب کا سفر کیا ہو یا حرمین شریفین میں رہ کر ان لوگوں سے ملاقات کی ہو یا کسی طرح سے ان کے عقائد پر مطلع ہوا ہو۔ یہ لوگ جب مسجد شریف نبوی میں آتے ہیں تو نماز پڑھ کر نکل جاتے ہیں اور روضہ اقدس پر حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام و دعا وغیرہ پڑھنا مکروہ و بدعت شمار کرتے ہیں۔ انہی افعال خبیثہ و اقوال واہیہ کی وجہ سے اہل عرب کو ان سے نفرت بے شمار ہے۔‘‘(ایضاً صفحہ ۶۵، ۶۶)

شہاب ثاقب میں مولانا حسین احمد مدنی نے عقائد نجدیہ وہابیہ کی نہ صرف شدت و غلظت کے ساتھ تردید کی بلکہ ان کے عقائد مردودہ کے جواب میں ذات رسالت مآب ﷺ، اولیائے کرام کی بابت اپنے عقائد، سواد اعظم اہل سنت والجماعت کے مطابق پیش کرتے ہیں:
1۔ حضور ﷺ کی حیات دنیا تک محدود نہیں بلکہ ہر حال میں زندہ و پائندہ ہیں۔(الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب صفحہ ۴۵)
2۔ دربار رسالت ؐ میں حاضری کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے اور ہمارے اکابر نے اس کے لئے سفر کیا ہے۔(ایضاً صفحہ ۴۶)
3۔ ہم توسل بالنبی ﷺ کے قائل ہیں۔(ایضاً صفحہ۵۷)
4۔ ہم اشغال باطنیہ کے قائل و عامل ہیں۔(ایضاً صفحہ۶۰)
5۔ ذکر رسالت مآب ﷺ بلکہ اولیاء اللہ کے ذکر کو بھی ہم مستوجب برکت سمجھتے ہیں۔(ایضاً صفحہ۶۷)
6۔ ہم ہر قسم کے درود کو جائز سمجھتے ہیں۔(ایضاً صفحہ۶۶)
7۔ مسجد نبوی ؐ یا کسی اور مقام پر یارسول اللہ کہنا بھی ہمارے نزدیک جائز ہے۔(ایضاً صفحہ۶۵)
دیوبندی علماء کے علاوہ اہل حدیث اور بریلوی علماء نے بھی گمراہ گن وہابی اور نجدی نظریات کی مذمت کی۔ برصغیر کے بڑے اہلحدیث عالم نواب محمد صدیق حسن خان (۱۲۴۸ھ۔ ۱۳۰۷ھ) اور مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری (م۔ ۱۹۴۸ء) نے طائفہ نجدیہ وہابیہ سے نہ صرف بیزاری و لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی شخصیت اور تعلیمات کو درخور اعتناء بھی نہیں سمجھا اور اسے مسترد کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے سرکار انگلشیہ سے پورے شدومد کے ساتھ التجاء کی تھی کہ بجائے فرقہ وہابیہ کے ان کو اہل حدیث لکھا جائے۔ پس بموجب چٹھی گورنمنٹ انڈیا بنام پنجاب گورنمنٹ نمبر ۱۷۵۸ مورخہ ۳ دسمبر ۱۸۸۹ء سرکاری دفتروں میں انہیں وہابی فرقہ کی بجائے ’’اہل حدیث‘‘ لکھنے کا حکم جاری کیا گیا اور وہابی لکھنے کی قانوناً ممانعت کر دی گئی۔ چند مزید حوالے درج ذیل ہیں:
’’جو کتاب مَیں (صدیق حسن خان) نے ۱۲۹۲ہجری میں لکھی ہے اور اس کا نام ہدایۃ السائل ہے۔ اس میں وہابیہ کے حال میں لکھا ہے کہ ان کی کیفیت کچھ نہ پوچھو، سراسر نادانی اور حماقت میں گرفتار ہیں۔‘‘(محمد صدیق حسن خان، ترجمان وہابیہ مطبوعہ لاہور ۱۳۱۲ھ صفحہ ۲۱) نواب صاحب موصوف ’’ترجمان وہابیہ‘‘ میں وہابی مذہب کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مسلمانان ہند میں کوئی مسلمان وہابی مذہب کا نہیں ہے، اس لئے کہ جو کارروائی ان لوگوں نے ملک عرب میں عموماً اور مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں خصوصاً کی اور جو تکلیف ان کے ہاتھوں سے ساکنان حجاز و حرمین شریفین کو پہنچی، وہ معاملہ کسی مسلمان ہند وغیرہ کے ساتھ اہل مکہ و مدینہ کے نہیں کیا اور اس طرح کی جرأت کسی شخص سے نہیں ہوسکتی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فتنہ وہابیوں کا ۱۸۱۸ء میں بالکل خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد کسی شخص امیر وغریب نے اس ملک میں بھی پھر سر نہ اٹھایا۔‘‘(ایضاً صفحہ۴۰)

سعودی ریالوں اور امریکی ڈالروں کی چمک
وہابی نجدی ریاست کی بنیاد برطانیہ نے لارنس آف عریبیہ اور سعودی خاندان کی مدد سے رکھی تھی، جنہوں نے مسلمانوں کی آخری خلافت عثمانیہ سے غداری کی اور حجاز میں لاکھوں اہلسنت حنفی، مالکی اور شافعی کا خون بہایا۔ اسی ریاست کی پشت پناہی آج امریکہ اور اسرئیل کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے دور میں پیٹرو ڈالرز کی چمک نے بعض بدبختوں کی آنکھوں کو چکا چوند کر دیا ہے۔ انقلاب روزگار ملاحظہ فرمائیے کہ آج بعض نادان و لالچی دیوبندی اور اہل حدیث خود محمد بن عبدالوہاب کو اپنا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ کتاب التوحید وغیرہ کی اشاعت میں سرگرم ہیں۔ اس کا ترجمہ پشتو اور اردو زبان میں کروا کر پاکستان، بھارت اور افغانستان میں تقسیم کر رہے ہیں اور اس کے نام سے کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ اس باب میں بعض نادان یا ریال خور اہل حدیث، دیوبندی اور مودودی جماعت کے لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حکومت سعودیہ نجدیہ کی خوشنودی مزاج کے لئے مستعد ہیں۔ تاویلات گھڑی جا رہی ہیں کہ حسین احمد مدنی اور صدیق حسن خان کو غلط فہمی ہوئی تھی یا پھر ان اکابرین پر تہمت بازی کی جا رہی ہے اور یہ سب بکواس لکھنے والے سعودی وہابی حکومت کے تنخواہ دار یا وظیفہ خوار ہیں۔ گردش دوراں سے اب بعض ریال خور مولویوں کو ’’فیصل ایوارڈ ‘‘ ملتے ہیں اور حکومت سعودیہ نجدیہ کے زیر اہتمام مساجد کی عالمی تنظیم کے معتبر رکن بنے ہوئے ہیں۔ نجدیت پرستی میں یہاں تک غلو کیا ہے کہ اہل سنت کی دینی سرگرمیوں کے خلاف جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور عام سنی مسلمان کو وہابی تعلیمات کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی اقتدار نجدیت کے سامنے جبہ سائی اور مدح سرائی سے کوئی غرض نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا انہیں اس امر کا احساس نہیں کہ ذات رسالت ماب ؐ ، اہلبیت عظام، صحابہ کرامؓ اور اولیاء اللہ ؒ کے خلاف وہابیوں نے جو گل افشانیاں کی ہیں، جنت البقیع میں حضرات صحابہ کرام اور اہلبیت کے مزارات کو بلڈوز کی گیا، اس پر بھی ذرا توجہ فرمائیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے فیصلہ ہفت مسئلہ اور اپنے مجموعہ عقائد موسومہ المہند کی سفارشات کو بھی نافذالعمل کریں، نیز جہاں جماعت اسلامی کے بعض ریال خور بھی اپنے بانی مودودی صاحب کی نگارشات بسلسلہ نجدیت وہابیت سے رجوع کرکے آج سعودی وہابی کی نمائندگی اور گماشتگی کے فرائض ادا کر رہے ہیں، کیونکہ اہل سنت کے پاس قوت و شوکت کا وہ سامان نہیں، جو حکومت نجدیہ سعودیہ کے پاس موجود ہے۔ یاد رہے کہ مولانا مودودی نے حج کے ناقص انتظامات اور دیگر رسومات کی ادائیگی میں کوتاہی پر بھی سعودی وہابی حکومت پرشدید تنقید کی تھی۔ مذکورہ مطالب کو من و عن بغیر کسی تبدیلی کے نقل کیا گیا ہے۔ مفصل پڑھنے کے لئے اس لنک پر مراجعہ کیجیے(https://lubpak.com/archives/348725)تمام اسلامی مکاتب فکر کی جانب سے مکتب وہابیت سے اظہار بیزاری اور ان کے قبیح افعال سے اظہار برائت کے بعد بھی اگر کوئی آل سعود کی کارستانیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرے تو یقیناً وہ کسی مسلمان فرقے کا نہیں بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 716616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش