0
Wednesday 11 Apr 2018 11:27

صہیونی سعودی گٹھ جوڑ عالم اسلام میں مزاحمت کی نابودی پر کمربستہ

صہیونی سعودی گٹھ جوڑ عالم اسلام میں مزاحمت کی نابودی پر کمربستہ
تحریر: محسن علیمی

فلسطین سے متعلق خبروں کی سرخیاں ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ اس بار اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی نے صرف دس روز کے اندر ہی تیس کے قریب مظلوم اور بیگناہ فلسطینی شہریوں کو خون میں لت پت کر ڈالا ہے۔ ان دنوں فلسطین کی صورتحال جاننے کیلئے ان ماوں اور بچوں کا حال جان لینا ہی کافی ہے جو غاصب صہیونی رژیم کے ظالمانہ محاصرے کا شکار ہیں۔ مقبوضہ فلسطین سے سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح صہیونی فوجی ایک مسلمان فلسطین خاتون کے گرد حلقہ بنا کر اس کی مار پیٹ اور اسے گرفتار کر کے پولیس کی گاڑی کی جانب لے جانے میں مصروف ہیں جس نے ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی لمحے جب اسے گرفتار کر کے گاڑی کی جانب لے جایا جا رہا ہے اس کا کمسن بچہ اپنی ماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے لیکن صہیونی فورسز ظالمانہ انداز میں بچے کو ماں سے جدا کرتی ہیں اور ماں کو گاڑی میں بٹھا کر لے جاتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے ماں کے بارے میں مزید کوئی خبر نہیں دی۔ یہ ان ظالمانہ اقدامات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جو مقبوضہ فلسطین میں انجام پا رہے ہیں۔ اس بارے میں درج ذیل نکات اہم ہیں:

1)۔ مقبوضہ فلسطین میں پیدا ہونے والی صورتحال بالکل اس فلسطینی ماں اور بچے کے ساتھ پیش آنے والے ناگوار واقعے سے مشابہت رکھتی ہے۔ خطے میں حکمفرما عرب رژیموں نے ایک ایک کر کے فلسطین کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے۔ محمد بن سلمان، محمد بن زائد، آل خلیفہ خاندان اور دیگر عرب حکمران جن کے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ گہرے تعلقات کی خبریں ابھی منظرعام پر آنا باقی ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو اور دیگر صہیونی حکام مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں جبکہ وہ اسلامی دنیا میں ایسے حکمرانوں کی بھی مکمل حفاظت اور دیکھ بھال کر رہے ہیں جو بظاہر خود کو فلسطینی حقوق کا مدافع ظاہر کرتے ہیں۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے یہ دعوی کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان صلح کے بعد اسرائیل سے سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری آئے گی محض ایک سیاسی ڈینگ ہانکنا ہے کیونکہ ابھی سے سعودی عرب نے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے تعلقات وسیع حد تک پھیلا رکھے ہیں۔

تل ابیب جانے والے مسافر طیارے سعودی عرب کی فضا استعمال کر رہے ہیں، سعودی ولیعہد یہودی لابی آئی پیک کے اعلی سطحی سربراہان اور حتی خود صہیونی حکام سے ملاقات اور بات چیت کر چکا ہے۔ اب پیچھے کیا باقی بچا ہے جس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات موجود ہیں؟ سب کچھ ہے سوائے سفارت خانے کے۔ پس پردہ اخبار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی اور صہیونی حکام حتی دو طرفہ سکیورٹی معاہدے بھی انجام دے چکے ہیں۔ خطے کی دیگر عرب ریاستوں اور ممالک کے بارے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی سعودی عرب کی طرح صہیونی رژیم سے تعلقات پھیلانے کیلئے شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ فلسطین کا ایک رخ ہے جو گذشتہ کئی برس اور کئی عشروں سے پس پردہ تھا اور اب آہستہ آہستہ منظرعام پر آ رہا ہے اور ان عرب حکمرانوں کا حقیقی چہرہ کھل رہا ہے۔

اگرچہ اب تک ان عرب ممالک اور ان کے حالیہ اور سابق حکمرانوں نے مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنے کیلئے بے شمار منصوبے پیش کئے ہیں اور ان گنت سازشیں کی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے پیش کئے جانے والا امن منصوبہ اور "ڈیل آف دی سینچری" سب سے بڑی اینٹی فلسطین سازش اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کی تاریخ کی سب سے بڑی اور گھناونی سازش قرار دی جا سکتی ہے۔ لہذا مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر مسئلہ فلسطین سے متعلق خطے اور اسلامی دنیا کے ممالک کا موقف واضح ہو چکا ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں کے پاس کم از کم اس وقت فلسطینیوں کے چھنے ہوئے حقوق کی بازیابی کیلئے کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔ یہ حکمران مسئلہ فلسطین کا جو بھی راہ حل پیش کرتے ہیں وہ مغربی طاقتوں کی جانب سے دی گئی ڈکٹیشن کے سوا کچھ نہیں جس کی بنیاد غاصب صہیونی رژیم سے تعلقات مزید مضبوط بنانے پر استوار ہے۔

اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں:
"فریب کار، جھوٹی اور غاصب (صہیونی) رژیم سے مذاکرات کی راہ اپنانا ایک بڑی اور ناقابل بخشش غلطی ہے جو ملت فلسطین کی کامیابی کو موخر کر دینے کا باعث بنے گی اور اس کا نتیجہ ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی اس قوم کے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ بعض عرب حکمرانوں کی غداری جو اب آہستہ آہستہ منظرعام پر آ رہی ہے نیز اسی مقصد کی خاطر انجام پائی ہے۔"

2)۔ مسئلہ فلسطین کا دوسرا رخ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کی جانب سے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے خط کے جواب میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ امام خامنہ ای نے اس جوابی خط میں فلسطین کو مزاحمت اور جدوجہد کی دعوت دی ہے۔ امام خامنہ ای اس خط میں لکھتے ہیں:
"آپ نے اس بارے میں جو لکھا ہے وہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے اور ہم اس کی توثیق کرتے ہیں۔ ہم خود کو آپ کی ہر قسم کی مدد کا پابند سمجھتے ہیں۔ یہ ایک دینی ذمہ داری نیز انسانی ذمہ داری اور تمام سیاسی واقعات اور تبدیلیوں سے ماوراء ہے اور ہم انشاءاللہ ماضی کی طرح اس ذمہ داری پر عمل پیرا ہوتے رہیں گے۔ تمام اسلامی حکومتیں، ممالک اور گروہ اس عظیم ذمہ داری کی پابند ہیں۔ آج امت مسلمہ کی عزت اور اقتدار کی واپسی کا واحد راستہ استکبار اور اس کی خباثت آمیز سازشوں کے مقابلے میں اور خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے بارے میں جو استکبار کے مقابلے میں تمام عالمی اسلامی مسائل کا مرکز و محور ہے، استقامت اور پائیداری پر مشتمل ہے۔

تمام مسائل کا حل اسلامی دنیا میں سرگرم مجاہد اور استقامت کا مظاہر کرنے والے گروہوں کو مضبوط بنانے اور غاصب صہیونی رژیم اور اس کے حامیوں کے خلاف جدوجہد کی شدت میں اضافہ کرنے میں مضمر ہے۔ اسلامی ممالک، عرب ممالک اور فلسطین کے بارے میں احساس ذمہ داری رکھنے والے ممالک کی اقوام، خاص طور پر باغیرت جوان اس عظیم فرض اور ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیں اور اپنی شجاعانہ اور مدبرانہ جدوجہد کے ذریعے دشمن کو زوال اور نابودی کی جانب دھکیل دیں۔"

لہذا مسئلہ فلسطین سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کا راہ حل وہی جدوجہد اور مزاحمت کا راستہ ہے جس کا مظاہرہ اہل غزہ نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف 51 روزہ جنگ کے دوران کیا۔ انہی حالیہ مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں جو "فلسطین کی جانب واپسی" کے نام سے معروف ہو گئے ہیں بہت سے بیگناہ فلسطینیوں کا خون بہایا جا چکا ہے۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کی سلامتی کو دھچکہ پہنچا ہے اور اسے بھاری سکیورٹی تاوان ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطینی خود کو موجودہ سرحدوں میں محصور نہ کریں۔ ان کا نقطہ نظر غاصب صہیونی رژیم سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل مسلح جدوجہد اور مزاحمت ہے۔

3)۔ غاصب صہیونی حکام اور امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ "اسلامی مزاحمت" اور جدوجہد ہے۔ اگرچہ خطے کے بعض ممالک اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے شوقین نظر آتے ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل کیلئے دردناک امر اسلامی مزاحمت ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور اسرائیل سے سازباز کا نعرہ لگانے والے بعض عرب حکمرانوں کے موقف کا پرچار درحقیقت مغربی تھنک ٹینکس اور حکمرانوں کی خواہش پر کیا جا رہا ہے۔ صہیونی اور امریکی حکام کی حقیقی مشکل مسئلہ فلسطین نہیں بلکہ اسلامی مزاحمت پر مشتمل وہ نظریہ ہے جو فلسطینیوں کے نظریاتی اور سماجی سیٹ اپ میں رسوخ کر چکا ہے۔ مغربی طاقتیں اس نظریئے کی جڑ ایران کو سمجھتی ہیں۔

امریکی اور صہیونی حکام کی جانب سے ایران کو عالمی سطح پر بڑا سکیورٹی خطرہ متعارف کروائے جانے کی کوششوں کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ وہ ایران کو اسلامی مزاحمتی نظریئے کی لیڈرشپ سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ مغربی ایشیائی خطے کے بارے میں امریکی حکام کی بڑی پریشانی اور مشکل یہاں کے اسٹریٹجک یا جیوپولیٹیکل امور نہیں بلکہ نظریاتی تنازعات ہیں۔ امریکہ اور اس کے پٹھو اسلامی نظریات سے خوفزدہ ہیں۔ فلسطینی عوام کی مزاحمت امریکی اور صہیونی حکام کیلئے ڈراونا خواب ہے۔ امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں کے میزائلوں سے اس قدر خوفزدہ نہیں جتنا ان میں موجود اسلامی مزاحمتی سوچ سے خوفزدہ ہیں۔

4)۔ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ وہ غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں اپنے پاوں پر کھڑے ہو جائیں اور دوسروں پر تکیہ نہ کریں۔ یہ سوچ کہ اسرائیل سے سازباز کے بعد فلسطینیوں کی تمام مشکلات اور مسائل حل ہو جائیں گے انتہائی غلط سوچ ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دو ریاستی حل کے بعد مقبوضہ فلسطین میں دو جمہوری حکومتیں تشکیل پا جائیں گی، ایک یہودی اور ایک مسلمان، اور امن و امان سے مل کر رہیں گی تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا جانا اس سوچ کے باطل اور خیالی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
خبر کا کوڈ : 717161
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش