0
Sunday 15 Apr 2018 15:19

خواب غفلت سے بیدار ہونیکا وقت

خواب غفلت سے بیدار ہونیکا وقت
تحریر: ناصر رینگچن

اس وقت مشرق وسطٰی کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے ہزاروں ٹھوکریں کھانے کے باوجود ابھی تک کوئی سبق حاصل نہیں کئے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے شام میں امریکی نئے پروپیگنڈے اپنے عروج پر ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی بار آزما چکے ہیں۔ جب سے مغربی پشت پناہی میں شامی حکومت کے ساتھ لڑنے والے دہشت گردوں کو شکست ہوئی ہے امریکہ و اسرائیل سخت پریشان ہیں اور شامی حکومت پر بےبنیاد الزامات لگارہے ہیں، اوپر سے اسرائیل نے بھی امریکہ کے اشارے پر شام اور فلسطین میں اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے اور حال ہی میں ایک شامی ائربیس پر بھی میزائل داغے گئے ہیں۔ مشرق وسطٰی میں جاری سیاسی کشمکش ایک طرف، لیکن مجھے تعجب اُن مسلمان حکمرانوں پر ہے جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے، جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ در حالیکہ جزیر ۃالعرب مسلمانوں کی مقدس ترین سرزمین ہے، جہاں سے اسلام کی ابتداء ہوئی، کعبہ، مسجد نبوی، مسجد الحرام غرض ہمارے سارے مقدس مقامات اسی سرزمین میں ہی موجود ہیں جس کی وجہ سے تمام مسلمان اس سرزمین سے خاص لگاو رکھتے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سعودی بادشاہت جو اپنے آپ کو خادم الحرمین شریفین کہتے ہیں ان کے ذاتی اور سیاسی اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑرہے ہیں۔

مغربی طاقتیں خصوصا امریکہ و برطانیہ نے مسلمانوں کو جو نقصانات پہنچائے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، امریکہ کی تاریخ بےگناہ انسانوں کے خون سے رنگین اور سیاہ ہے، امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں جو مستقیم اور غیر مستقیم طریقے سے مداخلت یا حملے کئے ہیں ان میں اب تک ایک اندازہ کے مطابق چودہ ملین افراد موت کے منہ جا چکے ہیں لیکن نہ کوئی ان کے خلاف بولتا ہے اور نہ کوئی ان کو دہشت گرد کہتا ہے کیونکہ ہمارے ذہنوں میں مغربی حوالے سے ایک افسانوی خاکہ غالب آچکا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے کرسکتا ہے، اور وہ جو کرتا ہے صحیح کرتا ہے، پھر کچھ اندرونی طور پر ڈالروں کی چمک دمک اور مفادات بھی خاطر نظر ہوتے ہیں۔ بعض مسلمان سعودی عرب کے خلاف مقدس مقامات کی وجہ سے کچھ سننے کو تیار نہیں، مسلمانوں کے اس اعتقاد کا احترام اپنی جگہ لیکن دوسری جانب ہم زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں نے جس طرح آل سعود حکمرانوں کو قابل اعتماد سمجھا ہوا تھا، اس کا جواب انہوں نے حالیہ کچھ دنوں میں کچھ اس طرح دیا ہے کہ جس نے تمام دنیا میں موجود مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جن میں سے تین اہم واقعہ یہ ہیں، پہلا غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا گویا عالم اسلام کے قلب میں خنجر مارنے کی مانند ہے، دوسرا بھارتی مسافر بردار جہاز نے پہلی بار اسرائیل جانے کے لئے سعودی فضائی حدود کا استعمال کیا اور یوں آل سعود نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ روابط کا سلسلہ بھی شروع کردیا، پہلے تو سعودی اسرائیلی تعلقات کی کہانی پشت پردہ ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد بن سلمان نے کھل کر اسرائیل سے تعلقات کو آشکار کیا ہے، جس نے عالم اسلام، مخصوصا فلسطین کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی نئی لہر ایجاد کی ہے۔

تیسرا سعودی عرب کا امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے اسلحہ کی خریداری۔ آج دنیا کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی اندورونی تبدیلیاں، آل سعود کا روشن ہوتا اصل چہرہ اور امریکہ، برطانیہ، فرانس سے بلینز ڈالرز کے اسلحہ کی خریداری! آخر یہ سب کیوں اور کس لئے؟ کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ اسلام کا اصل دشمن امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ہے دوسری طرف خادم الحرمین اسلام کے دشمنوں سے دوستی اور ان سے جنگی وسائل خرید رہے ہیں اور یہ امر باعث تعجب ہے کہ آخر سعودی عرب نے ان اسلحوں کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ آیا یمن کے نہتے غریب عوام پر استعمال کرنا ہے یا شام، عراق، لیبیا، افغانستان میں موجود تکفیریوں کو سپلائی کرنا ہے؟ یا کسی اور اسلامی ملک کے خلاف؟ بہرصورت میں نقصان مسلمان ممالک اور دین اسلام کا ہے اور فائدہ صرف اور صرف اسلام دشمن عالمی استعماری طاقتوں کو ہے۔ اسلام کے مقابلے میں اسلام دشمن عناصر سے جو دوستی کرتے ہیں جیسے آل سعود، انہی کے بارے میں قرآن کریم میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: "آپ ان میں سے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ اپنے لئے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے"۔ سورہ مائدہ آیت ۸۰ ۔ بعض لوگ اس کو سیاست کا بھی نام دیتے ہیں لیکن سیاست ٹھیک ہے ہمیں ہر وقت اپنی دشمنوں سے جنگ نہیں کرنی چاہیئے، کبھی سیاسی اور دوسرے طریقوں سے بھی مسائل کا حل نکالنا چاہیئے لیکن اس سیاسی ڈیلنگ کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں، کیونکہ ہم جو بھی کام انجام دیں یہ کبھی بھی ہم سے خوش نہیں ہونگے جبتک کہ ہم اپنے دین اور ایمان سے ہاتھ نہ اٹھا لیں، سورہ بقرہ میں خداوند متعال فرماتا ہے: "اور آپ سے یہود و نصاری اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔ کہہ دیجٗے یقیناًاللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لٗے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کار ساز ہوگا اور نہ مددگار"۔ بقرہ: ۱۲۰۔

کبھی ہم یہ بھی سوچھتے ہیں کہ شاید عالمی طاقتوں سے دوستی میں ہی ہماری بقاء ہے اور اس دوستی میں ہم اپنی حدین پار کر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اب دوستی نبھانے کی باری اُن کی ہے تو "ڈو مور" کا مطالبہ سننے میں آتا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چک گئیں کھیت، خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب دودھ دینے والی گائے ہے، جب تک دودھ ہے اس کو کامل دھو لو یعنی جب دودھ ختم ہو جائے تو صدام، قذافی کی طرح ان کا کام تمام کردو۔ ابھی اگر امریکہ و مغربی طاقتیں آل سعود کی پذیرائی کر رہی ہیں تو یہ ان کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ان کے مال و ثروت اور قدرتی وسائل کی وجہ سے ہے، اسی طرح اگر کسی دوسرے اسلامی ملک کو اہمیت دے رہا ہے تو وہ بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر ہے، لیکن افسوس کہ ہم ابھی تک خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے ہیں۔ اسلام کے دشمن کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے، یہ لوگ فقط ہمیں اپنی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، جس طرح روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں مسلمانوں کو استعمال کیا گیا اور اس سے پاکستان سمیت عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے ہم سب باخبر ہیں مگر ہم نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ کبھی تجربہ اور تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرنا ہے۔ آج شام میں عالمی طاقتیں مسلمانوں کے ساتھ وہ کھیل کھیل رہی ہیں کہ اگر اب بھی مسلمان بیدار نہ ہوئے اوران ناپاک عزائم کو نہ سمجھے، تو اس کا خمیازہ ہماری اگلی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ دقت کی بھی ضرورت نہیں بس صرف امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی تاریخ کو سامنے رکھ کر حالات حاضرہ پر رنگ و نسل، جذبات اور مفادات کی عینک اتار کر انسانیت اور مسلمانیت کی عینک سے دیکھیں تو حقیقت کو جاننے میں مشکل نہیں ہوگی۔ شام کے حالات سے عالم اسلام اور عالمی حالات پر گہرا اثر پڑے گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بصیرت کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیئے اور کس کے ساتھ دینا چاہیئے۔ قرآن کریم سورہ النساء میں خداوند متعال ارشار فرماتا ہے: "جو ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا یہ لوگ ان سے عزت کی توقع رکھتے ہیں؟ بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے"۔ النساء: ۱۳۹
خبر کا کوڈ : 718111
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش